جج

 اس کا گھر دو کنال پر محیط تھا لیکن وہ اس بڑے گھر میں بالکل اکیلا تھا۔ اس کی عمر ڈھل چکی تھی اوروہ بھی عمر کے ساتھ ڈھل چکا تھا ۔ وہ اپنی زندگی ایک جج کے طور پر گزار چکا تھا لیکن اب وہ خود کسی کے فیصلے کا منتظر تھا ۔اس نے بہت سے لوگوں کی زندگیوں کے فیصلے کئے تھے جن میں سے کچھ میرٹ پر عدل انصاف کے تقاضوں کے مطابق تھے اور کچھ فیصلے دنیا داری کی ترقی اور فلاح وبہبود کے لئے بھی کئے گئے تھے۔ وہ اپنے کیریئر سے مطمئن نہیں تھا لیکن اپنی یہ بے اطمینانی وہ کسی سے شیئر بھی نہیں کر سکتا تھا ۔وہ کسی کو کیا بتا تا کہ اس نے جو غلط فیصلے کئے تھے وہ کیوں اور کیسے کئے تھے ؟ اس کے یہ راز صرف اور صرف اسے اور اس کے اعمال لکھنے والے فرشتوں کے علم میں تھے، باقی خدائی اس سے ناواقف ہی تھی۔اس کے سامنے ایسی خواتین ، بچے اور عمر رسیدہ لوگ بھی آتے تھے جو کہ گنہگار نہ تھے لیکن اس نے ان کے حق میں فیصلے نہیں کئے تھے کیوں کہ مخالف فریق زیادہ طاقتور ہونے کے ساتھ ساتھ مالدار بھی تھے۔

اس کی راتوں کی نیند بھی اُ ڑ چکی تھی۔ وہ راتوں کو اٹھ کر بیٹھ جاتا اور اس کے سامنے عدالت کی کاروائی چلنے لگتی اور وہ اپنے آپ کو کسی اور کی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا محسوس کرتا ۔ اب اس کے گھر میں وہ کوئی بھی نہ تھا جس کے لئے اس نے اپنی عقبا اور دنیا دونوں خراب کر لی تھیں۔

اس کی خوبصورت بیوی، جس کے اشاروں پر وہ سب کچھ کر دیا کرتا ، اس دنیا سے رخصت ہو چکی تھی۔ اس نے دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے اس سے اجازت بھی طلب نہیں کی تھی۔ ایک رات وہ خاموشی سے اگلی دنیا جانے والی ریل گاڑی پے سوار ہو گئی ، اوراگلے دن کی روشنی نے دیکھا کہ وہ اِس دنیا میں نہیں ہے۔ اس کی آدھی دنیا اس بیوی کے ساتھ منسلک تھی جو آن کی آن میں ایک رات کے سناٹے اور اندھیرے میں بغیر کسی شور شرابے اور ہنگا مے کے فنا ہو چکی تھی۔ اس کی بیوی کا اس کی زندگی پر بہت اثر تھا ۔ گھریلو معاملات تو تقریباً مکمل طور پر ا س کی بیوی کے ہاتھ میں تھے اور وہ جو بھی فیصلہ کر دیتی جج صاحب اس کو من وعن قبول کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے تھے کیوں کہ ایک تو وہ بہت خوبصورت تھی اور دوسرا وہ بہت باوقار اور با رعب تھی۔ اس کے رعب کا یہ عالم تھا کہ نہ صر ف جج صاحب بلکہ اس کے خاندان کا ہر فرد اس سے ڈرا ڈرا بلکہ سہما سہماسا رہتا ۔ خاص طور پر جج کے والدین اور بہن بھائی تو اس کے سامنے اُف تک کرنے کی مجال نہ رکھتے تھے۔

اسے وہ وقت اچھی طرح یاد تھا جب اس کی سگی بہن، بیوہ ہوجانے پر، اس کے وسیع وعریض گھر میں رہنے کے لئے آ گئی ۔ اس کے دو چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے :ایک بیٹا اور ایک بیٹی ۔وہ دونوں اس وقت بہت چھوٹے تھے لیکن اب،پڑھ لکھ کر، بڑی پوسٹوں پر فائز ہو چکے تھے۔ لیکن اس کی بیوی کو اس کی بہن کا اس کے گھر رہنا ایک آنکھ نہ بھایا اور اس کے آنے کے چند ہی دنوں بعد اس نے جج کو وارننگ دے دی تھی کہ یا اپنی بہن کو گھر سے نکال باہر کرو یا پھر وہ اپنے میکے چلی جائے گی اور واپس بھی نہیں آئے گی۔ یہ بات سنتے ہی جج کے پاؤں تلے سے زمین پتہ نہیں کہاں نکل گئی تھی اور پھر مجبوراً اسے اپنی بیوہ بہن کو کسی اور مکان میں شفٹ کرنا پڑا جہاں وہ اکیلی اپنے دو معصوم بچوں کے ساتھ خطرات کا مقابلہ کر تے ہوئے کئی سال رہی یہاں تک کہ اس کی اولاد جوان ہو گئی۔ خدا نے ان کو محنت ، ذہانت اور پھر کامیابی سے نوازا تھا اور وہ اچھے عہدوں پر فائز تھے اور اب خوش حال زندگی بسر کر رہے تھے ۔

اس کی اپنی بیٹی جو کہ اتنی ذہین اور محنتی نہیں تھی اور جسے دنیا جہان کی ہر آسائش حاصل تھی کورٹ میرج کر چکی تھی اور اب اس سے نہ صرف جج بلکہ پوری فیملی کا کوئی تعلق واسطہ نہ رہا تھا۔ جج کا بیٹا بھی معمولی قسم کا آوارہ نوجوان نکلاتھا اور برے لڑکوں کی صحبت نے اسے بہت ہی برا بنا دیا تھا ۔ پہلے تو وہ چھوٹے موٹے بُرے واقعات میں ملوث ہوا کرتا تھا جس کی جج کو بہت ندامت ہوا کرتی اور کہیں کہیں اس کی سفارش بھی کام کر دیا کرتی ