سکیورٹی گارڈ


آج اس کی جیل خانے میں آخری رات تھی۔ آج اسے جیل میں اپنی پہلی رات کی طرح نیند نہیں آ رہی تھی۔ اس کی زندگی کے بہترین سال جیل کی اونچی دیواروں کے اندر بیت چکے تھے۔ اس نے جیل کی زندگی کا اس سے پہلے کبھی سوچا نہ تھا۔ اگرچہ وہ بچپن کے ہمجولیوٗں کے ساتھ چور سپاہی کا کھیل ضرور کھیلا کرتا تھا جس میں وہ اکثر چور کو رول کرنا پسند کیا کرتا تھا اور جب وہ کبھی پکڑا بھی جاتا تو اسے کوئی شرمندگی نہیں ہوا کرتی تھی کیوں کہ پولیس مین بننا اسے کبھی پسند نہیں آیا تھا۔ وہ دل کا بُرا نہ تھا ۔ حالات نے اسے ایک سیکیورٹی گارڈ کی ڈیوٹی پے لگا دیا تھا اور پھر اس سے کچھ ایسا ہو گیا کہ اس کو زندگی جیل خانے کے عذاب میں گزارنا پڑی۔ آج کی رات وہ اپنے خیالوں میں کھوئے رہنے میں سکون محسوس کر رہا تھا۔یہ سکون اسے کہاں سے مل رہا تھا کہ جب اس کا جیل سے رہا ہونے کو خود کا بھی دل نہیں کر رہا تھا۔ جیل کے اندر آ کر اسے جیل سے باہر کے حالات کا زیادہ بہتر ادراک ہوا تھا۔ وہ جس معاشرے میں رہ کر اس جیل کا قیدی بنا تھا اس کی صحیح سمجھ اسے جیل خانے نے دی تھی۔ یہ جیل اس لحاظ سے اس کے شعور کی یونیورسٹی بھی تھی لیکن یہاں سے ڈگری کسی کو نہیں ملتی لیکن سبق ہر کسی کو مل جاتا ہے۔ وہ آج کی رات اپنے ماضی کے خیالوں کی بگھیا میں گزارنا چاہتا تھا۔ سب قیدی سو چکے تھے۔وہ اکیلا اپنے ماضی کی راہوں پے چلتا ہوا بیس سال پہلے کی زندگی میں پہنچا ہوا تھا۔

جیل میں مجید زندگی کے کئی ایسے پہلوؤں سے بھی روشناس ہوا تھا جن سے وہ ،اگر جیل میں نہ آتا، کبھی آشنا نہ ہو سکتا تھا۔ جیل میں بھانت بھانت کے قیدی آتے اور جاتے رہتے تھے۔ اس کی ایک قیدی ’کرم دین عرف کرمو‘ سے دوستی ہو گئی تھی۔ کرمو بھی اس کی طرح دوہرے قتل کے کیس میں دو بار کی عمر قید کی سزا بھگت رہا تھا۔ اس کی کہانی مجید ،جس کا جیل میں نام’مجیدا‘ مشہور ہوا تھا کی کہانی سے بالکل الٹ تھی لیکن جرم ایک تھا یعنی دوہرا قتل ا س لئے سزا بھی ایک جیسی تھی۔ وہ مجید کے جیل میں آنے سے چند ماہ پہلے ہی یہاں کا مہمان بنا تھا ۔ اس نے مجید سے دوستی پکی ہونے کے بعد اس سے اس کی کہانی سنی اور پھر اپنی کہانی بھی سنائی تھی۔ اس کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا تھا ۔ دونوں کو اس نے انتہائی لاڈ پیار اور محبت سے پالا پوسا تھا۔ اس کو اپنی بیٹی سے اپنے بیٹے سے بھی زیادہ پیار تھا۔ اور وہ اس کی چھوٹی سے چھوٹی خواہش بھی پوری کرنا اپنے اوپر فرض سمجھا کرتا تھا۔اس کی بیٹی تھی بھی خوبصورت اور پڑھائی میں بھی اس کی قابلیت سب سے داد سمیٹا کرتی۔ پورے گاؤں کی زبان پر اس کی تعریف ہی تعریف تھی۔ بہت بھلی مانس اور ادب آداب کا پیکر جس پر کسی قسم کا شک شبہ کرنے والا خود ہی اپنے آپ کو غلط کہہ دیا کرتا تھا۔کرمو کو اپنی بیٹی پر بہت ناز تھا۔ اور ساری برادری اس کا یکے بعد دیگرے رشتہ مانگ رہی تھی۔ کرمو ہر آنے والے رشتہ پر اپنی بیٹی ’شگفتہ‘ سے مشورہ کرتا کیوں کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی اپنی نہیں بلکہ اپنی بیٹی کی مرضی سے کرنا چاہتا تھا۔ اس کی بیٹی ہر رشتہ میں سے کوئی ایک نا پسندیدہ نکتہ نکال کر رشتہ ٹال دیا کرتی۔ بعض رشتے کرمو کو بہت پسند تھے اور وہ چاہتا تھا کہ اس کی بیٹی ان رشتوں پر ’ہاں ‘ کر دے لیکن اس کی حیرانی کے لئے اس کی بیٹی ان رشتوں کو بھی نظر انداز کر دیا کرتی، اگرچہ اسے علم ہوتا کہ اس کا باپ ان رشتوں پر دل سے راضی ہے۔ اگر وہ چاہتا تو اپنی مرضی سے اس کا کہیں نہ کہیں رشتہ کر سکتا تھا لیکن اسے اپنی بیٹی پر کسی بھی دوسری چیز سے زیادہ اعتبار تھا اور اس کی محبت یہ اعتبار بکھیرنا نہیں چاہتی تھی۔اس دو ر ان چند سال بیت گئے۔ کرمو کی بیوی اس کے بچوں کے بچپن میں ہی خالقِ حقیقی سے جا ملی تھی، اس لئے اسے یہ بھی فکر تھی کہ کہیں اس کے ساتھ بھی کوئی ایسی بات نہ ہو جائے جو اس کی اولاد خاص طور پر اس کی بیٹی کے لئے مسائل پیدا کرے۔ اس لئے وہ اس کی شادی اپنے جیتے جی اپنی تمام ’رِیج‘ کے ساتھ کرنا چاہتا تھا لیکن اس کی بیٹی کسی بھی قسم کے رشتہ پر اکتفا کرنے پر راضی نہ ہو رہی تھی۔ کرمو نے اپنے بیٹے ’فرحان‘ کی شادی بھی ’شگفتہ‘ کی شادی کے بعد کرنے کا ارادہ کیا ہوا تھا ۔ اصل میں اس کا خیال تھا کہ جہاں شگفتہ کی شادی ہو گی اسی خاندان میں وہ اپنے بیٹے کی بھی شادی کر دے گا اس طرح دونوں بہن بھائی ایک دوسرے کے قریب بھی رہیں گے اور ایک دوسرے کو مضبوط بھی کریں گے۔ لیکن شگفتہ کا آئیڈئل ملنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا اور آئیڈئل سے ہٹ کر وہ کہیں شادی پر رضا مند نہ تھی۔

ایک شام جب فرحان، شگفتہ کو اس کی اکیڈمی سے لینے گیا تو اسے پتہ چلا کہ وہ اکیڈمی سے جا چکی ہے۔اکیڈمی میں اس کی کورٹ میرج کی باتیں ہو رہی تھیں۔ فرحان کو شگفتہ کی ایک فرینڈ نے بتایا کہ اس نے اپنی کلاس کے ایک لڑکے کے ساتھ کورٹ میرج کر لی ہے اور وہ پہاڑی علاقوں کی سیر کو بھی جا چکے ہیں۔ فرحان کے اوسان خطا سے ہو گئے۔ اسے معلوم نہیں پڑ رہا تھا کہ وہ کیا سن رہا ہے۔ اس نے شگفتہ کے فون پر کال کی لیکن وہ نمبر آف تھا۔ کئی بار کی کال کا جواب بھی وہی تھا جو کہ پہلی کال کا تھا۔ اس پریشانی میں جب وہ گھر پہنچا تو اپنے والد کو صورتِ حال بتانے سے پہلے اس نے ایک بار پھر فون ملانے کی کوشش کی لیکن بے سود۔ آخر اس نے اپنے باپ کرمو کو شگفتہ کی دوست سے سنی ساری بات بتا دی۔ کرمو کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ اس کی آنکھوں کے آگے کئی راتوں کی تاریکی اکٹھی ہو کر ایک دبیز سیاہ پردے کی شکل میں چھا گئی تھی۔ رات کا اندھیرا ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ اس کے دل پے کیا گزر رہی تھی اس کے سوا کوئی نہ جانتا تھا۔ اس کا رنگ اڑ گیا تھا اور دل بیٹھ گیا تھا۔ وہ موت کا متمنی بن چکا تھا لیکن موت اس کا مذاق اڑا رہی تھی کیوں کہ وہ آدمی کے چاہنے سے نہیں بلکہ اپنی مرضی سے آتی ہے۔ اس رات دونوں باپ بیٹا آنکھوں میں آنسو ؤں کی آبشاریں لئے ساری رات ایک دوسرے کی طرف حسرت بھری نگاہ سے دیکھتے رہے۔ دونوں کے پاس بات کرنے کے لئے بہت کچھ تھا لیکن ان کی زبان ہلنے سے کترا رہی تھی، ان کے ہونٹ اپنے اوپر تالے لگا کر سو چکے تھے اور ان کی آنکھیں ان کی بربادی کی گواہی دینے کے لئے جاگے چلی جا رہی تھیں۔
تمھیں یہ بات کس نے بتائی؟
شگفتہ کی فرینڈ سلمہ نے جو ایک بار ہمارے گھر بھی آئی تھی۔
اب کیا کیا جائے؟ کرمو نے پست سی آواز میں فرحان سے پوچھا
ابو، اب کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ اس نے اپنی مرضی کی شادی کر لی۔
ہم تو پوری برادری اور سارے گاؤں میں کسی کو منہ نہیں دکھا سکیں گے۔ میرا تو جی چاہتا ہے کہ بجلی کی تاروں کو ہاتھ لگا کے مرجاؤں۔
ایسا کرنے سے ان کا کیا جائے گا۔ میں دنیا میں اکیلا رہ جاؤں گا۔ ابو ، ایسا کچھ نہ کرنا۔
میں شگفتہ کی یہ حرکت برداشت نہیں کر سکتا۔ کاش کہ تمہاری ماں نہ مرتی، میں مر جاتا۔ پھر تمھارا جو جی چاہتا کر لیتے۔ کاش کہ میں اب ہی مر جاؤں۔
دونوں باپ، بیٹا چپکے چپکے ساری رات روتے رہے ۔ وہ کسی کو اپنی اس پریشانی کا شریک نہیں بنا سکتے تھے سوائے ان کے جن کو یہ بات ازخود ہی پتہ چل جائے۔
کرمو ، مجید کو بتایا کرتا کہ اس نے فریب اختیار کر لیا۔ شگفتہ سے شادی کرنے والے لڑکے کے دوست کے ذریعے اس کا اتا پتا معلوم کروالیا۔ اس کے والدین سے ملے اور انہیں بتایا کہ انہیں اس شادی پر کوئی اعتراض نہیں۔ شگفتہ اور ا س کا شوہر دو ہفتوں بعد واپس آ گئے۔ کرمو اپنی بیٹی کے گھر گیا۔ اس کی شادی پر مبارک باد دی ، اسے اور اس کے شوہر کو اپنے گاؤں آنے کی دعوت بھی دی جو انہوں نے بڑی خوشی سے قبول کر لی۔ اس رات کرمو اور فرحان نے ایک سوچے سمجھے پلان کے تحت ان کو ایک کمرے میں سلا دیا ۔ اور ابھی رات اپنی اوسط میں بھی پہنچی تھی کہ باپ بیٹے نے شگفتہ اور اس کے شوہر کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ اسی رات پولیس انہیں گرفتار کر کے لے گئی۔ واقعہ کا چشم دید گواہ نہ تھا اس لئے کرمو نے اپنے بیٹے کی جان بچانے کے لئے ساری ذمہ واری اپنے اوپر لے لی۔ اس نے کہا کہ اس کا بیٹا اس واقعہ کے بعد شہر سے آیا تھا ۔ اس نے دونوں کو اکیلے ہی پسند کی شادی کرنے کی پاداش میں قتل کیا تھا تا کہ گاؤں میں اس کی عزت رہ جائے۔ فرحان کی چند ماہ بعد ضمانت پے رہائی ہو گئی تھی۔ اب وہ تین بچوں کا باپ تھا۔ اور کبھی کبھی اپنے باپ سے ملنے بھی آیا کرتا تھا۔ دوہری عمر قید نے کرمو کو مکمل بوڑھا کر دیا تھا اور اس کی رہائی سے دو ماہ پہلے ہی موت واقع ہو گئی تھی۔ اس کی موت سے مجید کی تنہائی میں اضافہ ہو گیا تھا۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھی ،دوست اور غم گسار تھے۔اور جب موقع ملتا ایک دوسرے کو اپنی اپنی بپتا سنایا کرتے۔ کرمو کے جب اپنی پیاری بیٹی کے لئے جذبات ضبط سے باہر ہو جاتے تو وہ بہت رویا کرتا۔ اس کی یہ کیفیت سالوں پہلے بہت زیادہ تھی۔ وہ جذباتی ہو کر اپنے ہاتھوں کو اپنے دانتوں میں رکھ کر کاٹنے کی بھی کوشش کیا کرتا لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس طرح کرنے سے اس کا کچھ بھی فائدہ نہیں ہونے والا۔ خاص طور پر جب کبھی کوئی تہوار آتا اور اسے اپنے بیٹے اور بیٹی کا بچپن یاد آتا تو اس کی کیفیت پاگلوں جیسی ہو جایا کرتی۔ وہ دیوانہ وار اپنے منہ پر تھپڑ مارنے لگتا۔ آخر مجید اس کو اس صورتِ حال سے بڑی مشکل سے باہر نکالتا۔ کبھی کبھی مجید کے جذبات امڈ آتے تو اس کے لئے کرمو ایک سچے ہمدرد کا رول پلے کرتا۔ وہ ایک دوسرے کے لئے نعمت تھے کہ ایک دوسرے سے بات چیت کر کے دل کا بوجھ ہلکا کر لیا کرتے۔کرمو کی باتیں سن کر مجید کو لگتا کہ اگر وہ سائرہ اور اس کے بھائی کو قتل کرتے وقت ان کے جذبات کا تھوڑا سا بھی لحاظ رکھ لیتا تو اس سے وہ قتل نہ ہوتے اور نہ ہی اس کی ساری زندگی زنداں کی اونچی دیواروں کے اندر گزرتی۔ اور جب کرمو مجید کی کہانی سنتا تو وہ بھی افسوس کرتا کہ اگر وہ اپنی بیٹی جس نے محبت کی شادی کی تھی کے جذبات درست طور پر سمجھ پاتا تو کبھی بھی اپنی پیاری بیٹی اور اس کے شوہر کے خون سے اپنے ہاتھ نہ رنگتا۔ قتل کی یہ دونوں نوعیتیں ایک دوسرے کے جذبات نہ سمجھنے کے باعث وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ اگر اس قسم کے قتل کے واقعات کی راک تھام کرنی ہے تو نیوز چینلز پر بے کار قسم کی سیاسی بحث وتمحیص کی بجائے سماجی مسائل پر پروگرام نشر کر کے اولاد اور والدین کو ایک دوسرے کے جذبات کے قریب کر کے زمانے کے نئے تناظر کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش ہونی چاہیئے۔ مجید اس طرح کے جذبات سے آئے روز گزرتا۔ وہ قتل کو پرلے درجے کی حماقت قرار دے رہا تھا۔ قتل کے علاوہ جیسی بھی زندگی جینے کو مل جائے لے لینی چایئے۔ کسی بھی جذبے کو قتل کے لئے جواز بنانا عقلمندی قرار نہیں د دی جا سکتی۔لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئی کھیت۔اکثر انسان کو سمجھ ظالم بھی اس وقت راستے میں ملتی ہے جب وہ تباہی کے مراحل طے کر چکا ہوتا ہے۔ اس طرح کے کئی واقعات جیل کے چپے چپے پے بکھرے ہوئے تھے۔لیکن ان سے دانائی وہ لیتے ہیں جو واردات کے مرتکب ہو کر سزاوار ہو چکے ہوتے ہیں۔ جیل اور ہسپتال عوام کے روزمرہ مشاہدے میں لا کر انسانوں کو بہت سی حماقتوں سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ یہ ادارے معاشرے کے لئے جسمانی اور طبی سیکیورٹی گارڈوں کا رول پلے کر سکتے ہیں۔ معاشرے کا مسئلہ صرف اور صرف سیاست نہ جانے کب سے ہو گیا ہے۔

