#العلمAlilmعلمُ الکتاب سُورَہِ حٰمٓ السجدة ، اٰیت 1 تا
8 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
حٰمٓ 1
تنزیل من الرحمٰن
الرحیم 2 کتٰب فصلت
اٰیٰتهٗ قراٰنا عربیا لقوم یعلمون
3 بشیرا ونزیرا فاعرض اکثر ھم
فھم لایسمعون 4 وقالوا قلوبنا فی اکنة
مما تدعوناالیه وفی اٰذاننا وقرا وبیننا وبینک
حجاب فاعمل اننا عٰملون 5 قل انما انا بشر مثلکم
یوحٰی الیّ انما الٰھکم الٰه واحد فاستقیموا الیه واستغفروه
وویل للمشرکین 6 الذین لایؤتون الزکٰوة وھم بالاٰخرة ھم کٰفرون
7 ان الذین اٰمنوا وعملوا الصٰلحٰت لھم اجر غیر ممنون 8
یہ تنزیل اپنی ذات و علمِ ذات کا تعارف کرانے والے محمد پر اُس اللہ نے
نازل کی ہے جس کی ذات انسانی علم کی پہلی اساس اور انسانی نجات کی آخری آس
ہے ، اُس رحمٰن کے علم اور انسان کے عمل کی اِس تنزیل میں انسانی حیات کی
عربی زبان کی وہ ساری اٰیات ہیں جو عرب کے عربوں میں بولی جانے والی عربی
سے ایک مُختلف لب و لہجے میں پڑھی جانے والی عربی زبان ہے اور اِس عربی
تنزیل میں علم کی طلب رکھنے والوں کو فیضِ علم کی بشارت دی گئی ہے اور
جہالت پر قائم رہنے والوں کو اُن کی جہالت کے اَنجامِ بد سے ڈرایا گیا ہے
لیکن بہت کم لوگ ہیں جو اِس وقت اِس تنزیل کی روشنی میں آۓ ہیں اور بہت
زیادہ لوگ ہیں جو اپنی جہالت کی تاریکی سے علم کی اِس روشنی نہیں آتے بلکہ
وہ اپنی جہالت کی تاریکی سے اِس کو بُجھانا اور چُھپانا چاہتے ہیں اور وہ
اپنی اِس جسارت کا برملا اعلان کرتے ہوۓ بار بار کہتے ہیں کہ جس تنزیل کی
تُم ہمیں دعوت دے رہے ہو اُس تنزیل کے لیۓ ہم نے اپنے دل بند اور اپنے کان
بہرے بناکر اپنے اور تُمہارے درمیان ایک وسیع خلیج حائل کرلی ہے ، جب تک
تُم ہمیں اِس تنزیل کی دعوت دیتے رہو گے تب تک ہم بھی تُمہارے ساتھ اور
تُمہاری اِس تنزیل کے ساتھ اپنی اِس عداوت و دشمنی کو جاری رکھیں گے ،
دُشمنانِ قُرآن کے اِس جارحانہ اعلان کے بعد ہم نے بھی اپنے رسُول کو یہ
حُکم دے دیا ہے کہ آپ اللہ کی ربوبیت اور اپنی عبدیت کے بارے میں تمام اہلِ
زمین کے سامنے یہ اعلانِ عام کردیں کہ مَیں دُنیا کے اِس اندھیرے میں
تُمہارے پاس اللہ کی طرف سے بشارت و روشنی کی یہ تنزیل لے کر آیا ہوں تاکہ
تُم شرک کے اِن اندھیروں میں بہٹکنے کے بجاۓ توحید کی روشنی میں آجاؤ اور
اِس تنزیل میں تُمہارے لیۓ اللہ کا یہ کُھلا پیغام ہے کہ اللہ کے سوا کوئی
بھی تُمہارا الٰہ نہیں ہے اِس لیۓ تُم اِس تنزیل کے اَحکامِ نازلہ کی اتباع
کر کے اللہ کی حفاظت میں آجاؤ ، اِس تنزیل کے بعد تُم میں سے جو لوگ توحید
کی اِس تنزیل پر ایمان لاکر شرک سے اپنا تزکیہِ رُوح و جان نہیں کریں گے
اُن کے لیۓ ہمارے پاس ہماری کبھی نہ ختم ہونے والی سزاۓ جہنم ہے اور جو لوگ
