#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَہِ حٰمٓ السجدة ، اٰیت 9 تا
12 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
قل
ائنکم
لتکفرون
بالذی خلق الارض
فی یومین وتجعلون لهٗ
اندادا ذٰلک رب العٰلمین 9 و
جعل فیھارواسی من فوقہا وبٰرک
فیھا وقدر فیھا اقواتھا فی اربعة ایام
سواء للسائلین 10 ثم استوٰی الی السماء
وھی دخان فقال لھا وللارض ائتیا طوعا او
کرھا قالتااتینا طائعین 11 فقضٰھن سبع سمٰوٰت
فی یومین واوحٰی فی کل سماء امرھا وزیناالسماء
الدنیا بمصابیح و حفظا ذٰلک تقدیر العزیز العلیم 12
اے ہمارے رسُول ! آپ اِس مُشرک معاشرے کے اہلِ شرک سے پُوچھیں کہ تُمہاری
عقلوں کو آخر کیا ہو گیا ہے کہ تُم اپنے فکر و خیال میں خُدا کے برابر کے
خُدا بنا کر اُس خُدا کا انکار کر رہے ہو جس خُدا نے پہلے ایک زمانے تک
تُمہاری زمین کو ایک آتشی مادے کی صورت میں رکھا اور دُوسرے زمانے میں اُس
کو متوازن بنا کر سکون کی اُس حالت تک پُہنچا دیا جس میں تُم اِس وقت سکون
سے رہ رہے ہو اور اُس خُدا نے اِس زمین میں وہ بڑے بڑے پہاڑ بھی گاڑ دیۓ جو
اِس زمین کے توازن کا ذریعہ ہونے کے علاوہ اِس زمین میں آب رسانی کا بھی
ایک ذریعہ ہیں اور اُس خُدا نے اِس زمین میں پیداوار کا ایک ایسا خود کار
بے خطا نظام بھی قائم کر دیا جس خود کار نظام کے تحت اِس زمین میں ہر موسم
کے بعد ایک موسم پیدا ہوتا ہے اور ہر موسم میں ہر موسم کے ہر جاندار کی جان
پروری کا سامان بھی پیدا ہوتا رہتا ہے کیونکہ اِس جہان کا وہی ایک خُدا ہے
جو ہر بے جان کو جان دیتا ہے اور ہر جان کو سامانِ جان بھی دیتا ہے ، زمین
کی اِس تشکیل و تکمیل کے بعد اُس خُدا نے خلاۓ بسیط میں اپنی بنائی ہوئی
اُس غیر منظم دُخانی گیس پر توجہ مبذول کی اور اُس غیر منظم گیس کو اُس کے
مناسبِ حال دائروں میں مُدوّر کر کے اُن کو ستاروں اور سیاروں کی صورت دے
دی جو ہر شب اِس خلا میں تُم کو نظر آتے ہیں ، پھر اُس نے خلاء و گیس کی
اُن تازہ تیار حالتوں سے کہا کہ اَب تُم جانو نہ جانو اور چاہو یا نہ چاہو
مگر ہم جانتے ہیں کہ اَب تُم ہمارے اُن مقاصد کی تعمیل و تکمیل کے لیۓ تیار
ہو چکے ہو جن مقاصد کی تعمیل و تکمیل کے لیۓ ہم نے تُم کو پیدا کیا ہے اور
ہم چاہتے ہیں اَب تُم اپنے اُس کام کے لیۓ تیار ہو جاؤ جو کام تُم نے ہمارے
حُکم کے مطابق کرنا ہے ، زمین جو پہلے ہی یہ عہدِ وفا کرچکی تھی اِس لیۓ
گیس اور خلاء کی اِن دو حالتوں نے بھی کہا کہ ہم اپنے خالق کے حُکم پر عمل
کرنے کے لیۓ تیار ہیں ، پھر اُس نے گیس سے بنے اُن ستاروں اور سیاروں کو
خلا میں چلاکر زمین کے قریبی آسمان کو اُن کے رنگوں اور روشنیوں سے سجادیا
اور پھر اُن کو اپنے اپنے دائرہِ عمل کا پابند کر کے محفوظ بھی بنا دیا ،
پھر اُس نے اِس زمین و آسمان کے دو مرحلوں کی طرح دو مرحلوں میں دائرہ در
دائرہ سات آسمانی و خلائی مُدوّر دائرے بناۓ اور اُن دائروں کو بھی زمین و
خلا اور اُس کے ستاروں اور سیاروں کی طرح اپنے اَحکام کا پابند بنا دیا اور