مجید کے سامنے جیل میں ایک کرائے کا قاتل بھی قید ہوا۔ جس نے اپنی زبانی یہ اقرار کیا کہ اس نے بیس سے زیادہ قتل کئے ہوئے ہیں۔ وہ ایک قتل کے کسی زمانے میں پچاس لاکھ لیا کرتا تھا لیکن اب چوں کہ مہنگائی بہت ہو چکی ہے تو اس کا ریٹ ایک کروڑ روپے فی قتل تھا۔ اس نوجوان کا نام مجید کو اکثر بھول جایا کرتا تھا۔ چند ماہ ہی جیل میں رہا تھا اور پھر باعزت بری ہو گیا تھا۔ اس نے جیل کے ساتھیوں کو دورانِ گپ شپ بتایا تھا کہ اس کا تعلق ایک بہت طاقتور گینگ سے ہے۔ یہ گینگ ہر قسم کی بڑی بڑی وارداتیں کرتا ہے۔ اور ملک کے مشہور اور مضبوط لوگ اس کے سر پرست ہیں ۔ وہ اگر کبھی پکڑا جائے تو اس کے خلاف گواہی دینے والے ہی مکر جاتے ہیں۔ کسی کو اس کے خلاف گواہی دینے کی جرائت نہیں ہوتی۔ گواہوں کو ڈرا کر گواہی سے منحرف کروا دینا عدالت کے مقدمے میں سب سے زیادہ آسان اور محفوظ کامیابی ہوتی ہے۔ طاقتور لوگ اپنے گینگ کو ایسے ہی حربوں سے چلاتے ہیں۔ قانون گواہوں کے بغیر ایک نابینا بوڑھا انسان ہے جو کسی کو بھی نہ پکڑ سکتا ہے اور نہ سزا دے سکتا ہے۔اس بات کا زیادہ سے زیادہ فائدہ گینگ ساز لوگ اٹھاتے ہیں۔ طاقتور کے خلاف گواہی کی جرائت کسی کو نہیں کیوں کہ ریاست انہیں حفاظت فراہم کرنے سے قاصر ہے اس لئے لوگ اپنی جان بچاتے ہیں اور پرائی آگ سے دور ی میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔اس نوجوان نے مجید اور کرمو دونوں کو بے وقوف قرار دیا تھا کہ اس قسم کے کیس میں بھی عمر قید لے کے بیٹھے ہوئے ہیں۔

جیل خانے میں چھوٹے چھوٹے مجرموں کی کوئی عزت نہ تھی۔ وہاں قتل، اغوا اور بھتہ خوروں کا قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اگر چہ مجید کی بھی کچھ عزت تھی کہ وہ دو قتل کے کے وہاں پہنچا تھا لیکن اس قسم کے قتل کو بھی جیل کی چاردیواری میں اتنا مقام نہ تھا جتنا کہ پولیس مقابلے میں زخمی ہو کر یا اشتہاری ہوکرپکڑے جانے کے بعد جیل میں آنے کا تھا۔ وہاں گھریلو قسم کے قتل کی وارداتوں کو نسوانی اور پولیس مقابلوں میں پکڑے جانے یا اشتہاری ہونے میں فخر محسوس کیا جاتا تھا۔ مجید لوگوں کی اس سوچ کا بھی قریب سے مشاہدہ کر تا رہتا۔ یہاں تک کہ جیل خانے کے افسران اور چھوٹے ملازمین بھی ایسے بڑے مجرموں سے کسی بدلے سے انداز میں بات کیا کرتے۔

