باغوں اور بہاروں کا خوبصورت اور دلکش شہر تجاویزات
کی بھر مار ،بے ہنگم ٹریفک ،سکڑتی سڑکیں، بڑھتی آبادی اور عدم برداشت میں
نہ جانے کہا گم ہوتا جارہا ہے لاہورہمارا پیارا اور خوبصورت شہر جی ہاں وہی
لاہور جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جس نے لاہور نہیں ویکھیا او جمیاں ای
نہیں اسے پنجابی میں لہور فارسی اور انگریزی میں لاہور کہتے ہیں صوبہ پنجاب
کا دار الحکومت اورپاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے اسے پاکستان کا ثقافتی،
تعلیمی اور تاریخی مرکز کے ساتھ ساتھ پاکستان کا دل اور باغوں کا شہربھی
کہا جاتا ہے دریائے راوی کے کنارے آباد اس خوبصورت شہر کی آبادی ایک کروڑسے
زائدہے لاہور کا شمار دنیا کے قدیم اور اہم ترین شہروں میں کیا جاتا ہے
زندہ دلان لاہور کے روایتی جوش و جذبے کے باعث اسے بجا طور پر پاکستان کا
دل کہا جاتا ہے لاہور کی انتہائی قدیم تاریخ ہزاروں سال پر پھیلی ہوئی ہے
رام کے بیٹے راجہ لوہ نے شہر لاہور کی بنیاد رکھی اور یہاں ایک قلعہ بنوایا
دسویں صدی تک یہ شہر ہندو راجاؤں کے زیرتسلط رہا گیارہویں صدی میں سلطان
محمود غزنوی نے پنجاب فتح کرکے ایاز کو لاہور کا گورنر مقرر کیا، اور لاہور
کو اسلام سے روشناس کرایا۔ شہاب الدین غوری نے 1186ء میں لاہور کو فتح کیا
بعدازاں یہ خاندان غلاماں کے ہاتھوں میں آ گیا 1290 میں خلجی خاندان، 1320
میں تغلق خاندان، 1414 سید خاندان اور 1451ء لودھی خاندان کے تحت رہا ظہیر
الدین بابر نے 1526 میں ابراہیم لودھی کو شکست دی جس کے نتیجے میں مغلیہ
سلطنت وجود میں آئی مغلوں نے اپنے دور میں لاہور میں عظیم الشان عمارات
تعمیر کروائیں اور کئی باغات لگوائے اکبر اعظم نے شاہی قلعہ کو ازسرنو
تعمیر کروایا شاہجہان نے شالامار باغ تعمیر کروایا جو اپنی مثال آپ ہے 1646
میں شہزادی جہاں آرا نے دریائے راوی کے کنارے چوبرجی باغ تعمیر کروایا جس
کا بیرونی دروازہ آج بھی موجود ہے 1673 میں اورنگزیب عالمگیر نے شاہی قلعہ
کے سامنے بادشاہی مسجد تعمیر کروائی 1739 میں نادر شاہ اور 1751 میں احمد
شاہ ابدالی نے لاہور پر قبضہ جمایا 1765 میں سکھوں نے لاہور پر قبضہ کر لیا
سکھ دور میں مغلیہ دور کی کئی عمارتوں کو نقصان پہنچایا گیا اور ان کی بے
حرمتی کی گئی انگریزوں نے 1849 میں سکھوں کو شکست دیکر پنجاب کو برطانوی
سلطنت میں شامل کر لیا لاہور کو ایک منفرد اعزازیہ بھی حاصل ہے کہ 23 مارچ
1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ نے قائداعظم کے زیر صدارت قرارداد پاکستان
منظور کی جس کے نتیجے میں 14 اگست 1947 کو مسلمانوں کو اپنا الگ آزاد ملک
پاکستان حاصل ہوا 19 فروری 1974 میں اس شہر نے دوسری اسلامی سربراہی
کانفرنس کی میزبانی بھی کی قدیم لاہور شاہی قلعہ کے ساتھ واقع ہے جسے
اندرون لاہور بھی کہا جاتا ہے لاہور کے گرد ایک فصیل موجود تھی جس میں تیرہ
دروازے تھے جوکہ سکھوں کے دور تک غروب آفتاب کے ساتھ بند کر دیئے جاتے تھے
ان میں سے کچھ دروازوے اب بھی موجود ہیں تیرہ دروازوں کے نام بھاٹی دروازہ،
