مردان ، کھیلوں اور کلچر کا ملاپ اور سکوٹر سے گاڑی کا سفر

چونکہ جیلوں کی آڈٹ ہونی مشکل ہے اس لئے بجائے کھیلوں کے سکول و کالجز سطح کے مقابلوں میں جیلوں میں مقابلے کروائے جاتے ہیں. تاکہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے.اور ایسا رنگ کہ انسان سکوٹر سے ڈائریکٹ لاکھوں کی گاڑیوں تک پہنچ جائے. لیکن دیکھنے والوں کی اس پر نظر ہونی چاہئیے.اور یہ انٹی کرپشن ، نیب سمیت تمام اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کھیلوں سے وابستہ افراد بشمول صحافیوں کی ذرائع آمدنی اور کاروبار کو چیک کریں کہ آج سے دس سال پہلے وہ کیا تھے اور آج ان کی پوزیشن کیا ہے.


آٹھ مارچ سے مردان سپورٹس کمپلیکس میںخواتین سپورٹس میلے کو جنہیں بنت ہوا سپورٹس فیسٹیول کا نام دیا گیاتھا کے حوالے سے مختلف ایشوز سامنے آرہی ہیں جس میں یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ مقامی لوگوں کو خواتین کے کھیلوں پر اعتراض ہے تاہم سپورٹس کمپلیکس مردان کی انتظامیہ اسے دوبارہ آج سے شروع کرے گی اس بارے میں ڈی ایس او ، ریجنل سپورٹس آفیسر سمیت ڈائریکٹر جنرل سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کا موقف بھی سامنے آگیا ہے. لیکن اتنے بڑے واقعے کے بارے میں کوئی وضاحت ابھی تک نہیں کی گئی کہ یہ واقعہ کیوں پیش آیا. صرف یہ کہا گیا کہ میڈیا نے ذمہ دارانہ صحافت کا مظاہرہ نہیں کیا . سوال یہ ہے کہ اس سے قبل مردان میں بھی خواتین کے مقابلے ہوئے جس پر ابھی تک کسی نے اعتراض نہیں کیا اور نہ ہی پورے صوبے میں کہیں پر کسی نے کوئی آواز اٹھائی . خواتین کھیلوں کے مقابلوں کے کوئی بھی مخالف نہیں.نہ ہی مردان اور نہ ہی پورے صوبے میں خواتین مقابلوں کے کہیں پر کوئی ایشو سامنے آیا .
ہاں مردان میں پیش آنیوالا واقعے کی انتظامیہ کی نظروں میں کوئی اہمیت نہیں لیکن کسی بھی واقعے کے حوالے سے وقت کو بہت دیکھا جاتا ہے ، آٹھ مارچ کو جب مردان میں بیشتر علماءآزادی مارچ کے خلاف مظاہرہ کررہے تھے اور اس بارے میں انہوں نے ضلعی انتظامیہ مردان سے رابطہ کیا تھا تو انتظامیہ نے اس حوالے سے یقین دہانی کرائی تھی کہ آزادی مارچ کے نام پر اس طرح کا کوئی مظاہرہ نہیں کروایاجائیگا. اسی دن سے سپورٹس فیسٹیول کا آغاز ہوگیا اور مزے کی بات یہ ہے کہ سپورٹس کمپلیکس جس کی چار دیواری بھی نہیں کھیلوں کے مقابلوںکے نام پر میوزیکل پروگرام منعقد کیا گیا جس کی طرف سب کی توجہ گئی اور یوں یہ صورتحال پیش آئی.جس پر ابھی یہ کہا جارہا ہے کہ وفاقی وزیر شیریں مزاری نے ایف آئی آر کے اندراج کی ہدایت کی ہے ساتھ میں صحافی برادری کو بھی نکتہ چینی کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے.
