بچپن کی سہانی یادیں
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
بچپن کی سہانی یادیں
تحریر: ذوالفقار علی بخاری
مجھے آج ٹھیک سے یاد نہیں ہے کہ کس عمر سے رسائل کو پڑھنا شروع کیا تھا،مگر جب لفظوں سے آشنائی ہوئی تو ظاہر سی بات ہے پڑھنا بھی آگیا تھا۔بچپن میں بہت ڈر ہوا اور سہما ہوا سا بچہ تھا جو کہ قدرے شرمیلا سا بھی تھا۔مجھے اپنے اردگرد بچوں کی نسبت اپنی دنیا میں مگن رہنا بہت زیادہ پسند تھا، اور یہ دنیا رسائل کی دنیا تھی، اُ س وقت کے بچوں کے رسائل اور کہانیاں اپنی والدہ کی بدولت مجھے باآسانی مل جاتی تھیں۔اُن کی خواہش تھی کہ بچے گھر پر ہی رہیں اور اسی وجہ سے انہوں نے مطالعے کی جانب ہماری توجہ مرکوز کرائی اور شروع شروع کے دنوں میں وہ کہانیاں بھی سناتی تھیں تاکہ ہم اس دنیا کے شیدائی ہو جائیں۔اگرچہ آج بچوں کو اس طرح کی سہولت کم ہی مل پاتی ہے کہ جدید ایجادات نے بہت سے اچھے مشاغل کو پس پشت ڈال دیا ہے۔اگر دل پر ہاتھ رکھ کر سوچا جائے تو پھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ماضی آج کے حالات سے لاکھ درجہ بہتر تھا کہ تب ہم ایک دوسرے سے خوب باتیں کیا کرتے تھے جو جدید آلات کے آنے کے بعد کم ہو گئی ہیں۔
میرے والد صاحب چونکہ وکالت کے شعبہ سے منسلک تھے او ر صبح کے گئے تو پھر رات کے آخری پہر سے قبل ہی واپس آیا کرتے تھے۔اُن کا غصہ بہت تیز تھا جس کی وجہ سے میں اکثر اُس کمرے میں چھپ جاتا تھا جہاں وہ موجود نہیں ہوتے تھے۔اُن کا یہ ڈر اُ س وقت سے لے کر کالج کے زمانے تک باتی رہا تھا۔والد صاحب کی محبت تو بے پناہ تھی وہ اسکول لے جاتے تھے اور اکثر اسکول سے واپس بھی لے جاتے تھے، یہ خاص کر اُن دنوں میں ہوتا تھا جب بارش کا موسم ہوتا تھا، وہ سمجھتے تھے کہ اگر واپسی پر رکشے والا بارش کی وجہ سے نہ آسکا توتو پھر ہم وہیں اسکول میں ہی رک جائیں گے۔ یہ اُن کی چھٹی حس تھی جو کہ ہمیشہ ہی درست ثابت ہوتی تھی، مگر اس میں اپنے بچوں سے گہری محبت بھی چھپی ہوئی تھی۔ اس محبت کے باوجود بھی ہم اُن کے ایک اصول کی وجہ سے بہت پٹتے تھے کہ ہم مغرب کے بعد بھی کھیل کے میدان میں کھیلا کرتے تھے یا کسی بھی چیز لینے کے بہانے گھر سے باہر ہوتے تھے۔یہ اُن دنوں کی بات ہے جب حالات اتنے مخدوش نہیں تھے جتنے آج ہو چکے ہیں مگر یہ شامت مہینے میں ایک بار یا کبھی کبھار ہی ہوا کرتی تھی۔
اگرچہ ہم گھر سے بہت کم ہی باہر نکلتے تھے اور آج یہ سن کر بہت سارے بچوں اور بڑوں کو بھی حیرت ہوگی مگر شاید اُن کو نہ ہو جو میرے والد صاحب کے جیسے عمل کرتے ہیں۔ہمارے والد صاحب ہر چھٹی کے دن (جمعہ /اتوار) ہمیں ساتھ لے کر کسی بھی کھیل کے میدان میں جایا کرتے تھے اور بڑے شوق سے ہمیں کھیلتے ہوئے دیکھا کرتے تھے، اُن کے اس برتاؤ کی وجہ سے اکثر ہمارے ہم عمر بچے یہ سمجھتے تھے کہ ہم اپنے کسی چچا کے ساتھ کھیلنے کے لئے آئے ہوئے ہیں۔بچوں میں خود اعتمادی پیدا کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ والدین اُن کے ساتھ کچھ وقت گذاریں، ایسا نہ کرنے کی وجہ سے ہی آج بچے بہت سے مسائل کا شکار بھی ہو رہے ہیں۔ ایک بار تو وڈیو گیمز کی دکان پر بھی خود چھوڑ کر آئے تھے، دکان دار نے جب ہم سے پوچھا کہ یہ آپ کے چچا ہیں؟تو ہم نے بڑی خوشی سے بتایا کہ یہ تو ہمارے والد صاحب ہیں جو کہ چاہتے تھے کہ ہم ایک دو بار اس سے لطف اندوز ہو جائیں کہ ہم نے گھر میں اپنے دوستوں سے سن کر کہہ دیا تھا کہ ہم نے بھی وڈیو گیمز کھیلنی ہیں۔
