افسانچہ : انکہی

ائی اس اسکول میں پڑھ رہے ہیں۔ جب وہ میٹرک کر لیں گے تو شہر کے کسی بھی تعلیمی ادارے میں داخلہ لے لیافسانچہ :
انکہی
اعظم کا تعلق بلوچستان کے قبیلے برفت سے تھا، برفت قبائل بلوچستان کے علاوہ سندھ میں بھی رہائش رکھتے ہیں۔اعظم اپنی ابتدائی تعلیم کوئٹہ میں مکمل کرنے کے بعداپنے آبائی گوٹھ کو چھوڑ کر لاہور کے ایک پرائیویٹ کالج سے ایم بی بی ایس کرنے آگیا تھا۔ کالج میں داخلہ مل جانے کے بعد اس نے والدین اور بہن بھائیوں سے رسمی تعلق رکھا۔ اپنے دنیا میں مگن رہتا۔ خاندانی کاروبار اور زمینوں سے ہر ماہ بڑی رقم اسے والدین کی جانب سے موصول ہوجاتی جو اس کے لیے ضرورت سے زیادہ ہی تھی۔ والدین خوش تھے کہ ان کا بیٹا ڈاکٹر بن رہا ہے۔کالج میں دو سال مکمل ہوچکے تھے، کسی نہ کسی طرح وہ پاس ہوجاتا اور اگلی سیڑھی چڑھ جاتا۔ اعظم کی کلاس میں پچیس تیس اسٹوڈینٹس تھے۔ شروع شروع میں تو وہ سب سے الگ تھلگ رہا، اس کی اردو صاف نہ تھی، کلاس کے ساتھی اردو یا پھر پنجابی میں بات چیت کیا کرتے۔ اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو کی وجہ سے وہ زیادہ تر خاموش ہی رہتا۔ ایک طرح سے وکمپلیکس کا شکار ہوتا جارہا تھا۔ اس کے دیگر ساتھیوں نے بھی اس بات کو اہمیت نہ دی۔ شاہدہ کلاس میں سب ساتھیوں کے ساتھ گفتگو کیا کرتی، ہنسی مزاق کرتی اس نے محسوس کیا کہ اعظم کچھ زیادہ ہی چپ چپ رہتا ہے۔بہت کم بولتا ہے۔ آخر ایک دن جب کہ اعظم لان میں بینچ پر تنہا بیٹھا تھا۔ شاہدہ نے موقع غنیمت جانااور اس کے باس جابیٹھی۔
ہیلو اعظم!
کیسے ہو؟
ٹھیک ہوں۔۔۔
بس اتنا جواب دے کر وہ خاموش ہوگیا۔
شاہدہ نے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اعظم کیا بات ہے تم کلاس کے تمام ساتھیوں سے مختلف رویہ رکھتے ہو، کم بولتے ہو، کسی سے زیادہ دوستی بھی نہیں، میں جاننا چاہتی ہوں کہ تم کسی پریشانی میں ہو، آخر کیا پریشانی ہے؟
اعظم کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد گویا ہوا۔
نہیں کوئی بات نہیں، بس میں اردو اس طرح نہیں بول سکتا جیسے آپ سب لوگ بولتے ہو، اس وجہ سے میں بہتر سمجھتا ہوں کہ خاموش ہی رہوں۔ جب اردو آجائے گی تو بولنے لگ جاؤں گا۔
شاہدہ! کوئی اور وجہ؟
نہیں کوئی نہیں۔۔
گھر میں کوئی پریشانی؟
نہیں۔۔
کوئی تکلیف؟
نہیں۔۔۔
سچ بول رہے ہو۔۔۔بالکل سچ
شاہدہ نے اعظم کی خاموشی کی اصل وجہ جان لی۔اس نے اعظم کو بہت سمجھایا کہ اعظم کلاس میں جتنے بھی ساتھی ہیں ان میں سے اکثریت کی مادری زبان اردو نہیں۔میری زبان بھی اردو نہیں، اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ رفتہ رفتہ تم بھی سیکھ جاؤگے، بولا کرو، بولنے سے ہی تمہاری جھجک دور ہوگی، اس بات کی پروا مت کرو کہ تم درست اردو نہیں بولتے، اردو تو ایسی زبان ہے کہ بہت جلد ہرکوئی خواہ اس کی مادری زبان کچھ بھی ہو وہ اردو بہت جلد سیکھ جاتا ہے۔ چلو ایسا کرتے ہیں کہ میں تمہاری اس مشکل میں تمہاری مدد کرونگی۔ تم میرے ساتھ اردو میں بات کیا کرو، اس طرح تم اردو بولنے لگ جاؤ گے۔
