|
|
کیا آپ اپنی معمول کی زندگی سے تنگ آگئے ہیں؟ کیا آپ
دماغی انتشار محسوس کر رہے ہیں ؟ آپ کو ایک بریک چاہئے؟ اس کا حل؟۔۔۔۔۔۔۔عموماً
ہماری روزمرہ کی زندگی اتنی تیز اور تھکا دینے والی ہوتی ہے کہ بعض اوقات
ہم شدید بوریت محسوس کرتے ہیں کیونکہ ہم ایک مشین کی طرح کام کر رہے ہوتے
ہیں۔ اور اس محنت کے عوض کبھی کبھی اپنی صحت بھی گنوا بیٹھتے ہیں پھر
ڈاکٹرز کا مشورہ ہوتا ہے کہ کسی پرفضا مقام پر کچھ دن گزاریں تو صحت پر
اچھا اثر پڑے گا۔ |
|
انسانی مزاج ایسا ہے کہ وہ قدرتی مناظر سے لطف اندوز
ہوتا ہے۔ ہماری آنکھیں ان مناظر کی تازگی کو اپنے اندر سمو لیتی ہیں اور یہ
تازگی تا زندگی ہماری یادوں کا حصہ رہتی ہیں۔ سیاحت سے ہمارا نہ صرف
ایکسپوژر بڑھتا ہے بلکہ ہم جس جگہ جاتے ہیں وہاں کی زبان طور طریقے، کھانوں
سے محظوظ ہوتے ہیں اور بعض اوقات سفر میں پیش آنے والی مشکلات بھی ہمارے
لیے تجربہ بن جاتی ہیں جو دوسروں کو بتانے کے لئے ایک اچھی گائڈ لائن ہوتی
ہے تاکہ وہ ان تکالیف سے بچیں۔ |
|
پاکستان میں سیاحت عموماً دو طرح سے ہوتی ہے۔ ایک مقامی
سیاح جو خوبصورتی سے محظوظ ہونے کے لئے جاتے ہیں اور دوسرے انٹرنیشنل سیاح
جن میں صف اول پر سکھ سیاح(یاتری) ہیں جو اپنے مذہبی تہوار بیساکھی کے لئے
بڑی تعداد میں پاکستان آتے ہیں۔ یہ تیرا چودہ اپریل کو منایا جاتا ہے۔ ساری
دنیا سے سکھ افراد کی ایک بڑی تعداد یہ تہوار منانے حسن ابدال پہنچتے ہیں ۔ |
|
|
|
پاکستان میں سیاحت کو سب سے زیادہ فروغ 1970ء کی دہائی
میں ملا جب ملک تیزی سے ترقی کر رہا تھا اور دیگر صنعتوں کی طرح سیاحت بھی
اپنے عروج پر تھی بیرونی ممالک میں سے لاکھوں سیاح پاکستان آتے تھے۔ اس وقت
پاکستان کے سب سے مقبول سیاحتی مقامات میں درہ خیبر، پشاور، کراچی، لاہور،
سوات اور راولپنڈی جیسے علاقے شامل تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر
خوبصورت علاقے بھی دنیا بھر میں متعارف ہوئے اور سیاحت تیزی سے بڑھی۔ یہی
وجہ ہے کہ آج ملک میں سینکڑوں سیاحتی مقامات کی سیر کی جاتی ہے خاص کر
پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں سیاحت اپنے عروج پر ہے۔ |
|
شمالی علاقوں میں آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، خیبر
پختونخوا اور شمال مغربی پنجاب شامل ہیں۔ پاکستان کے شمالی حصے میں قدرت کے
بے شمار نظارے موجود ہیں، اس کے ساتھ ساتھ مختلف قلعے، تاریخی مقامات، آثار
قدیمہ، وادیاں، دریاں، ندیاں، جنگلات، جھیلیں اور بہت کچھ موجود ہیں۔ سکردو
میں دیوسائی کا خوب صورت ٹھنڈا صحرا قدرت کی بے نظیر کاری گری ہے۔ پاکستان
کے جنوبی علاقہ جات بھی سیاحوں کے لیے پرکشش ہیں۔ بلوچستان کے خوب صورت خشک
پہاڑ، زیارت، کوئٹہ اور گوادر اپنی مثال آپ ہیں۔ سندھ کا ساحل سمندر، کراچی،
مکلی کا قبرستان، گورکھ ہل سٹیشن دادو، صحرائے تھر، موئن جو دڑو اور بہت سے
شہر اور دیہات اپنی خوب صورتی اور تاریخی پس منظر کی وجہ سے سیاحت میں خاص
مقام رکھتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کا تاریخی شہر ملتان،بہاولپور کا صحرائے
چولستان اور ضلع ڈیرہ غازی خان کا خوب صورت علاقہ فورٹ منرو بھی سیاحتی
اہمیت کے حامل ہیں۔ |
|
دنیا کے کئی ممالک نے سیاحت کو صنعتی پیمانے پر فروغ دے
کر اسے زرمبادلہ حاصل کرنے کا بڑا ذریعہ بنا لیا ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان
میں بھی حکومتی سطح پر 2025 تک سیاحت کے شعبے میں قابل ذکر ترقی کرنے کا
امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ |
|
خوش قسمتی سے پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جو
دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی جانب کھینچنے کے سارے لوازمات رکھتا ہے۔ لیکن
ان سیاحوں کو سہولیات فراہم کرنا اور ان کے جان ومال کی حفاظت ہماری حکومت
کا فرض ہے۔ اور یقیناً ان علاقوں میں سہولیات کا شدید فقدان ہے اور اس کی
ذمہ دار فیڈرل اور لوکل دونوں حکومتیں ہیں۔ حال ہی میں مری میں جو واقعہ
ہوا وہ ان حکومتوں کے ناقص انتظامات کی بد ترین مثال ہے۔ |
|
|
جائزہ لیا جائے تو سیاحتی مقامات پر نہ پکی سڑکیں ہیں
اور نہ ہی TOILETS کا کوئی خاص انتظام ہے۔ ہوٹلوں کا تو بس نہ ہی پوچھیں۔
یہ سب بتانے کا مقصد صرف توجہ طلب کرنی ہے ورنہ سیاحت کو فروغ دینا ہم سب
کے لئے فائدہ مند ہے ۔ ہمارا ملک کسی جنت سے کم نہیں تو کیوں نہ ہم اس جنت
کو مل کر سنواریں۔ |
|
آخر میں حکومت سے گزارش ہے کہ اس امر پر خصوصی توجہ دیں
اور عوام سیاحت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کریں۔ جب ان مقامات پر
جائیں تو ان مقامات پر کچرا پھیلانے سے گریز کریں ساری دنیا میں لوگ ریپرز
وغیرہ کے لئے اپنے پاس بیگ رکھتے ہیں تاکہ جہاں ڈسٹ بن نظر آئے وہاں پھینک
دیں۔ اپنی اور اپنے بچوں کی تربیت اسی انداز سے کریں ۔ ملک ہمارا اپنا ہے
تو اس کو سنوارنا بھی تو ہم نے ہے۔ سب کچھ حکومت پر ڈال کر بری الذمہ تو
نہیں ہو سکتے۔ |