ضم اضلاع ' جعلی ٹرائلز اور لاکھوں کا ٹی اے ڈی اے

اگلے ہفتے پشاور میں انڈر 21کے خواتین کے مقابلے ہونگے جس میں ضم اضلاع کے خواتین کی ٹیمیں بھی شریک ہونگی لیکن کیا کوئی ثابت کرسکتا ہے کہ ضم ہونیوالے کونسے اضلاع میں خواتین کھلاڑیوں کے ٹرائلز کئے گئے ' سوائے خیبر اور مہمند کے جہاں پر بھی سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کے چند افراد نے ٹرائلز کئے اور ضم اضلاع کے نام نہاد سپورٹس مینجرز کو اس بارے میں پتہ بھی نہیں چلا.ہاں کاغذات میں لکھا جاسکتا ہے کہ انڈر 21کے خواتین کے مقابلوں میں پہلی مرتبہ ضم اضلاع کی خواتین بھی شامل ہونگی لیکن ان کا تعلق کہاں سے ہوگا یہ وہ سوال ہے جو ابھی کے کرنے کا ہے ' ضم اضلاع میں کس نے ٹرائلز کئے ' کونسی ٹیم منتخب ہوئی اور انہیں منتخب کرنے والے کون تھے ' اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہوگا لیکن ہاں پشاور کے مختلف کالجز سے طالبات کو ٹریک سوٹ پہنا کر دستوں میں شامل کیا جائیگا کہ یہ ضم اضلاع کی خواتین ہیں