اعظم نے شاہدہ کی تجویز قبول کر لی۔
اب دونوں فارغ وقت میں کبھی لان میں، کبھی کلاس میں، کبھی راہ چلتے اردو میں بات چیت کرنے لگے۔ شاہدہ نے بتایا کہ اس کا تعلق پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤ’بابے والا‘ سے ہے جو فیصل آباد میں ’چک جھمرہ‘ کے نذدیک واقع ہے۔ میرے گھر کا ماحول خالص پنجاب کے دیہا ت والا ہے۔ سب لوگ پنجابی میں گفتگو کرتے ہیں۔ان کا لباس بھی خاص دیہاتی ہے، ہمارے گھر کا سہن بہت بڑا ہے جس میں ہر طرح کے جانور موجود ہیں۔ یہاں تک کہ کتے، گدھا، مرغیاں، بطخ، گائیں، بھینس۔ ہمارے کئی ملازم ان کا خیال رکھتے ہیں۔ گھر کے چارو ں طرف زرعی زمین ہے جس میں مختلف پھلوں کے درخت، سبزیاں،جانوروں کا چارہ اور دیگر اناج اگایا جاتا ہے۔اس طرح ہمیں تازہ اور خالص دودھ، سبزیاں اور پھل کھانے کو مل جاتے ہیں اور ہماری آمدنی کا ذریعہ بھی ہیں۔ اس ماحول سے ہماری زندگی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں ہر سیمسٹر کے اختتام پر چھٹیوں میں گاؤں جاتی ہوں چند روز اپنے والدین، بہن بھائیوں کے ساتھ گزار آتی ہوں۔ہمارے گاؤں میں اسکول بھی ہے، چھوٹے بہن بھں گے۔
اعظم نے شاہدہ سے پوچھا کہ یہ بتاؤ کہ بلوچستان میں رہنے والوں کی زبان بلوچی ہے، پنجاب میں رہنے والوں کی زبان پنجابی، خیبر پختونخواہ میں رہنے والے پشتو بولتے ہیں اور سندھ کے لوگ سندھی زبان بولتے ہیں۔ تو پھر یہ اردو کہا سے آگئی؟ ہر قوم، ہر علاقے، ہر صوبے اور ہر شہر اور گاؤں و دیہات کے لوگ آپس میں اردو میں بات کرتے ہیں۔ اعظم کی بات میں وزن اور منطق تھی۔ شاہدہ چند لمحے سوچ میں پڑ گئی کہ اعظم کو اس کا کیا جواب دے۔ اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور کچھ توقف کے بعد اعظم کو جواب دیا کہ ’دیکھو اعظم! اردو زبان کسی ایک قوم، ایک طبقے، ایک ملک کی زبان نہیں بلکہ یہ ایک تہذیب کا نام ہے، لوگوں کو باہم ملانے والی زبان کا نام ہے، رابطہ کی زبان ہے۔ پاکستان کی قومی زبان ہے۔ایک عالمی تحقیق کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ بولے جانے والی زبانوں میں اردو دس بڑی زبانوں میں شامل ہے۔ پاکستان کے تمام صوبوں بشمول کشمیر، گلگت بلتستان کے لوگوں کو اس اردو زبان نے باہم جوڑا ہوا ہے۔ بلوچستان کے دور دراز علاقے میں رہنے والے اگر کشمیر کے کسی گاؤں، دیہات کے کسی شخص سے کوئی بات کرنا چاہیں تو نہ تو بلوچستان کے دور دراز علاقے میں رہنے والے کو کشمیری آتی ہوگی اور نہ ہی کشمیر کے کسی گاؤں دیہات میں رہنے والے کو بلوچی، اردو دونوں کے درمیان رابطہ کا ذریعہ ہوگی اور دونوں اردو کے توسط سے ایک دوسرے سے ہم کلام ہوجائیں گے۔