اِس تنزیل پر ایمان لائیں گے اور اپنی اعلٰی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کے
مطابق اِس کے اَحکامِ نازلہ پر عمل کریں گے تو اُن کے لیۓ ہمارے پاس ہماری
کبھی نہ ختم ہونے والی جزاۓ جنت ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کا ایک مُتداول نام سُورَہِ { فُصلّت } ہے جو وہ اسمِ مصدر ہے جو
فعل{ فصل یفصل } کے مصدر فصل سے لیا گیا ہے اور جس کا معنٰی دو چیزوں کو
ایک دُوسری سے جُدا جُدا کر کے مُمیز عن التمیز کرنا ہوتا ہے لیکن { فُصلّت
} کا یہ معروف اسمِ مصدر اپنی لفظی ساخت کے اعتبار ماضی مجہول کا صیغہ ہے
جس کا مقصدی مفہوم ایک خاص تفصیل کے ساتھ مُفصل کی گئی وہ سُورت ہے جس
مُفصل سُورت کے ایک مُفصل مضمون کے ساتھ ایک دُوسرا مُفصل مضمون بھی شامل
کیا گیا ہے اور اِس سُورت کے اِس مُفصل بالتفصیل پس منظر کے اعتبار سے اِس
سُورت کا پہلا مضمون وہ ہے جو اٰیاتِ بالا میں لایا گیا ہے اور اٰیاتِ بالا
میں لایا گیا اِس تنزیل کا وہ مُفصل مضمون قُرآنِ کریم کے جن 11 مقامات پر
وارد ہوا ہے اُن 11 مقامات میں سے پہلا مقام سُورَةُالشعراء کی اٰیت 192 ،
دُوسرا مقام سُورَةُ السجدة کی اٰیت 2 ، تیسرا مقام سُورَہِ یٰسٓ کی اٰیت 5
، چوتھا مقام سُورَةُالزُمر کی اٰیت 1 ، پانچواں مقام سُورَہِ غافر کی اٰیت
2 اور چَھٹا مقام اِس سُورت کی اس اٰیت کا یہی مقام ہے اور اِس تنزیل کے
اِس چَھٹے مقام کے بعد اِس تنزیل کا ساتواں مقام اس سُورت کی اٰیت 42 ،
آٹھواں مقام سُورَةُالجاثیة کی اٰیت 2 ، نواں مقام سُورَةُالاَحقاف کی اٰیت
2 ، دسواں مقام سُورَةُالواقعة کی اٰیت 80 اور گیارہواں مقام سُورَةُ
الاحاقة کی اٰیت 43 ہے اور اِس طرح اِس سُورت کی اٰیاتِ بالا میں آنے والی
اِس دُوسری اٰیت نے تنزیل کے پہلے پانچ مقامات کے بعد آنے والے پانچ مقامات
کے درمیان ایک واضح حَدِ فاصل قائم کردی ہے تاکہ قُرآنِ کریم کا پڑھنے والا
انسان قُرآنِ کریم کی کتابی و نزولی ترتیب کے اِن تمام مقامات پر لفظِ
تنزیل کے ساتھ آنے والے اِس ایک موضوع کے اِن سارے مضامین کو اور اِن سارے
مضامین کی طرح اِس تنزیل کے اُن دُوسرے سارے موضوعات کے سارے مضامین کو بھی
اِس تنزیل کی اِسی کتابی و نزولی حُسنِ ترتیب کے ساتھ پڑھ سکے اور اسی
کتابی و نزولی حُسنِ ترتیب کے ساتھ سمجھ سکے جس کتابی و نزولی حُسنِ ترتیب
کے ساتھ یہ تنزیل نازل ہوئی ہے ، اِس سُورت کے اِس پہلے نام کے حوالے سے
آنے والا اِس سُورت کا دُوسرا مضمون بھی اٰیاتِ بالا کا وہی مضمون ہے جس
مضمون کے ذریعے اِس سُورت نے توحید و شرک ، ایمان و کفر اور حق و باطل کے
درمیان ایک ایسی حَدِ فاصل قائم کردی ہے جس میں توحید و شرک کے وہ دو
جُداگانہ دائرے بن چکے ہیں جن دو جداگانہ دائروں میں توحید کے دائرے کو شرک
کے دائرے سے اِس طرح مُمتاز عن التمیز کردیا گیا ہے کہ اِس دائرے میں اللہ