جیل کے ملازم خود کئی مجرموں کو منشیات لا کر دیا کرتے۔ کئیوں کی تو اور بھی بہت سی موجیں کروایا کرتے لیکن یہ ساری باتیں سارے لوگ نہیں کرتے تھے۔ کچھ لوگ اچھے بھی تھے اور ڈیوٹی کو ڈیوٹی سمجھ کر ہی کر رہے تھے۔ اتنی اندھیر نگری میں بھی کچھ لوگ حلال کی روزی کھانے کی جدو جہد کر رہے تھے اور کئی افسران تو یہ نوکری چھوڑ کر بھی جا چکے تھے۔الغرض وہاں ہر رنگ اور ہر ڈھنگ کا بندہ مجید کے مشاہدے میں آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجید کی بے تابی تھی کہ تھم نہیں رہی تھی۔ وہ اس بے چینی سے تنگ آ کر کوئی انہونی کر دینا چاہتا تھا۔ وہ حالات کے تھپیڑے کھا کھا کے سیر ہو چکا تھا اور اب وہ اپنی من مانی کرنے کے لئے تمام اخلاقی، سماجی اور قانونی حدود سے گزر جانے کے لئے بے بس ہوچکا تھا۔ اس کی پسندیدہ لڑکی’ سائرہ‘ کی شادی کو چھ ماہ ہو چکے تھے لیکن وہ اس کے بغیر زندگی گزارنے کی سوچ سے سہمت نہیں ہو رہا تھا۔ سائرہ سے اس کی کوئی رشتہ داری بالکل نہیں تھی اور نہ ہی وہ سائرہ کے خاندان کو پسند ہی تھا۔ اس کی سائرہ کے ساتھ کوئی گہرے عہدو پیمان ہوئے تھے کہ وہ ہمیشہ اس کے ساتھ زندگی گزارے گی۔ بس ایک بینک کی نوکری دونوں کو ایک دوسرے کے کچھ قریب لے آئی اور اس قربت کا اثر یہ ہوا کہ سائرہ ، مجید کے دل میں اتر گئی جسے دل سے اتارنے کے لئے اس نے لاکھ جتن کئے تھے لیکن وہ بھی شاید کسی اور قوت کے ہاتھوں بے بس تھا۔ سائرہ اور اس کی فیملی تو بہت سے سماجی، اخلاقی اور روایتی بندھنوں میں جکڑی ہوئی تھی لیکن مجید کس قوت کی گرفت میں تھا اس کا اسے خود بھی ادراک نہ تھا۔ وہ ایک شریف انسان تھا، حالات کی مجبوری نے اسے ایک سکیورٹی گارڈ کی سخت ڈیوتی کرنے پے لگا رکھا تھا۔ اس کے سر سے باپ کا سایہ اس کی نوجوانی میں ہی اٹھ چکا تھا۔ اس کی بوڑھی ماں لوگوں کے گھروں میں کام کاج کر کے اس کا اور اس کی بہن ’اجالا‘ کا پیٹ پالا کرتی تھی۔ اتفاق سے اسے ایک بینک مینجر کے گھر کام کرنے کا موقع ملا۔ وہ مینجر خدا ترس تھا ۔مجید کی ماں اس سے اپنے بیٹے کے لئے منت کیا کرتی تھی۔لیکن وہ ابھی اٹھارہ سال کا نہیں ہوا تھا۔ جیسے ہی اٹھارہ برس کا ہوا تو اس مینجر نے اپنے بینک میں اسے سکیورٹی گارڈ بھرتی کروا لیا۔ مجید اپنی فطرت میں بہت نیک اور فرش شناس ملازم تھا۔ اس نے کوئی پانچ سال بینک کی ملازمت کی۔ اس دوران اس نے اپنی چھوٹی بہن ’اجالا‘ کی شادی بھی کی اور اپنے لئے گھر کی مرمت وغیرہ کا کام کروایا تا کہ اپنی شادی کے بعد وہ ایک پر سکون زندگی بسر کر سکے۔ طمع کی اس لمبی اننگ کے اختتام پر اس کی والدہ کا بھی انتقال ہو گیا اور وہ گھر میں اکیلا ہی رہ گیا۔ اسے زندگی نے بہت زیادہ خوشیاں نہیں دی تھیں۔ ابھی چھوٹا ہی تھا کہ باپ فوت ہو گیا، اور جب ماں کے خوشیاں دیکھنے کے دن آئے تو اس کی آنکھیں ہمیشہ کے لئے بند ہو گئیں۔

اس کی تنخواہ اس کے لئے کافی سے زیادہ تھی۔ وہ ایک غریب گھرانے کا فرد ہونے کی وجہ سے اپنے لئے زندگی کی بہت بڑی عیش و آرام سے مزین رہائش کا طلبگار نہ تھا۔ وہ راتوں کی تنہائی اور دن کی تھکن سے تنگ سا آگیا تھا لیکن اس کے پاس زندگی کا یہ انداز بدلنے کا کوئی رستہ نہیں تھا۔ اس کے رشتہ داروں میں اس کے لئے کوئی رشتہ نہ تھا اور اس کے رشتہ دار زیادہ تھے بھی نہیں۔ وہ ایک چھوٹی فیملی اور برادری والا انسان تھا۔قد کاٹھ میں مضبوط ، شکل وصورت میں دل پسند اور اخلاق میں مروت سے بھرپور۔ لیکن قسمت ان میں سے کسی بھی چیز کو نہیں دیکھتی۔ وہ کیا دیکھتی ہے کوئی نہیں جانتا اور مجید تو بالکل ہی نہیں جانتا تھا کہ اس کی قسمت پُڑی میں اس کے لئے کیا رکھا ہے۔وہ اکیلا تھا، اس لئے اسے گھر جانے کی بھی جلدی نہ ہوتی تھی اور وہ نہ کسی کا مُنتظَر تھا اور نہ کوئی اس کا مُنتظِر تھا۔ بس اکیلی جان راتوں کی سیاہی کو سفیدی میں بدلتے بدلتے تھک سی گئی تھی۔ جمعہ کو اپنے ماں باپ کی قبور پے حاضری ضرور دیتا۔ مہینے میں ایک آدھ بار اس کی چھوٹی بہن اس سے ملنے آ جاتی اور کبھی کبھار وہ اس سے ملنے چلا جاتا ، لیکن یہ ملاقات چند گھنٹوں سے زیادہ کی نہ ہوتی اور پھر بہن بھائی اپنے اپنے گھروں میں واپس ہو جاتے۔