ماضی میں جب ہندوستان پر انگریزی قابض تھا اس وقت بھی اردو سب سے موثر رابطہ کی زبان تھی۔ اس زبان نے اپنی گونہ گو خصوصیات کے باعث فارسی کی جگہ لے لی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس زبان نے انگریزی کے ساتھ ساتھ سرکاری زبان کا درجہ حاصل کر لیا۔ اب یہ زبان ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان رابطہ کی زبان رہی۔ ہندوستان کے بعض علاقوں کے لوگوں نے اردو کو اپنا لیا، انہیں میں سے بڑا طبقہ قیام پاکستان کے نتیجہ میں ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آگیا۔ اب ہمارے ملک کی قومی زبان اردو ہے۔ یہ بہت ہی پیاری اور میٹھی زبان ہے جو اپنے اندر بہت وسعت رکھتی ہے۔ اور سنوں اعظم یہ جو اردو زبان ہے یہ ابتدا میں فارسی کے الفاظ کی حامل ہندوستانی زبان تھی۔ اس ہندوستانی زبان کے لیے لفظ ”اردو“سب سے پہلے شاعر غلا م ہمدانی مصحفی نے 1780ء میں استعمال کیا۔یہ اردو ملاپ ہے برصغیر میں بولی جانے والی تمام بولیوں کا۔ اس کی مثال ایسے سمجھ لو کہ جیسے شہد کی مکھیاں مختلف باغیچوں میں لگے مختلف قسم کی حسین پھولوں سے رس چوس کر اپنے چھتے میں جمع کرتی ہے جس کے نتیجے میں شہد جیسی نعمت ہمیں نصیب ہوتی ہے اسی طرح اردو نے مختلف زبانوں اور بولیوں سے الفاظ اپنے اندر جمع کیے، اس طرح ہندوستانی سے اردو معرض وجود میں آگئی۔
اعظم نے بے ساختہ کہا!
ارے بھئی میں نے اتنی لمبی تقریر کرنے کے لیے تو نہیں کہا تھا تمہیں، لگتا ہے کہ تم نے اردو زبان کے بارے میں بہت کچھ پڑھا اور تحقیق کی ہوئی ہے۔ تمہاری باتوں سے میری معلومات میں بہت اضافہ ہوا۔مجھے تو یہ سب کچھ معلوم ہی نہیں تھاکہ اردو اتنی خوبیوں کی زبان ہے۔اب میں وعدہ کرتا ہوں کہ سب سے اردو زبان میں بات کیا کرونگا۔
شاہدہ نے اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اعظم میرے والد صاحب اردو کے پروفیسر تھے، شاعر بھی، ہمارے گھر میں اردو نثر و نظم کی ڈھیروں کتابیں تھیں، ہمارے ابا بھی کتابوں کا مطالعہ کرتے اور ہمیں بھی ترغیب دیا کرتے کہ مطالعہ سے انسان کا ذہن وسیع ہوتا ہے۔ میں نے جو باتیں اردو کے بارے میں تمہیں بتائیں وہ میرے والد صاحب کی زبانی سنی ہوئی ہیں۔
اعظم اور شاہدہ رفتہ رفتہ ایک دوسرے کے قریب آرہے تھے۔ شاہدہ نے اعظم کو اردو میں بات چیت اچھی طرح سکھا دی تھی اوراعظم اب صاف شفاف اردو بولنے لگا تھا۔ ایم بی بی ایس کا فائینل اختتام پر تھا۔سب لوگ خوشی خوشی ڈاکٹر بن جانے کی خوشی میں واپس اپنے اپنے گھر جانے کی تیاری کررہے تھے۔