کوئی بھی ذی شعور شخص خواتین کے حقوق سے انکار نہیں کرسکتا اور نہ ہی ان کے کھیلوں کے مقابلوں پر پابندی کاسوچ بھی سکتا ہے ، لیکن روڈ کنارے کھیلوں کے مقابلے اور خصوصا خواتین کے مقابلے کروانا کونسے تک کی بات ہے ، اسی مردان میں سپیشل افراد کے گراﺅنڈ پر یہی میلہ ایوارڈ کے نام سے منعقد کروایا گیا لیکن وہاں پر چار دیواری تھی اس لئے کسی کو اعتراض نہیںتھا ، مردان کی خواتین کھلاڑی کھیلوں کے مختلف مقابلوں میں ٹاپ پوزیشن پر آرہی ہیں جس کی بڑی وجہ ان کے کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لینا ہے تاہم آٹھ مارچ سے کئے جانیوالے سپورٹس فیسٹیول پر مقامی لوگوں کو اس لئے اعتراض تھا کہ یہ سڑک کنارے ہورہا تھا اور راہ چلتے لوگوں کی نظریں بھی خواتین کھلاڑیوں پر پڑنے کیساتھ ساتھ میوزیکل پروگرام بھی تھا اسلئے یہ مسئلہ پیدا ہوا.
ٹھیک ہے کہ وزارت سپورٹس و کلچر وزیراعلی خیبر پختونخواہ کی وزارت میں ہے اور یہ دونوں ایک ہی سیکرٹری کے زیر انتظام ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کھیل اور کلچر ایک ہیں ، لیکن یہ کونسی تک ہے کہ کھیلوں کے مقابلوں میں میوزیکل پروگرام منعقد کروائے جائیں ، اگر سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ملازمین کو کلچر سے اتنا ہی شوق ہے تو پھر انہیں صوبائی وزیر اعلی متعلقہ ڈیپارٹمنٹ میں بھیج دیں تاکہ کم از کم گلوکاروں اور ڈی جیز کو دی جانیوالی رقمیں کھلاڑیوں کو ہی مل سکیں.کیونکہ اگر موجودہ دور میں بھی کھیلوں سے وابستہ ہے تو وہ صرف و صرف شوق کی خاطر ہے ، ورنہ بیکارسے بیکار کرکٹ کے بیٹ کی قیمت چھ ہزار روپے سے شروع ہوتی ہیں بیڈمنٹن ، اتھلیٹکس ، باسکٹ بال ، ہاکی ، ٹینس ، ٹیبل ٹینس سمیت دیگر کھیلوں کے سامان کی قیمتیں آسمان پر پہنچی ہوئی ہیں ایسے میں اگر فنکاروں کو دی جانیوالی رقمیں ان کھیلوں سے وابستہ مرد و خواتین کھلاڑیوں کو دی جائے تو نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی ہوگئی بلکہ وہ کھیلوں کی طرف متوجہ بھی ہونگے.اور کم از کم مردان جیسی صورتحال پیدا نہیں ہونگی جہاں پر " اللہ بھلا کرے" ارطغرل طرز کے ڈانس سٹیج پر کروائے گئے ، کبھی بنت ہوا ایوارڈ کے نام پر اور کبھی کسی اور نام سے ، جس کی ویڈیوز بھی موجود ہیں .
ویسے ایوارڈ اگر خواتین کو دینے ہی ہیں تو پھر نئے ایمرجنگ کھلاڑیوں کو کیوں نہیں دئیے جارہے ، جو مختلف کھیلوں میں ٹاپ پوزیشن پر ہیں ، کیا کھیلوں سے وابستہ افراد کو ہی ایوارڈ ملتے ہیں کیااس پر کھلاڑیوں خواہ وہ مرد و خواتین ہوں ان کا حق نہیں ، لیکن کالجز کے سپورٹس ڈائریکٹریس کو بھی ایوارڈ اس وجہ سے دیا جاتا ہے کہ بقول ایک صاحب کہ ان کی بڑی خدمات ہیں ، برائے مہربانی خدمات اور فرض کے معانی اگر کہیں سے مل سکتے ہیں تو وہ دیکھ لیں کہ خدمات اور فرائض میں کیا فرق ہے ، خدمت وہ ہوتی ہیں جو صرف اللہ کی خاطر کی جاتی ہیں ، اور فرض وہ ہوتا ہے جس کی ادائیگی کیلئے غریب عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ سرکار کے گودمیں بیٹھے لوگوں کوملتا ہے اور ایوارڈ بھی من پسند اور گھر کے افراد میں ہی تقسیم کئے جاتے ہیں ، حالانکہ یہ کھلاڑیوں کا حق ہے خواہ وہ مرد ہوں یا خواتین ، اس میں کسی جنس کی تمیز نہیں ، کیونکہ کھیل کے میدان میں کارکردگی دیکھی جاتی ہیں لوگوں کی رشتہ داریاں نہیں.