ایک سال پہلے بینک میں ایک لڑکی کو ملازمت ملی۔ یہ لڑکی بینک کے قریب ہی رہتی تھی۔ اس کا بھائی بھی کسی اور بینک میں کیشیئر تھا۔ اور بینک مینجر سے اس کی اچھی سلام دعا تھی۔ وہ فارغ وقت میں کبھی کبھی بینک بھی آیا کرتا اور بینک مینجر اسے چائے پیئے بغیر واپس نہ جانے دیا کرتا۔ اس لڑکی کی شکل صورت بہت زیادہ پُرکشش نہ تھی۔ بس اگر خوبصورتی کو ریاضی کے پلڑے میں ڈال کر حساب لگایا جائے تو اس کی خوبصورتی کو ایک سو میں سے پچاس نمبر دیئے جا سکتے تھے۔ اس لڑکی کانام ’سائرہ بانو‘ تھا۔ یہ نام مجید کو بہت اچھا لگا۔وہ لڑکی جدید فیشن کی رسیا بھی نہ تھی۔ اپنے بال اور چہرے کو مناسب طور پر ڈھانپ کے ہی رکھتی۔ کس کی کون سی ادا کس کو پسند آ جائے ، اس بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا یا کر سکتا۔اس کی سادگی، خوش اخلاقی، متانت اور عزتِ نفس سے بھرے انداز نے دھیرے دھیرے مجید کی آنکھوں سے اتر کر اس کے دل میں گھر کرنا شروع کر دیا۔ مجید اپنی ڈیوٹی کے دوران جب بھی اس پوزیشن میں ہوتا کہ وہ سائرہ کی طرف دیکھ سکے تو وہ کوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتا۔لیکن وہ بینک کے ڈسپلن سے بھی آگاہ تھا کہ اگر کوئی شکایت ہو گئی تو نوکری جاتی رہے گی اور بے روزگاری کا پہلے ہی کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ مہنگائی نے تو پہلے ہی دو وقت کی روٹی جوئے شِیر لانے جیسی بنا دی ہے۔ وہ انتہائی محتاط ہو چکا تھا ، لیکن بعض اوقات احتیاط سے چلائے گئے تیر بھی نشانے پر لگنے کی بجائے خود تیر انداز کو نشانہ بنا دیتے ہیں۔اس کی یہ نظر بازی آہستہ آہستہ سائرہ کے حواس کے کواڑ پے دستک دینے لگ پڑی۔ سائرہ جب یہ دستک سنتی تو کچھ پریشان ہو کر اپنا دوپٹہ تھوڑا سا اور سیدھا کر لیتی اور اپنے کام سے کام رکھتی۔ اسے اس بات کا زیادہ شدت سے احساس تھا کہ اگر مجید میں کوئی ایسی بات ہے جس کا اسے خدشہ محسوس ہونے لگا تھا تو یہ بات اس کی نوکری کے لئے بھی زہرِ قاتل ثابت ہو گئی اور کا بھائی ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر اسے نوکری کرنے سے منع کر دے گا۔ اسے اپنے بھائی کی طبیعت اورمزاج کا پتہ تھا۔اس نے سائرہ کو پہلے ہی سمجھایا ہوا تھا کہ بینک کی نوکری میں صرف نوکری کرنی ہے اور کچھ نہیں ورنہ وہ اسے گھر سے باہر نہیں جھانکنے دے گا۔

مجید نے کسی طرح سے سائرہ کا فون نمبر حاصل کر لیا تھالیکن ابھی اس میں اس سے کوئی رابطہ کرنے کی جرائت پیدا نہیں ہو رہی تھی۔ وہ اس تلاش میں تھا کہ اسے سائرہ سے کوئی بات کرنے کا موقع ملے۔ لیکن وہ ڈرتا بھی تھا کہ اگر سائرہ نے اس کی شکایت لگا دی تو کام خراب ہو سکتا ہے۔مجید کی بیتابی میں روزبروز اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور اس کے سائرہ کی طرف دیکھنے کے انداز میں کچھ جذبات کی آمیزش شامل ہوتی جا رہی تھی۔بعض اوقات مجید اور سائرہ کی نگاہوں آپس میں ٹکرا جاتیں لیکن سائرہ اس ٹکراؤ میں کسی قسم کی غیر معمولی بات نہیں تھی اور اگر اسے کبھی کوئی بات محسوس بھی ہوتی تو وہ اس پر ایک سمجھدار خاتون والا ردِ عمل ظاہر کرتی اور بھی بھی لا اوبالی عمر کا احساس نہ ہونے دیتی۔ مجید کی سائرہ میں دلچسپی روز بروز بڑھتی چلی جا رہی تھی ۔ اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے اس کے اندر سے کوئی اس کی اس کیفیت کو بڑھاوا دے رہا ہے۔اس کا دل اس کے کنٹرول سے باہر ہوچکاتھا اور کبھی کبھی نظر بھی اس کی بات ماننے سے انکاری ہو رہی تھی۔ وہ اپنے دل اور دماغ میں تو جو چاہے سوچ سکتا تھا لیکن نظر تو ایک سماجی چیز ہوتی ہے، دل ودماغ ذاتی چیز ہوتے ہیں، اس لئے سماجی چیز کو سماجی اور ذاتی چیز کو ذاتی انداز میں استعمال کرنے کے سنہری اصول پر وہ عمل پیرا ہونے کی کوشش تو کر رہا تھا لیکن نظر کبھی کبھی انسان کی احتیاط سے نظر بچا کر کسی اسی سمت میں گھس جاتی ہے جدھر جانا ریڈ لائن کراس کرنے والی بات ہوتی ہے۔ اس کی نظر اب ریڈ لائن کراس کرنے کی غلطی بار بار کر رہی تھی لیکن سائرہ اس غلطی کو بس اتفاق اور مَردوں کی عادت سمجھ کے ٹالے جا رہی تھی۔ اس کے دل میں اپنے طور پر اطمینان کا ایسا ماحول تھا جس میں کسی پریشانی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں مل سکتی تھی۔ وہ اپنے دل کا سکون کسی کی آوارہ نگاہی کے سبب برباد نہیں کر لینا چاہتی تھی۔ دل کا سکون کون سا آ سانی سے میسر آتا ہے۔ جسے میسر آ جائے وہ اسے تھوڑی سی بات پر جانے بھی نہیں دیتا۔ ادھر مجید کی بے اطمینانی جیسے کسی سمندر کی لہروں کی زد میں آئی ہوئی کوئی کمزور کشتی کہ اب ڈوبی کہ اب ڈوبی۔ اس کی جان میں سکون نام کی چیز کی بڑی تیزی سے قلت ہوتی جا رہی تھی اور یہ قلت کسی مصنوعی طریقے سے پوری بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔

اس کا دل کبھی کبھی کوئی نشہ کرنے کی تجویز دیتا لیکن اس کا دماغ اس پر راضی نہ ہوتا، کبھی کبھی وہ کسی جرم کا ارتکاب کر لینے کی طرف اپنی دل کی رغبت سے بھی پریشان ہو جاتا۔

اُسے ایک دن بینک کے ساتھیوں سے پتہ چلا کہ سائرہ کی شادی کی تاریخ طے ہو گئی ہے اور اب وہ اس بینک میں ایک ماہ کی مہمان ہے اس کے بعد وہ شاید کسی دوسرے بینک میں نوکری کرے گی یا بالکل گھریلو خاتون بن کر اپنے نئے گھر کو چلائے گی۔ ان الفاظ کا مجید کی سماعتوں سے ٹکرانا تھا کہ وہ اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو نہ جانے کیوں اور کدھر سے اُمڈتے چلے آ رہے تھے۔