اِن کے اِس قیام و انہدام کا سارا علم اُسی خُداۓ عالم و غالب کے علم ہے کہ
کس نے کب تک رہنا ہے اور کس نے کب فنا ہو جانا ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سے قبل زمین و آسمان کے لُغوی مفاہیم و علمی مقاصد اور سائنسی مطالب کے
بارے میں ہم کئی مقامات پر بزعمِ خود جو سیر حاصل گفتگو کر چکے ہیں وہ
گفتگو مُکمل ہونے کے باوجُود بھی اِس لیۓ ایک غیر مُکمل گفتگو رہی ہے کہ
عالَمِ ناتمام جو ابھی تک ناتمام ہے اِس کے بظاہر تمام ہونے والے سمعی و
بصری اور علمی و فکری گوشے انسان کے لیۓ ابھی بھی ناتمام کے نا تمام ہیں
اور شاید صدیوں بعد ہی کبھی وہ وقت آۓ گا جب اِس عالَم کے بارے میں انسان
کامل یقین کے ساتھ کوئی مُکمل و غیر مُبہم اور یقینی بات کر پاۓ گا ،
قُرآنِ کریم کے موجُودہ مقام پر ارض و سما کے بارے میں تنزیل کا جو علمِ
تخلیق و تحقیق اور علمِ تصدیق موجُود ہے وہ اِس لَمحہِ موجُود میں ایک
انسان کے لیۓ اتناہی قابل فہم ہے جتنا کہ اُس انسان کا علم و فہم ہے اور
انسان کے اِس علم و فہم کے مطابق جدید و قدیم اہلِ فہم نے زمین و آسمان کے
بارے میں زمین و آسمان کے جو قلابے ملاۓ ہیں وہ اُن کے اُس عمل کے اعتبار
سے تو جتنے طویل و جلیل ہیں اپنے نتائجِ فہم و عمل کے اعتبار سے اتنے ہی
محدُود اور قلیل ہیں اِس لیۓ ہم اُن مباحثوں کے نقل و اخذ کے حوالوں اور
سوالوں سے احتراز کرتے ہوۓ اٰیاتِ بالا کی ترتیبِ بالا سے اور ترتیبِ بالا
کے مفہومِ بالا سے جو چند قوانین مُتبادر ہوتے ہیں اُن قوانین میں سے تین
عام فہم قوانین کی طرف توجہ دلائیں گے جن کے فہم سے اٰیاتِ بالا میں آنے
والا مضمونِِ بالا ہمارے گمان کی حد تک انسان کے لیۓ ایک آسان اور قابلِ
فہم مضمون بن جاۓ گا ، سب سے پہلے تو تخلیق عالَم کا یہ قانون ہمیشہ ہی پیش
نظر رہنا چاہیۓ کہ عالَمِ خلق کے جُملہ اَجزاۓ خلق کا خالق صرف اللہ تعالٰی
ہے اِس لیۓ۔قُرآنِ کریم جب تشکیلِ زمین کے بعد اللہ تعالٰی کے آسمان کی طرف
متوجہ ہونے اور پھر آسمان میں دُخانی گیس کے موجُود ہونے کا ذکر کرتا ہے تو
اُس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ وہ گیس خود بخود وہاں پیدا ہوگئی تھی اور
اللہ تعالٰی نے اُس پیدا شدہ گیس کو ایک خاص ترتیب دے کر قابلِ استعمال بنا
لیا تھا بلکہ اُس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ جس طرح اُس خالق نے زمین کی
اِس موجُودہ شکل سے پہلے زمین کو اِس کے ایک مرحلہِ تشکیل کی تکمیل کے لیۓ
ایک سیال آتشی مادے کی صورت میں ایک خاص زمانے سے ایک خاص زمانے تک رکھا
ہوا تھا اسی طرح اُس خالق نے خلا میں گیس کو بھی گیس کی اِس آخری شکل میں
لانے سے پہلے اُس کے مرحلہِ تشکیل کی تکمیل کے لیۓ ایک خاص زمانے سے ایک
خاص زمانے تک رکھا ہوا تھا اور پھر جس طرح اُس آتشی مادے کے بعد زمین کی
موجُودہ شکل اپنے مقررہ وقت پر اُس نے خود بنائی تھی اسی طرح خلا کی اُس
غیر منظم گیس کی اُس پرانی شکل سے یہ نئی شکل بھی اپنے مقررہ وقت پر اُس نے
خود ہی بنائی تھی ، اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا سے جو دُوسرا قانون مُتبادر
ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اٰیاتِ بالا میں اشیاۓ تخلیق کا جو تقدم و تاخر نظر
آتا ہے وہ اِن اشیاۓ تخلیق کے زمان و مکان کے اعتبار سے اِن کا تقدم و تاخر
نہیں ہے بلکہ زبان و بیان کے اعتبار سے اِن کا تقدم و تاخر ہے اِس لیۓ اِس
مضمون میں یہ بحث ایک بے مقصد و بے محل بحث ہے کہ پہلے کیا بنا ہے اور بعد
میں کیا بنا ہے کیونکہ اِس مضمون میں زمین کا ذکر جو آسمان کے ذکر سے پہلے
کیا گیا ہے وہ انسان کے قریبی مشاہدے کے اعتبار سے کیا گیا ہے اور آسمان کا
ذکر جو زمین کے ذکر کے بعد کیا گیا ہے وہ اللہ تعالٰی کی اِس علُوۓ شان کو
ظاہر کرنے کے لیۓ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی نے صرف یہ ایک زمین ہی نہیں
بنائی ہے جس کو تُم برت رہے ہو اور اللہ تعالٰی نے صرف یہ ایک آسمان ہی
نہیں بنایا ہے جس کو تُم دیکھ رہے ہو بلکہ اللہ تعالٰی نے اِس زمین جیسی
اور بھی بہت سی زمینیں بنائی ہوئی ہیں اور اللہ تعالٰی نے اِس آسمان جیسے
اور بھی بہت سے آسمان بناۓ ہوۓ ہیں جن کی تعداد انسانی تفہیم و تسہیل کے
لیۓ سات سات بیان کی گئی ہے لیکن یہ تو کہیں بھی نہیں کہا گیا ہے کہ سات
سات کی یہ تعداد اُس کی تخلیق کی وہ آخری حد ہے جس کے بعد کوئی اور زمین یا
کوئی آسمان نہیں ہے ، اور سب سے دل چسپ اَمر تو یہ ہے کہ عہدِ جدید کے
عُلماۓ سائنس آج اپنی انتہائی حساس مشینی آنکھوں سے بلین بلین نُورانی
برسوں کے فاصلے پر خلا میں جو چھوٹے بڑے سحابیۓ و شہابیۓ اور بہت سے دُوسرے
حیران کُن خلائی وجُود دیکھ رہے ہیں وہ بھی ہماری اسی زمین کے ہمساۓ اور
ہمارے اسی آسمان کے ساۓ میں ہیں جن سے اِس اَمر کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے
کہ اگر ہمارا یہ نظری و بصری عالَم اتنا وسیع ہے تو اللہ تعالٰی کا سارا
عالَم کتنا وسیع ہو گا ، اٰیاتِ بالا کے الفاظ { طوعا و کرھا } سے جو تیسرا
قانون مُتبادر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ درخت جب پک تیار ہو جاتا ہے تو وہ جانے
کہ نہ جانے اور وہ چاہے کہ نہ چاہے اُس کا جو پھل زمین پر گرنا ہوتا ہے وہ
زمین پر گرتا ہے ، اُس کا جو پھل انسان کے ہاتھ آنا ہوتا ہے وہ انسان کے
ہاتھ آتا ہے اور اُس کا جو پھل پرندوں کے پوٹے میں جانا ہوتا ہے وہ پرندوں
کے پوٹے میں چلا جاتا ہے ، اِس فطری عمل میں صرف اِس امر سے بحث ہوتی ہے کہ
وہ درخت اُس مقصد کے لیۓ تیار ہو چکا ہے جس مقصد کے لیۓ لگانے والے نے اُس
کو لگایا ہے ، اُس میں اِس اَمر سے کوئی بحث نہیں ہوتی ہے کہ اُس درخت کے
لگانے والے نے اُس درخت کا پھل کب استعمال میں لانا ہے اور کس طرح استعمال
میں لانا ہے اِس لیۓ { طوعا و کرھا } کا یہ استعمال زبان و بیان کے اُس
اُسلوبِ کلام کا استعمال ہے جس کا یہ مقررہ مفہوم ہے اور اِس مقررہ مفہوم
میں جس طرح درخت کی مرضی یا درخت کی اطاعت و عدم اطاعت کی کوئی بحث نہیں
ہوتی اسی اللہ تعالٰی کی زیرِ بحث تخلیق میں بھی اُس زیرِ بحث تخلیق کی
مرضی یا اُس تخلیق کی اطاعت و عدمِ اطاعت زیرِ بحث نہیں ہے !!
|