ویسے آپس کی بات ہے کہ کھیلوں کیلئے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی اپنی پالیسی کیا ہے سال 2018 میں منظور ہونیوالی اس پالیسی کے بار ے میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ملازمین سمیت بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے افرادسے اگر پوچھاجائے تو جواب آئیں بائیں اور شائیں ہی ہوتا ہے ، نرسری سطح پر کھیلوں کا فروغ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی بنیادی ذمہ داری ہے ، اب بھلا سپورٹس ڈائریکٹریٹ یہ وضاحت کرے کہ انڈر 16 انڈر 23 اور انڈر 21 کس سطح کی نرسری فراہم کرتے ہیں. دنیا بھر میں کسی بھی کھیل میں 8 سے بارہ سال کے بچوں کو لیاجاتا ہے جس کے بعد وہ انڈر 21 اور انڈر 23تک پہنچ کر بین الاقوامی سطح تک پہنچ جاتے ہیں لیکن خیبر پختونخواہ میں پالیسی الگ ہے جس کی بنیادی وجہ کچھ اور ہے لیکن سپورٹس ڈائریکٹریٹ یہ بتائے کہ اب تک پرائمری سطح پر کونسے کھیلوں کے مقابلے کروائے گئے ، اگر کرکٹ کے مقابلے بھی کروائے گئے تو وہ پی سی بی نے کروائے اور سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے گراﺅنڈدیکر اپنا نام شہیدوں میں شامل کرواادیا ہے .ورنہ خیر خیریت ہی ہے.
لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے چند منظور نظر افراد کے پاس نرسری سطح کے کھلاڑیوں کیلئے وقت نہیں ، کیونکہ اس میں سکولو ں میں جانا پڑتا ہے ، اور یہی کام نہ تو ایسوسی ایشن کررہی ہے اور نہ ہی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے کوچز یہ کام کررہے ہیں سوائے چند ایک لوگوں کے ، صرف تنخواہیں وصول کرنا ہی ان کاکام رہ گیا ہے .اور وزیراعلی خیبر پختونخواہ کی یہ انوکھی وزارت ہے جس میں کمپیوٹر آپریٹر سپورٹس آفیسر بن گئے ہیں حالانکہ کمپیوٹر آپریٹرز کیلئے تمام ڈیپارٹمنٹ میں الگ قانون ہیں لیکن یہاں پر الگ قانون ہے .
سوال تویہ بھی بنتا ہے کہ جیلوں میں مقابلے منعقد کروانے کی کونسی تک ہے ، کیا ان لوگوں نے سکول ،کالجز ، کمیونٹی میں لوگوں میں کھیلوں کے حوالے سے آگاہی پیدا کی ہیں اور کیا کھلاڑی پیدا کئے ہیں اس بارے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ جیل انتظامیہ میں ہونیوالے مقابلوں اور اس کے اخراجات کی کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی ، قیدیوں سے کون پوچھ سکتا ہے ساتھ میں بیلٹ کی نوکری کرنے والے پولیس افسران اور انکی مدد کرنے والے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اہلکاروں سے کسی میں اتنی ہمت ہے ، چونکہ جیلوں کی آڈٹ ہونی مشکل ہے اس لئے بجائے کھیلوں کے سکول و کالجز سطح کے مقابلوں میں جیلوں میں مقابلے کروائے جاتے ہیں. تاکہ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے.اور ایسا رنگ کہ انسان سکوٹر سے ڈائریکٹ لاکھوں کی گاڑیوں تک پہنچ جائے. لیکن دیکھنے والوں کی اس پر نظر ہونی چاہئیے.اور یہ انٹی کرپشن ، نیب سمیت تمام اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کھیلوں سے وابستہ افراد بشمول صحافیوں کی ذرائع آمدنی اور کاروبار کو چیک کریں کہ آج سے دس سال پہلے وہ کیا تھے اور آج ان کی پوزیشن کیا ہے.