ایک دن اسے سائرہ کی شادی کا کارڈ بھی مل ہی گیا۔ یہ کارڈ اسے ڈیوٹی پر معمور اس کے ساتھی سکیورٹی گارڈ نے دیا تھا۔اس کا جی چاہا کہ اس کارڈ کو آگ لگا دے۔ یا کرچی کرچی کر کے کہیں پھینک دے ،لیکن لوگوں کے سامنے وہ ایسا کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے اپنے ساتھی سکیورٹی گارڈ کا شکریہ ادا کیا اور ایک حسرت بھری نگاہ سے اس جانب دیکھا جہاں سائرہ بیٹھ کر اپنی ڈیوٹی کیا کرتی تھی۔ آج اس نے ایک دن کی چھٹی اپلائی کی ہوئی تھی۔ مجید نے تصور ہی تصور میں سائرہ کی تصویر بنا لی اور اپنی آنکھوں کے سامنے سجا لی۔ وہ بینک سے باہر چلنے والی ٹریفک کی طرف دیکھنے لگا۔ اسے آنے جانے والی عورتوں اور خاص طور پر لڑکیوں میں سائرہ کی جھلک دیکھائی دے رہی تھی لیکن ان میں سے کوئی بھی سائرہ نہیں تھی۔ اس کی ڈیوٹی کا آج کا دن سب سے زیادہ مشکل تھا۔ اس کی آنکھیں اپنے اندر چھپے دریائے نیل کو بہنے کی اجازت نہیں دے رہی تھیں کہ اس کام کے لئے تنہائی اور علیحدگی کا کوئی گوشہ زیادہ مناسب ہے ورنہ سب لوگ رونے کا سبب پوچھیں گے اور ہو سکتا ہے کوئی مذاق اڑائے اور کوئی دوسرا اسے پاگل ہی قرار دے کر چلا جائے۔جب کہ وہ نہ اپنا مذاق اڑوانا چاہتا تھا اور نہ ہی وہ بدہواس پاگل ہی ہوا تھا۔ اس کے حواس اس کے جذبات کا بوجھ اٹھانے سے بار بار معذرت تو کر ہی رہے تھے لیکن ابھی تک وہ غریب اپنے کندھوں پر اس کے شدید جذبات کا جنازہ اٹھائے لئے جا رہے تھے۔ آخر تھکا دینے والا دن اپنے اختتام کو پہنچا ، مجید جلدی سے اپنے گھر کی تنہائیوں میں گم ہو چکا تھا ۔ آج وہ بازار سے گھر آتے وقت شام کا کھانا بھی نہیں لایا تھا کیوں کہ آج اس کے شبِ غم منانے کے لئے اپنے خون کے چراغ جلانے تھے اور اپنے جذبات کے بھانبھڑ پے اشکوں کے فائر بریگیڈ سے چھڑکاؤ کرنا تھا۔ آج اس کے ارادے اس کے وجود کے لئے خطرہ بنتے جا رہے تھے۔ وہ کبھی زہر کا ’پَھکا‘ مار لینے کا سوچتا، کبھی نیند کی گولیوں کا ایک پتا بیک وقت نگل لینے کی بات زیادہ مناسب سمجھتا۔ اس کی زندگی کی کشتی جذبات کے بھنور میں ہچکولے کھا رہی تھی جسے آج شاید کنارہ نہیں مل سکتا تھا۔ اس نے جی بھر کے آنسو بہا لئے اور اس کا درد اور سوز سے بھرا سینہ کسی حد تک قرار پزیر ہو گیا۔ اس نے پچھلے دنوں ایسے بہت سے واقعات سنے تھے جن میں محبت کرنے والوں کی خودکشی یا قتل کئے جانے کی وارداتیں شامل تھیں۔ وہ اپنے آپ کو محبت کے جہنم میں اکیلا نہیں بلکہ بہت سے اپنے جیسے کم نصیبوں کے گروہ کا ایک رکن سمجھ رہا تھا۔

سائرہ کی شادی کا دن بہت تیزی سے پھلانگتا ہوا قریب سے قریب تر ہو رہا تھا۔ مجید کے بس میں ہوتا تو وہ وقت کی گاڑی کہیں روک لیتا۔ لیکن انسان کا وقت پر ذرہ برابر بھی اختیار نہیں۔ وقت اس کے ما تحت نہیں بلکہ اس پر حاکم ہے۔ اور بعض اوقات یہ حاکم مہربان ہو جاتا ہے لیکن اکثر نا مہربان ہی رہتا ہے۔ اس دوران مجید کا ذہن کئی بار خود کُشی کی چٹانوں سے بھی ٹکرا یا تھا، اس نے ایک رات خود کشی کا ارادہ بھی کر لیا تھا لیکن دوسرے خیالوں نے اس کا ہاتھ روک لیا تھا۔ وہ یک طرفہ محبت کی اذیت اٹھا رہاتھا۔ اگر دونوں طرف سے محبت ہو اور دونوں طرف ہی محبت کی اذیت ہو رہی ہو تو یہ معاملہ اکیلے رونے کی نسبت زیادہ بہتر ہے۔ لیکن اس کے دل میں بسنے والی سائرہ کا تو وہم وگمان میں بھی یہ بات کبھی نہ آئی ہو گی کہ کوئی اس کے لئے اپنی جان سے جانے کا بھی سوچ رہا ہے۔ انسان اپنی قسمت کے ہاتھوں اتنا بے بس ہے کہ اپنی جان بھی اپنی مرضی سے ختم نہیں کر سکتا ۔