وفاقی حکومت نے قبائلی علاقے جسے اب ضم شدہ اضلاع کہا جاتا ہے کو خیبر پختونخواہ کیساتھ ملا دیا ہے لیکن اب بھی ان ضم ہونیوالے اضلاع کیساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کیا جارہا ہے دیگر شعبوں کیساتھ ساتھ کھیل کا شعبہ بھی ان میں ایک ہی ہے جو کہ صوبائی وزیراعلی خیبر پختونخواہ کی وزارت ہے لیکن انہوں نے بھی اس معاملے میں آنکھیں مکمل طور پر بند کر رکھی ہیں کیونکہ جو سمریاں انہیں بھیجی جاتی ہیں وہ تو یا پڑھتے ہی نہیں یا پھر دیکھے بغیر دستخط کردیتے ہیں جس کی وجہ سے موجودہ ضم اضلاع میں سابقہ قبائلی علاقوں سے زیادہ احساس محرومی پیدا ہورہی ہیں.جس کا اظہار گذشتہ روز باڑہ میں کھیلوں سے وابستہ افراد نے باقاعدہ پریس کانفرنس کے ذریعے کیا .خیبر میں ہونیوالی پریس کانفرنس باڑہ کے کھلاڑیوں کی تھی تاہم اس سے ضم ہونیوالے ضلع خیبر کی کھیلوں کی کارکردگی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے.
وزارت کھیل بھی ان ڈیپارٹمنٹس میں شامل ہیں جہاں پر اندھیرنگری چوپٹ راج چل رہا ہے خصوصا ضم اضلاع کے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا ' اب بھلا یہ کوئی بات ہے کہ ضم اضلاع کے سپورٹس کے ڈائریکٹر تو ڈائریکٹریٹ میں بیٹھے رہیں لیکن ان کے دائرہ کار میں آنیوالے ایک زمانے کے سپورٹس مینجر جسے اب ڈی ایس اوز کا عہدہ دیا گیا ہے وہ بھی پشاور میں رہیں .زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ' خیبر پشاور سے منسلک ضلع ہے یہ سوال نہ صرف ضلع خیبر کے عام لوگ بلکہ بیشتر کھیلوں سے وابستہ افراد سے بھی کرتے ہیں کہ آیا قبائلی علاقے ضم ہو چکے ہیں تو پھر اس میں ڈ ی ایس اوز کی بھرتیاں کیوں نہیں کی جاتی ' کیونکہ اس سے قبل سپورٹس مینجر کو پراجیکٹ میں لیا گیا تھا اور انہیںتنخواہیں بھی پراجیکٹ میں دی جاتی رہی ہیں اب اگر یہ صوبے کے ساتھ منسلک ہیں تو پھر کیا دیگر اضلاع کی ڈی ایس اوز کی طرح یہاں پر آنیوالے ڈی ایس اوز بھی کھیلوں سے وابستہ ہونگے ' تعلیمی قابلیت بھی انہی کی طرح ہوگی یا پھر ایف اے پاس ' رشتہ داریوں کی بنیاد پر بھرتی ہونیوالے پراجیکٹ کے ملازمین ڈی ایس اوز بنیں گے.جنہیں یہ بھی پتہ نہیں کہ کھیل کیا چیز ہے اور کھلاڑی کس بلا کا نام ہے ' . ضم اضلاع کے بیشتر ڈی ایس اوز کے مالی حالت پہلی کیا تھی اور اب کیا ہے. انہوں نے اب تک اپنے اضلاع میں کتنے کھلاڑی پیدا کئے اور جن پراجیکٹ پر کام جاری ہے اس کی صورتحال کیا ہے یہ سوال سیکرٹری سپورٹس سمیت وزیراعلی کے کرنے کے ہیں.کہ آخر ضم اضلاع کے ڈی ایس اوز اپنے اضلاع میں کھیلوں کی سرگرمیاں کیوں نہیں کررہے,
اب بھلا جب ڈی ایس اوز پشاور میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں افسران کے سامنے حاضری کو اپنی کامیابی سمجھتے ہوں انہیں کیا پتہ کتنے مرد و خواتین کھلاڑی ہیں.یہ ضم اضلاع کے کھیلوں سے وابستہ ایسوسی ایشنز اور کھلاڑیوں کیساتھ بھی زیادتی ہے حالانکہ ان اضلاع میں کھیلوں سے وابستہ بڑے بڑے افراد جو اپنے شعبوں کے ماہر ہیں موجود ہیں لیکن ان کی رسائی حکمرانوں تک نہیں اس لئے یہ لوگ خوار ہیں.اس صورتحال میں کیا یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ قبائلی علاقوں کے ضم ہونے کا صرف نام کی حد تک ہے سب کچھ وہی پرانے پولیٹیکل نظام کا چل رہا ہے زندگی کے دیگر شعبوں میں ہونیوالے اقدامات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں.اور انہیں عادت ہے کہ جو انہیں صحیح اور سچ بتائے اسے بیس سال کیلئے ایف سی آر کے تحت اندر کروائے.
اگلے ہفتے پشاور میں انڈر 21کے خواتین کے مقابلے ہونگے جس میں ضم اضلاع کے خواتین کی ٹیمیں بھی شریک ہونگی لیکن کیا کوئی ثابت کرسکتا ہے کہ ضم ہونیوالے کونسے اضلاع میں خواتین کھلاڑیوں کے ٹرائلز کئے گئے ' سوائے خیبر اور مہمند کے جہاں پر بھی سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کے چند افراد نے ٹرائلز کئے اور ضم اضلاع کے نام نہاد سپورٹس مینجرز کو اس بارے میں پتہ بھی نہیں چلا.ہاں کاغذات میں لکھا جاسکتا ہے کہ انڈر 21کے خواتین کے مقابلوں میں پہلی مرتبہ ضم اضلاع کی خواتین بھی شامل ہونگی لیکن ان کا تعلق کہاں سے ہوگا یہ وہ سوال ہے جو ابھی کے کرنے کا ہے ' ضم اضلاع میں کس نے ٹرائلز کئے ' کونسی ٹیم منتخب ہوئی اور انہیں منتخب کرنے والے کون تھے ' اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہوگا لیکن ہاں پشاور کے مختلف کالجز سے طالبات کو ٹریک سوٹ پہنا کر دستوں میں شامل کیا جائیگا کہ یہ ضم اضلاع کی خواتین ہیں حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں ' انہیں ٹریک سوٹ ' شوز اور ٹی اے ڈی اے بھی دیا جائیگا جو کہ لاکھوں میں ہوگا اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ ضم اضلاع کے خواتین کھلاڑیوں کیساتھ زیادتی نہیں کہ ان کے نام پر پشاور ' مردان اور چارسدہ کے مختلف کالجز کی طالبات کو کھلایا جائے. کیا یہ ان بچیوں میں احساس محرومی پیدا نہیں کرے گی.اور کیا کھلاڑیوں کا نہ ہونا ان ضم اضلاع میں پراجیکٹ کے تحت بھرتی ہونیوالے سپورٹس مینجرز کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت نہیں.
صوبائی حکومت انڈر 21کے مقابلوں میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے کھلاڑیوں کو ماہانہ پانچ ' آٹھ اور دس ہزار روپے وظیفہ بھی دے گی اور یہ ماہانہ وظیفہ ایک سال تک ان کو ملتا رہے گا لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ضم اضلاع کی خواتین ٹیمیں اس میں حصہ نہیںلے رہی تو پھر جو ان کے نام پر ان مقابلوں میں شریک ہونگی وہ مقابلوں میں حصہ لینگی تو پھر رقم بھی انہیں ملتے رہیگی کیا یہ ضم اضلاع کے خواتین کھلاڑیوں کیساتھ زیادتی نہیں کہ ان کے نام پر آنیوالے فنڈز کو پشاور ' مردن ' چارسدہ اور نوشہرہ کے کھلاڑیوں کو دیا جائے.ایسے میں ان اضلاع میں کیسے خواتین کھلاڑی سامنے آئینگی یہ بڑا سوالیہ نشان ہے. اس سے قبل بھی سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ میں ایسے کئی کیسز ہو چکے ہیں جس میں بتایا گیا کہ جن لوگوں نے نام بھیجے ان کی جگہ کسی اور کو کھیلنے کا موقع دیا گیا پھر بعد میں وظیفے کا پتہ ہونے کے بعد دونوں اطراف کے کھلاڑیوں میں زور لگایا کہ انہیں وظیفہ مل جائے .
تقریبا یہی صورتحال آنیوالے دنوں میں ضم اضلاع کے سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں بھی پیدا ہوگی کیونکہ نام تو قبائلی اضلاع کے طالبات کے استعمال ہونگے اور ان کے نام پر وظیفہ ایک سال کیلئے نکالا جائیگا لیکن یہ کس کو جائیگا ' انہی کو جائیگا جن کے تعلقات بہتر ہوں اور تعلقات بہتر ہونگے تو پھر ٹینڈر بھی کاغذات میں ہونگے اور کھیلوں کا سامان سٹورز سے نکال کر ٹینڈر کے نام پر ڈائریکٹریٹ میں رکھا جائیگا.اور یہی سچ ہے کہ ضم اضلاع کے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ایک بڑے صاحب جنہوں نے کروڑوں روپے ڈکار ے تھے اور بعد ازاں نیب کے خوابیدہ ریڈار میں آگئے تھے انہوں نے ڈیل کرکے اپنی جان چھڑا لی ' اور عوامی ٹیکسوں کا پیسہ ہضم ہوگیا ' تقریبا یہی صورتحال اب بھی جاری ہے لیکن فرق صرف یہی ہے کہ چہرے تبدیل ہوگئے ہیں باقی کام تقریبا وہی ہے ...

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 637 Articles with 499934 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More