صحافیوں پر اعتراض کرنے والے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انتظامیہ سمیت تمام لوگوں کو یہ بات پوچھنی چاہئیے کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ نے اپنا الگ میڈیا سیل کیوں بنایا ہوا ہے اور اس کیلئے لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم کے چینجنگ روم جو کہ بین الاقوامی ریکوائرمنٹ ہے کی جگہ کو اپنے من پسندصحافیوں کے حوالے کیا ہے ، یہ اس لئے کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ یہ سمجھتی ہے کہ ان کے زیر سایہ پلنے والے یہ صحافی نہیں بلکہ صفائی کرنے والے ہیں جو ان کی گندگی کو صاف کرنے میں مددگار ثابت ہونگے. اگر کسی کو یقین نہیں آتا تو سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ جا کر دیکھ لیں ، رائٹ ٹوانفارمیشن کرکے دیکھ لیں کہ کونسے صحافی نے سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے میڈلز کے ٹھیکے لئے ، کس نے شوز کے ٹھیکے لئے ،سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے مشترکہ داماد کو کس طرح کے پی ہاکی لیگ میں بغیر رقم جمع کروائے ٹیم دی گئی اس صورتحال میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ٹھیکیدار کس طرح " صاحب لوگوں ، کے بارے میں لکھ سکیں گے یا بات کرسکیں گے.
سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کو حکمرانوں کی طرح جی حضوری کرنے والے صحافی چاہئیے جوان کی غلطیوں پر پردہ ڈالے اور ان کے زیر سایہ پلنے والے صحافی یہی کام وہ بہترین طریقے سے کررہے ہیں.اب اسے منفی رپورٹنگ ہی کہا جائے گا لیکن حقیقت یہی ہے کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ نے تبادلے کروائے لیکن اس پر عملدرآمد کون کروائے گا. سوائے چند افراد کے ، بیشتر افرادنے احکامات کو جوتے کے نوک پر رکھا ہے ، ڈی آئی خان سے لیکر سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اکاونٹس شعبے تک کے تمام افراد اس میں ملوث ہیں ، کروڑوں روپے سوئممنگ پول پر لگائے گئے کمائی لاکھوں میں کی گئی لیکن ظاہر کتنی کی گئی . جبکہ اس کے برعکس زیر سایہ پلنے والے صحافیو ں کو ہر جگہ پر ہونیوالے پروگراموں کیلئے اطلاع دی جاتی ہیں کہ فلاں جگہ پر بڑے افسر کا پروگرام ہے ، وہاں پہنچ کر اپنے ساتھ مکھن اور خوشامد کا ڈبہ لیکر پہنچ جائیں تاکہ صاحب لوگوں کو برا نہ لگیں. جاتے جاتے ایک بات جو سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انتظامیہ سمیت صحافیوں پر تنقید کے بجائے اگر وہ اپنے گریبانوں میں جھانک لیں تو انہیں اپنا گریبان پھٹا ہوا نظر آئیگا اب اگر پھٹے ہوئے گریبان کو پھٹا ہوا نہیں کہاجائے تو پھر کیا کہا جائے ، اور ہاں فیورٹ ازم کی فضاءبھی ختم کرنی ہوگی کہ جو گڈ بک میں ہے اور ہفتے میں ڈنر کرواتے ہیں اس کی کاروائیوں سے آنکھیں بند ہیں اور جو " جی سر اور جی حضوری "نہیں کرسکتے وہ کھڈے لائن ہیں.

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 588 Articles with 418272 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More