سائرہ کی شادی کا دن اس کے لئے قیامت خیز جذبات کا دن تھا۔ وہ سائرہ کی شادی میں ، بینک کا گارڈ ہونے کے ناطے، مدعو تھا لیکن اس کی شادی میں جانے کی ہمت نہیں بن رہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے اشکوں کی برسات تھم ہی نہیں رہی تھی۔ اس نے کچھ دن پہلے شادی میں جانے کا ارادہ تو کیا ہوا تھا اور اس کے لئے مناسب تیاری بھی کر لی تھی لیکن شادی کے دن اس کی کیفیت آپے سے باہر ہی ہوتی چلی جا رہی تھی۔ یہ اتوار کا دن تھا ، شام سات بجے بارات کا ٹائم تھا اور جانا بھی کہیں دور نہ تھا لیکن مجید اپنے تصور میں ہی سائرہ کی بارات کے باجوں کی آواز برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔ اس کا حوصلہ اس کے جذبات کا بوجھ اٹھانے سے قاصر تھا۔ اس لئے اس نے آخر کار فیصلہ کیا کہ وہ سائرہ کی شادی میں شرکت نہیں کرے گا کیوں کہ وہ ایسا کر ہی نہیں سکتا۔ اسے خدشہ تھا کہ کہیں وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکنے کے باعث دوسرے کے سامنے اپنے تماشا نہ کر بیٹھے۔ لوگ اس سے پوچھیں کہ اسے کیا ہوا ہے اور وہ کچھ جواب بھی نہ دے سکے۔ اس کی وہ رات اس کی زندگی کی سب سے زیادہ غم میں ڈوبی ہوئی رات تھی۔ ادھر سائرہ اپنی شادی کی خوشیوں سے لطف انداز ہو رہی تھی اور ادھر یہ پروانہ اس کی محبت کی آگ میں جل جل مر رہا تھا۔ اسے اپنی ماں کے مرنے کا بھی اتنا صدمہ نہ ہوا تھا جتنا اس کی محبت کے لُٹ جانے کا ہوا۔ وہ اپنا افسانہ اپنے آپ کے علاوہ کسی کو سنا بھی نہ سکتا تھا۔ اور اپنا افسانہ اپنے آپ کو سنانے سے حاصل کچھ نہ تھا۔ اسے یہ بھی خیال آتا کہ اسے ہارٹ اٹیک بھی ہو سکتا ہے لیکن غم کی شدت کے آگے اسے موت بھی کم تر محسوس ہو رہی تھی۔وہ تو خود اپنے مرنے کی نہ جانے کتنی بار دعائیں یا بد دعائیں بھی مانگ چکا تھا۔ لیکن اس کی کوئی بھی دعاقبولیت کا شرف حاصل نہیں کر پا رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائرہ کی یاد بھلانے کے لئے اس نے بینک کی نوکری سے استعفیٰ دے دیا تھا اور جو تھوڑی بہت جمع پونجی تھی اس نے اس کے ساتھ اپنا ملک چھوڑ کر ترکی چلے جانے کا ارادہ کر لیا۔ تا کہ نئے ماحول میں جا کر وہ اپنی زندگی کے باقی ماندہ دن سکون سے گزار سکے۔

لیکن بد نصیبوں کو کہیں بھی تو سکون میسر نہیں آتا۔مجید کے نصیب میں سکون شاید رکھا ہی نہیں گیا تھا تو اسے ملتا کہاں سے۔ ترکی جا کر بھی اس کی آنکھیں سائرہ کے تصور سے باہر نہ آ سکیں۔ وہ اس کے خوابوں پر بھی قابض ہو چکی تھی۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی ایک فریق کی شادی کی صورت میں دوسرے فریق کی رغبت میں کمی واقع ہو جاتی ہے، جگہ بدلنے سے بھی یہی اثر ہو سکتا ہے ۔ مجید کے لئے ان دونوں چیزوں کا اثر الٹ ہوا۔ اسے اپنا گھر، اپنی ماں اور بہن بھی یاد آتے۔ ماں ،باپ کی قبروں پر وہ ہر جمعہ کو جایا کرتا تھا ، اسے یہ بھی یاد آتا ۔لیکن سائرہ اسے ان سے زیادہ یاد آتی اور ترکی کی سرزمین اس کے لئے پاکستان اور اس کے محلے اور اس کے بینک کی چاردیواری سے زیادہ کھلی ثابت نہ ہو سکی۔ اس کا تخیل ، جیسے کسی نے جادو کر دیا ہو، سائرہ کے گرد ہی گھوم رہا تھا۔ سائرہ ا، اس کے لئے ایک ’ساحرہ‘ بن چکی تھی۔ یہ جادو گرنی ترکی میں بھی اس کی جان نہیں چھوڑ رہی تھی۔ اب اس سے آگے بندہ کیا کر سکتا تھا۔ شاید اس کا مقدر اس سے یہ سب کچھ کروا رہا تھا اور اس نے غالباً اور بھی بہت کچھ کروانا تھا۔

آخر چھ ماہ کا وقت گزر گیا لیکن مجید کی حالت وہی پہلے دن والی ہی رہی۔ وقت کا مرہم بھی اس کے زخموں کو مندمل نہیں کر پا رہا تھا شاید وقت کے ہاں بھی ادویات جعلی ہی بن رہی تھیں۔ مجید کبھی پاکستان واپس آنے کا سوچتا اور کبھی ساری زندگی ترکی کے کسی گوشے میں نوکروں کی طرح کام کرتے ہوئے گزار دینا چاہتا تھا۔

ترکی جا کر اس میں ایک تبدیلی یہ آئی کہ اس میں سائرہ سے رابطہ کرنے کی جرائت پیدا ہو گئی۔ اس نے پاکستان میں موجود اپنے لنکس استعمال کر کے سائرہ اور اس کے بھائی کے فون نمبروں تک رسائی حاصل کر لی۔ اور وہ وہاں سے کبھی کبھی ان کو فون کرنے لگ پڑا۔ جب ان سے تھوڑی بہت بات شروع ہو گئی تو اس نے ایک دن سائرہ کو اپنے دل کی بات کہہ دی جو اسے کئی ماہ پہلے کہنی چایئے تھی جب وہ ابھی کنواری تھی۔ اس نے مجید کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے کہا کہ اب وہ اس کی طرف کسی طرح بھی نہیں آ سکتی وہ چاہے اس سے کتنی ہی محبت کیوں نہ کرتا ہو اور اس کے اپنی محبت کے ہاتھوں کیسے بھی جذبات کیوں نہ ہوں۔ سائرہ کے انکار کے بعد اس نے سائرہ کے بھائی کے آگے بھی اپنے جذبات کا رونا رو دیا لیکن وہ بھی سائرہ کے سے جواب کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ انہوں نے مجید کے لئے کسی قسم کے گھٹیا اور نا پسندیدہ الفاظ بالکل استعمال نہ کیئے شاید وہ مہذب اور تعلیم یافتہ لوگ تھے کہ کسی کو بھی گھٹیا الفاظ سے نہیں پیش آتے تھے۔

مجید کا عشق جمود کا شکار ہونے کے باعث ارتقا کی منازل طے نہیں ک رہا تھا بلکہ جیسے ہنڈیا یا کوئی اور چیز جسے آگ پے رکھ کر ہلایا نہ جائے، وہ ’لگ‘ یعنی جل جاتی ہے اور اپنی شکل بدل لیتی ہے۔ مجید کا عشق اگر کسی آرٹ ، فن، شاعری یا نثر وغیرہ میں ڈھل جاتا تو ارتقاء کی منازل طے کرتا ہوا اپنی معراج کو پہنچ جاتا لیکن چوں کہ وہ سائرہ کے دائرے سے باہر نہ آ پایا تھا اور عشق کی تپش برابر اس کا دماغ جلائے جا رہی تھی تو اب وہ جنون کے صحرا میں مجنوں کا دوست بننے جا رہا تھا ۔ اس جنون میں اس کی کیفیت یہ ہو گئی کہ وہ ہر صورت سائرہ کو حاصل کر کے ہی رہے گا چاہے اس کی جتنی بھی شادیاں ہو چکی ہوں۔ اس کا تقاضا تھا کہ سائرہ اپنے شوہر سے خلع لے اور اس سے شادی کرے۔۔ اس نے یہ الفاظ سائرہ اور اس کے بھائی کو بھی کہہ دیئے تھے جو اس کی اس جنونی حالت کا کچھ نہیں کر سکتے تھے سوائے اس کے وہ مقامی تھانے میں اس کی دھمکی کی شکایت کریں لیکن پولیس والے اس طرح کے معاملات میں اس وقت تک زیادہ دلچسپی نہیں لیتے جب تک کوئی بڑا واقعہ نہ ہو جائے۔ وہ اکثر اس انتظار میں رہتے ہیں کہ پہلے کچھ ہو اور پھر وہ کچھ کریں۔