اعظم اور شاہدہ کالج کے لان میں ایک جانب بیٹھے تھے۔ اعظم نے شاہدہ سے پوچھا کہ دوستی کیا ہوتی ہے؟
شاہدہ نے معصوم بنتے ہوئے جواب دیا کہ جن سے آپس میں اچھے تعلقات ہوں، ایک دوسرے سے اپنے مسائل شیئر کریں، ایک دوسرے کا خیال رکھیں وہ دوست ہوتے ہیں۔ اچھا یاد آیا کچھ دن ہوئے میں نے یوٹیوب پر معروف شخصیت نعیم بخاری کا کلپ سناتھا، اعظم نے برجستہ پوچھا۔۔۔
وہ طاہرہ سید والا نعیم بخاری؟
ہاں ہاں وہی۔ شاہدہ نے جواب میں کہا۔۔
نعیم بخاری بہت قابل وکیل ہے، بہت عمدہ ٹی وی پروگرام کی میزبانی بھی کرتے ہیں۔
اچھا توتم نعیم بخاری کی بات کررہی تھیں۔ اعظم نے شاہدہ سے کہا۔۔
نعیم بخاری نے اس ویڈیو میں دوست کے بارے میں معروف مقرر، مزاح نگار، افسانہ نگار، مترجم، شاعر، نقاد، معلم، ماہر نشریات اور سفارت کار بطرس بخاری کی رائے بیان کی جو کچھ اس طرح ہے۔نعیم بخاری نے عمدہ لہجہ اور پیارے انداز میں بتایا کہ۔۔۔۔
دوست وہ ہوتا ہے جس کے ساتھ آپ اداس بیٹھے ہوں اور کوئی گفتگو بھی نہیں ہورہی ہو لیکن آپ خوش ہوں۔
دوست وہ ہوتا ہے کہ آپس میں انٹرسٹ کلیش بھی کرے تو آپ ایک دوسرے کو چھوڑنے کے لیے تیار نہ ہوں۔
دوست وہ ہوتا ہے جو ہر وقت ایک دوسرے کا کام کرنے کے لیے تیار رہتا ہو جو وہ سمجھتا ہو کہ دوسرے کے حق میں بہتر ہے۔
پھر دوستی اور مراحل سے بھی آگے چلی جاتی ہے۔
دوست وہ ہوتا ہے جو دوست کے لیے اپنی جان بھی دینے کے لیے تیار رہے۔
دوست وہ ہے اصل میں کہ جو بات آپ کے دل میں ہو اسے پتا ہو۔
آپ کو موقع دے کچھ کرنے کا۔
اچھا بھئی میں سمجھ گیا کہ دوست کون ہوتا ہے۔ اب میں پطرس بخاری تو ہوں نہیں البتہ پوری کوشش کرونگا کہ پطرس بخاری نے جو باتیں دوستی کی بتائی ہیں ان پر عمل کرتے ہوئے تم سے دوستی پر پورا اتروں۔ اللہ کرے ہماری دوستی ہمیشہ قائم رہے اور دوستی اور مراحل سے بھی آگے چلی جائے۔
اچھا۔۔۔۔اعظم صرف دوستی؟
شاہدہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
یہ بات اعظم کے سر سے گزرگئی۔ شاہدہ نے بھی اس بات کو آگے نہیں بڑھایا۔ یہ خاص اشارہ تھا اعظم کے لیے لیکن اعظم شاہدہ کی بات جو وہ اعظم سے کہنا چاہتی تھی نہیں سمجھا اور اس موضوع کو یہیں چھوڑ کر کسی اور موضوع پر بات کرنے لگا۔
کلاس کے سب طلبہ بہت خوش تھے کہ وہ اب ڈاکٹر بن کر خدمت کریں گے۔ لیکن اعظم اور شاہدہ دل ہی دل میں افسردہ تھے کہ اب ان کی جدائی کا وقت قریب آرہا ہے۔ فائینل نتیجہ آگیا اور کلاس ختم ہوگئی، سب لوگ اپنے اپنے پروویژنل سرٹیفیکیٹ لے کر اپنے گھروں کو چلے گئے۔ اعظم امیر والدین کا بیٹا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس نے کوئٹہ کے لیے ہوائی جہاز سے سیٹ بک کرالی ہے۔سب نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا۔ شاہدہ نے اعظم سے کہا کہ وہ اس کے چلے جانے کے بعد بذریعہ ڈیوو اپنے گاؤ چلی جائے گی۔یہ تھی ان کہی اور خاموش محبت جو دونوں کے دلوں میں جنم لے چکی تھی لیکن دونوں میں سے کسی ایک نے بھی صاف الفاظ میں نہیں کہا۔ دل ہی دل میں دونوں یہ سمجھتے رہے کہ وہ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور شادی کے بندھن میں بندھنا چاہتے ہیں۔ گویا یہ ان کہی چاہت تھی جو دل ہی دل میں پروان چڑھتی رہی۔