و آج کے دور میں بچے بہت ہی کم والدین کے ساتھ ڈرامے یا فلمیں دیکھتے ہونگے مگر اُس دور میں والد صاحب نے گھر پر ہی ہم کو قید رکھنے کی خاطر یہ بھی ایک عرصہ تک اہتمام کیا ہوا تھا کہ ہم کوئی اچھی سی فلم گھر پر دیکھیں۔دل چسپ بات یہ بھی ہے کہ ہم اپنی مرحومہ نانی اماں کے ہاں جب بھی جاتے تھے وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ کرفلم دیکھا کر تی تھیں۔ ایک بار ایسا ہوا ہے کہ کھیل کے میدان میں کھیلنے کے لئے گیا تو وہاں پر ایک اجنبی لڑکے نے بات چیت شروع کی تو میں چندسوالوں کے بعد وہاں سے گھر بھاگ آیا۔ اُ س دن کے بعد کبھی وہاں نہیں گیا، یہ اس وجہ سے ہوا تھا کہ خود اعتمادی کی کمی تھی میں لوگوں کے سوالوں کے جواب دینے سے کتراتا تھا۔اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ گھر میں رہنے اور گھلنے ملنے کی عادت نہ ہونے کی وجہ سے جواب دینا نہیں آتا تھا،مگر شاید یہ مطالعے کا اثر تھا کہ لاشعوری طور یہ بات دماغ میں تھی کہ اجنبی افراد پر اعتماد نہیں کرنا ہے جس کی وجہ سے بہت سے مسائل سے بچاؤ ممکن رہا ہے۔ ایک بچہ گھر پر رہ رہا ہے اور اُسے گھر سے باہر کے حالات کی خبر کے بارے میں بھی والدین کی جانب سے آگاہ نہیں کیا جا رہا ہے تو وہ بے حدذہنی دباؤ کا شکار ہو سکتا ہے۔میں بچپن سے ہی گھر سے باہر کم جاتا تھا، رشتے داروں سے بھی بات کم ہی ہوا کرتی تھی کہ ہم بہاولپورمیں رہا کرتے تھے اور وہ سب رحیم یار خان او ر روالپنڈی میں تھے۔
میرا بچپن کتاب اور گھر سے جڑا ہے، گھومنے پھرنے کا بہت شوقین نہیں تھا، فوج میں جانے کا بے حد شوق تھا مگر ایک بیمار ی کی وجہ سے نہیں جا سکا۔بچپن کی ایک یاد خاص ہے کہ ایک بار مرغی کے چوزے کی گردن پر چارپائی پر لیٹے کر ہلکا ہلکا سا انگوٹھے سے چھو رہا تھا اور بعد میں پتا چلا کہ وہ مر گیا ہے تو بہت دنوں تک اُس غم دل میں رہا ہے اور آج بھی افسوس ہو رہا ہے مگر تب پتا نہیں دماغ میں کیا تھا کہ ایسا ہو گیا تھا۔
چھوٹے بھائی شاہ نواز سے لڑائی اکثر ہوا کرتی تھی، شعیب سب سے چھوٹا تھا تو اُ س سے کبھی نہیں الجھا، یہ وہ عادت ہے جو کہ آج بھی برقرار ہے اور کچھ ایسا خاص نہیں بتا سکوں مگر اتنا ضرور ہے کہ شریر نہیں تھا، میں نے کبھی زندگی میں کسی کو ازخود جان بوجھ کر تکلیف نہیں دی ہے اوریہ عادت بچپن سے آج تک قائم ہے۔ اس لئے یہ میں کہہ سکتا ہوں کہ جب بچپن میں کچھ اچھی عادات بنا لی جاتی ہیں تو وہ وہ عمر بھر کام آتی ہیں اوریہی عادت ہی بعدازں کامیابی کی ضمانت بھی بنتی ہیں۔
میرا بچپن سادگی سے گذرا ہے اوریہی سادگی اب بھی قائم ہے، میں نے کبھی ضد کرکے کچھ نہیں منگوایا تھا کہ میں جانتا تھا کہ گھر کے حالات ایسے نہیں ہیں کہ والد پوری کر سکیں البتہ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ جو بھی دل میں ہوتا تھا وہ کبھی نہ کبھی ازخود ہی پورا ہو جاتا تھا یہی وہ دن ہیں جو آج بھی یاد آتے ہیں تو سوچتا ہوں کہ بچپن کے دن بھی کتنے سہانے تھے۔ ۔ختم شد۔ |