آخر مجید ایک دن شہر میں واپس آگیا اور سائرہ ، اس کے شوہر اور بھائی سب کو اس کی اطلاع مل گئی۔ لیکن وہ کسی بدنامی سے بچنے کی بھی کوشش کر رہے تھے اور ساتھ ہی مجید کی دھمکیوں کی وجہ سے بھی پریشان تھے۔ سائرہ اپنے سسرال میں اپنے علیحدہ گھر میں رہائش پذیر تھی ۔ اس صورت میں مجید کا خطرہ زیادہ تھا ۔ وہ اپنی ماں کے گھر آ گئی۔ اس کا شوہر بھی اس کے بھائی کے بینک میں کیشئر تھا۔ وہ بھی کسی قسم کا لڑاکا بندہ نہ تھا۔ دوسرے الفاظ میں یہ دونوں گھرانے تعلیم یافتہ تو تھے لیکن لڑنے لڑانے والے نہ تھے۔ ادھر مجید اپنے جذبات کے ہاتھوں کچھ جنونی ہو چکا تھا ۔ اس کا دماغ جتنا پہلے غیر متحرک تھا اب وہ اتنا ہی زیادہ متحرک ہو چکا تھا ۔ اس کو متحرک کرنے کے پیچھے شاید کوئی غیر مرعی طاقت بھی شامل تھی جس کو کسی طرح بھی مورودِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔

مجید نے پتہ کروا لیا کہ سائرہ کہاں ہے۔ موقع پا کر وہ اس کے گھر میں گھس گیا اور ساتھ ہی اس نے اپنا ریوالور نکال لیا۔ وہ جذبات کی ایسی حالت میں تھا جو قابو سے باہر تھی۔ اس کی آنکھیں سرخ اور جسم کانپ رہا تھا ۔ وہ چلا رہا تھا ’سائرہ کو میرے ساتھ بھیج دو، ورنہ میں تم سب کو گولیاں مار دوں گا۔‘ سائرہ کے گھر قیامت برپا تھی۔ اس کی ماں اور بھائی دونوں گھر میں موجود تھے۔ مجید نے سائرہ کی طرف ریوالور تان کر اسے دروازے کی طرف چلنے کا اشارہ کیا۔ وہ سہمی کھڑی رہی۔ اس کا بھائی بھی آخر کار اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی بہن اور پھر پورے خاندان کی یہ رسوائی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ وہ اپنی بہن کے سامنے آ کے کھڑا ہو گیا۔ مجید نے اسے راستے سے ہٹ جانے کا کہا ۔ لیکن وہ ایک مشرقی بھائی تھا کیسے ہٹ سکتا تھا۔ آخر مجید کا جنون اور حاوی ہو گیا اس کا ریوالور چل گیا ۔ اور گولی سیدھی سائرہ کے بھائی کے سینے پے لگی ، ماں اپنے بیٹے کی لاش پر گری مجید کے ہاتھ سے ہونے والا ایک فائر اس ماں کے سر پے لگا اور پھر وہ بھی بے جان ہو گئی، خود مجید کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیاکر رہا ہے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ۔ ریوالور اس کے ہاتھ سے گر پڑا اور پھر وہ خود بھی زمین پے بے ہوش ہوا گرا پڑا تھا۔ فائرنگ کی آواز سن کر محلے دار دوڑے چلے آئے تھے۔ گھر کا صحن خون کی ندی بن چکا تھا ۔ سائرہ اپنی ماں اور بھائی کی لاشوں پر گری پڑی تھی۔ اس کے ہوش وحواس بھی ختم ہو چکے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجید اپنے ہاتھوں سے کئے گئے دوہرے قتل کی سزا کاٹ کے آج رہا ہو رہا تھا۔ لیکن جیل خانے سے باہر اس کا استقبال کرنے والا کوئی نہ تھا ۔اس کی ایک ہی بہن تھی وہ بھی بوڑھی ہو چکی تھی اور اس کی دوہری عمر قید کے دوران بس وہی اس کی اکیلی ملاقاتی رہ گئی تھی باقی سب جاننے والے ان جانے ہو چکے تھے۔ پچھلے سال وہ بھی کرونا کا شکار ہو کر اپنی موت کے گلے مل چکی تھی۔ اب اس کی راہ دیکھنے والا کوئی بھی انسان اس دنیا میں نہ رہ گیا تھا ۔ ہو سکتا ہے اگلی دنیا میں اس کی راہ دیکھی جا رہی ہو ۔ جیل حکام نے اس کی سزا کی تکمیل کی تصدیق کی اور اس کے بری ہونے کی تاریخ اور وقت طے ہو گیا تھا۔ اس کا جیل کا جگری یار، کرمو، بھی اب موجود نہ تھا۔ لیکن باقی کے قیدیوں کو اس سے ہمدردی تھی۔ کچھ قیدیوں سے وہ گلے ملا۔ سب کی آنکھوں میں ہلکے ہلکے آنسو منڈلا رہے تھے۔ سب ہی اس بات پر افسوس کر رہے تھے کہ جیل سے باہر ہوتے ہوئے انسان سے کتنے اایسے مجرمانہ کام ہو جاتے ہیں جن کے باعث ان کی زندگیاں جیل خانوں میں ہی گل سڑ جاتی ہیں۔ وہ آخر کار جیل کے مین گیٹ سے باہر نکلا ، جیل کے دریودیوار کو آخری بار سرسری انداز میں دیکھا ۔ اور پھر تھکے تھکے قدموں سے سڑک کی طرف چل پڑا ۔ اس کے ذہن میں آج بھی اس کا واقعہ گھوم رہا تھا جب اس نے سائرہ کے بھائی اور ماں کو جنونی کیفیت میں قتل کر دیا تھا۔ وہ اپنے خیالوں میں گم سڑک کے آگے اور پیچھے دیکھے بغیر سڑک کو کراس کرنے لگا تھا کہ ایک تیز رفتار موٹر بائیک جسے تین نوجوان بہت تیز رفتاری سے چلا رہے تھے۔ اس کو پیچھے سے آ لگی۔ وہ لڑکے بائیک بھگاتے ہوئے فرار ہو گئے۔ سامنے سے آنے والی ایک تیز رفتار کار بچاؤ کی کوشش کے باوجود اس کے اوپر سے گزر گئی۔ اس کی موت شاید ایسے ہی لکھی تھی!

Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 313037 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More