لوہاری دروازہ، شاہ عالمی دروازہ، موچی دروازہ، اکبری دروازہ، یکی دروازہ،
شیرانوالہ دروازہ، کشمیری دروازہ، مستی دروازہ، دہلی دروازہ، روشنائی
دروازہ، ٹکسالی دروازہ، موری دروازہ ہیں بیسویں صدی میں قدیم لاہور کے
مضافات میں کئی جدید بستیوں کا اضافہ ہوا جسکی وجہ سے لاہور کی ٹریفک اور
شور شرابے میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا ہے اندرون لاہور سے موٹروے تک جانا
ہو تو مشکل ترین سفر بن جاتا ہے منٹوں کا سفر گھنٹوں تک پھیل جاتا ہے انہی
مشکلات اور شہریوں کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے وزیر اعلی سردار عثمان بزدار
نے سگیاں روڈو شرقپور روڈ کی تعمیر و بحالی کے منصوبے کا سنگ بنیادرکھ دیا
اس منصوبے پر 4 ارب 32 کروڑ روپے لاگت آئے گی اس سڑک پر سفر کرنے والے
بخوبی جانتے ہیں کہ چند کلومیٹر کا یہ سفر نہ صرف پریشانی کا باعث بنتا ہے
بلکہ گاڑیوں کے نقصان کا سبب بھی بنتا ہے مگر اب یہ روڈ بننے سے اندرون شہر
والوں کے لیے آسانیاں پیدا ہوجائیں گی وزیراعلیٰ نے شاہدرہ میں فلائی اوور
کی تعمیر کا اعلان بھی کیاہے جو رواں سال بننا شروع ہو جائے گااس فلائی
اوور سے دریائے راوی پر جو ٹریفک جام رہتی تھی وہ بھی ٹینشن ختم ہوجائیگی
اسکے ساتھ ساتھ ایلیویٹڈ ایکسپریس وے منصوبہ بھی شروع ہونے جارہا ہے 60 ارب
روپے کی لاگت سے گلبرگ سے موٹر وے تک ایکسپریس وے بنے گی ایکسپریس وے بننے
سے عوام کو آمد و رفت میں بے پناہ سہولت اور آسانی ملے گی یہ منصوبہ مین
بلیوارڈ گلبرگ سے موٹروے ایم ٹو تک تعمیر کیاجائے گا جس سے موٹروے کی طرف
جانے والی ٹریفک کی روانی میں بہتری آئے گی یہ منصوبہ سینٹرل سٹی کو موٹروے
سے ملانے کے ساتھ ساتھ شہر کے اہم ٹریفک کوریڈورز کو بھی یہ منصوبہ آپس میں
ملائے گا منصوبے کے متعلق ماحولیاتی آلودگی کی رپورٹ جاری ہو چکی ہے منصوبے
کی کل لمبائی 10.5کلومیٹر ہے اورروزانہ 73ہزار سے زائد گاڑیوں کو سہولت
میسر آئے گی یہ منصوبہ15ماہ میں مکمل ہوگا منصوبے میں شامل چارچار لینز پر
مشتمل ڈیول کیرج پر 61بلین اور تین تین لینز پر مشتمل ڈیول کیرج پر 53بلین
روپے لاگت آئے گی منصوبے سے 20سال میں ٹال ٹیکس کی مد میں 120بلین روپے
حاصل ہوں گے منصوبے سے ایک سے دوسری جگہ جانے کے لیے کم از کم 20کلومیٹر کا
فاصلہ کم ہوگا شہریوں کو آنے جانے میں تیس منٹ کی بچت ہوگی اس منصوبے سے
سموگ اور آلودگی میں کمی واقع ہوگی ایندھن کی مد میں کروڑوں روپے کی بچت
ہوگی منصوبے پر خرچ ہونے والی رقم دس سے 13سال میں ٹال ٹیکس کی مد میں پوری
ہو جائے گی منصوبے پرآنے والی لاگت کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ،پبلک
فنڈنگ،کمرشل لون اور دیگر ذرائع شامل ہیں منصوبے سے گلبرگ، کینال روڈ،فیروز
پورروڈ،ملتان روڈ،سمن آباد،گلشن راوی، بند روڈ، ظفر علی روڈ،جیل روڈ، مال
روڈ، اچھرہ، ٹولنٹن مارکیٹ، عابد مارکیٹ، شادمان مارکیٹ،سروسز ہسپتال،پنجاب
انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی،لاہور کالج، کنیرڈ کالج،ہوم اکنامکس کالج، ایل او
ایس اور ریسکیو1122 سمیت بہت سے علاقے مستفید ہوں گے۔
|