ائر پورٹ کے باہر اعظم اپنا سامان لیے افسردہ، بجھا بجھا، خاموش ایک آدھ جملہ بولتا اور خاموش ہوجاتا۔ شاہدہ کی بھی یہی صورت تھی وہ بھی مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ اعظم سے ادھر ادھر کی باتیں کرتی اور خاموش ہوجاتی۔ اعظم کی نظریں ائر پورٹ کے مین گیٹ پر لگے فلائٹس کے ایرائیول اور ڈیپارچر بورڈ پر تھیں۔ وہ بار بار اس خوبصورت بورڈ کو دیکھتا پھر شاہدہ کی جانب متوجہ ہوجاتا۔اعظم کی فلائٹ کا وقت قریب آچکا تھا۔ اعظم نے شاہدہ کی جانب دیکھا، دونوں کی آنکھیں نم تھیں، شاہدہ نم آنکھوں سے ٹپکتے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکی اور بے ساختہ رونے لگی، آنسوؤں تھے
کہ تھمنے کا نام ہی نہ لے رہے تھے۔ اعظم کی سمجھ میں کچھ نہ آرہا تھا کہ وہ شاہدہ کو کس طرح تسلی دے، جب کہ اس کی اندر کی کیفیت بھی اسی قسم کی تھی۔ اعظم نے شاہدہ سے کہا کہ شاہدہ اب ہم مزید ساتھ نہیں رہ سکتے، میری فلائٹ کا وقت ہوچکا۔ ہمیں بچھڑنا ہوگا۔ انشاء اللہ ہم پھر ملیں گے۔ یہ کہہ کر اعظم اپنا بیگ گھسیٹتے ہوئے آگے بڑھ گیا گیٹ پر ٹکٹ چیک کرایا اور شاہدہ کی جانب منہ کر کے اسے خدا حافظ کیا۔شاہدہ نے بھی ہاتھ ہلائے اور اعظم کو رخصت کیا۔
کچھ دن موبائل پر رابطہ بحال رہا، چند ماہ بعد گفتگو کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا۔ شاہد ہ کی شادی اس کے کزن سے ہوگئی اوروہ اپنی سسرال چلی گئی، چند ماہ بعد شاہدہ کا شوہر فہیم جوپیشہ کے اعتبار سے انجینئر تھا ملازمت کے سلسلے میں سعودی عرب کے شہر جیذان چلے گئے۔ شاہدہ نے اپنے شوہر سے ملازمت کی اجازت مانگی جو اسے مل گئی اور اس نے جیذان میں کنگ فہد اسپتال میں ملازمت کے لیے درخواست دی۔ انٹر ویو اور دیگر کاغذی کاروائی کے بعد شاہدہ کو اسپتال کی جانب سے آفر لیٹر مل گیا۔ شاہدہ کے دو بچے فاطمہ اور فہد اسکول جانے لگے تھے۔ اس نے بچوں کو اسکول چھوڑا اور اسپتال ڈیوٹی جوائن کرنے جاپہنچی۔کاؤنٹر پر اسے بتایا گیا کہ وہ اسپتال کے میڈیکل ڈائیریکٹر کے پاس چلی جائے۔ وہ ڈائیریکٹر صاحب کے کمرہ میں پہنچی اجازت چاہی، ایک عربی لباس میں ملبوس عربی زبان میں اسے بیٹھنے ک لیے کہا گیا۔ ڈائیریکٹر صاحب نے اسے ہدایت کی کہ آپ کو سرجیکل وارڈ میں پوسٹ کیا گیا ہے چنانچہ آپ سرجیکل وارڈ کے انچار ڈاکٹر اے ڈی بلوچ کو رپورٹ کریں۔ شاہدہ خوش خوش پوچھتی ہوئی سرجیکل وارڈپہنچی اندر داخل ہوئی اسٹاف نے کہا کہ وہ انچارچ ڈاکٹر کے روم میں تشریف لے جائیں۔ شاہدہ دروازہ پر پہنچی تو تختی لگی ہوئے تھی سرجن اے ڈی بلوچ۔ وہ اندر داخل ہوئی، ڈاکٹر صاحب اپنی کرسی کے پیچھے الماریوں میں سجی کتابوں میں سے کوئی کتاب تلاش کر رہے تھے۔ آہٹ سے وہ اپنی کرسی کی جانب مڑے اور دروازہ پر جو ہی نظر گئی، دروازہ پر موجود شاہدہ کی نظر یں انچارچ ڈاکٹر سے ٹکرائیں تو دونوں ہکا بکا، خاموش، گم سم، چند لمحات بعد دونوں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور ڈاکٹر اعظم نے ڈاکٹر شاہدہ کو بیٹھنے کے لیے کہا۔ ڈاکٹر اعظم کو یہ نہیں علم تھا کہ ڈاکٹر شاہدہ کا تقرر اسپتال میں اور اسی کے وارڈ میں ہوگیا ہے۔ دونوں بہت خوش، ڈاکٹر اعظم زیادہ ہی خوش اس لیے کہ انہوں نے اعلیٰ تعلیم اور ملازمت کے باوجود شادی نہیں کی تھی وہ ڈاکٹر شاہدہ کے انتظار میں تھے جس سے ان کا رابطہ کئی سال قبل منقطع ہوگیا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کی خیریت معلوم کی، دیگر موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ ڈاکٹر اعظم کو جب یہ معلوم ہوا کہ ڈاکٹر شاہدہ کی شادی ہوچکی ہے اور اس کے دوبچے بھی ہیں تو بجھ کے رہ گئے۔ زبان سے کچھ نہ کہا، شاہدنے اپنی پوسٹنگ کے کاغذات ڈاکٹر اعظم کے سامنے کیے۔ ڈاکٹر اعظم نے احکامات کے مطابق ڈاکٹر شاہدہ کو وارڈ میں ذمہ داریوں کے بارے میں تفصیل بتائی اور کل سے اپنی ذمہ داریاں سنبھال نے کی ہدایت کی۔
اگلے دن ڈاکٹر شاہدہ خوشی خوشی سرجیکل وارڈ پہنچ گئی، کام شروع کردیا۔ کافی وقت گزرگیا تو ڈاکٹر شاہدہ نے اسٹاف سے ڈاکٹر بلوچ کے بارے میں معلوم کیا کہ ان کا کیا شیڈول ہے، وہ کب وارڈ میں آتے ہیں۔ اسٹاف نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب کی درخواست آئی ہے کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں نیز وہ اب اس اسپتال میں اپنی ذمہ داریاں جاری نہیں رکھ سکتے۔ یہ سن کر ڈاکٹر شاہدہ بہت پریشان ہوئی لیکن کسی نے ڈاکٹر بلوچ کے بارے میں کچھ نہ بتایا، ڈاکٹر نے فوری طور پر وہ شہر ہی چھوڑ دیا اور چند دن بعد وطن واپس آگئے۔ ڈاکٹر شاہدہ کو دلی صدمہ ہوا، کافی عرصہ پریشان رہی۔آخر صبر کیا اور اپنے دل کو تسلی دی۔ اس میں اس کا قصور نہ تھا۔ دونوں کے درمیان اس قسم کا وعدہ نہیں ہوا تھا کہ وہ دوستی کو زندگی کے ساتھ میں بدل لیں گے۔ بس ایک بیان نا کردہ عمل نے دوستی کے معنی کچھ اور سمجھ لیے جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ دو زندگیوں کو زندگی بھر کا دکھ اٹھانا پڑا۔(14مارچ2022ء)


Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1280639 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More