تعالٰی کی توحید کے ساتھ کسی حجری و شجری یا بشری بُت کو شامل کرنے کی کوئی
گنجائش نہیں ہے ، سیدنا محمد علیہ السلام کی رسالت کے ساتھ کسی امام و
مُجتہد ، کسی شیخ و زاہد اور کسی صوفی و مُلا کو شامل کرنے کے لیۓ بھی کوئی
جگہ نہیں ہے اور اُس رسُول پر نازل ہونے والی اِس تنزیل میں بھی اِس تنزیل
کی اپنی اٰیات کے سوا انسانی کتابیات سے ہدایات لینے اور ہدایت پانے کی بھی
کوئی گُنجائش نہیں ہے ، اِس سُورت کا دُوسرا نام سُورَہِ { حٰمٓ السجدة }
ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ محمد علیہ السلام نے اللہ تعالٰی کی اِس تنزیل کے
تعارف و تعلیم اور اِس تنزیل کی اتباع و تسلیم کے لیۓ سب سے پہلے اپنی ذات
کو پیش کیا ہے اور اِس کے بعد اہلِ زمین کو اِس تنزیل کے سامنے سرنگوں ہونے
کی دعوت دی ہے اِس لیۓ کہ یہ قُرآن کا وہ قانونِ لازم ہے جس قانونِ لازم کی
وہ تمام جُزئیات سُورَةُالبقرة کی اٰیت 285 میں بیان کردی گئی ہیں جن
جُزئیات کا حرفِ اَوّل ہی یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے اپنی یہ تنزیل اپنے جس
رسُولِ مقبول پر نازل کی ہے اللہ تعالٰٰی کا وہ رسُولِ مقبول سب سے پہلے
خود اُس تنزیل پر ایمان لایا ہے اور اُس کے بعد اُس کے وہ تمام اَصحاب و
احباب اُس تنزیل پر ایمان لاۓ ہیں جو اُس کی خُدا پرست اور تنزیل بدست
جماعت میں شامل ہوۓ ہیں ، اِس اَمر کا خلاصہ یہ ہے کہ قُرآن کی اِس تنزیل
کے بعد یہ اَمر ایک دائمی قانُون کے طور پر طے ہو گیا ہے کہ جس طرح اللہ
تعالٰی اپنی اُلوہیت میں وحدهٗ لاشریک اللہ ہے اسی طرح اُس کا رسُول بھی
اپنی عبدیتِ کاملہ میں وحدہٗ لاشریک رسُول ہے اور اسی طرح اُس کی یہ تنزیل
بھی اپنی ہدایتِ کاملہ ہونے کے اعتبار سے وحدهٗ لاشریک تنزیل ہے اور یہی
اِس سُورت کا موضوع ہے اور جہاں تک اٰیاتِ بالا کے مُجرد نفسِ کا تعلق ہے
تو اُس مضمون کو اِس مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ عالَمِ بشریت ریت کا
ایک وسیع جہان ہے جس کے بیکراں ذرات میں اُس زَرِ خالص کے انسانی وجود بھی
موجُود ہیں جس زَرِ خالص کو ریت کے اُن ذرات سے نکالنے کے لیۓ اللہ تعالٰی
کے مُختلف انیاۓ کرام مُختلف اوقات میں اہلِ زمین کے درمیان تشریف لاتے رہے
ہیں اور سیدنا محمد علیہ السلام بھی اسی مقصد کے لیۓ اہلِ زمین کے درمیان
تشریف لاۓ ہیں اور آپ کے زمانے میں عالَمِ بشریت کی اُس ریت میں ایمان و
اہلِ ایمان کا جو زَرِ خالص موجُود تھا وہ آپ نے نکال لیا ہے اور جو زَرِ
خالص اُس ریت میں ابھی تک موجُود ہے وہ زَرِ خالص بھی اِس خاص تنزیل کی اِس
خاص تعلیم کی بدولت آہستہ آہستہ اُس ریت سے باہر آتا ریے گا یہاں تک کہ ؏
آسماں ہوگا سحر کے نُور سے آئینہ پوش
اور ظُلمت رات کی سیماب پا ہو جاۓ گی
|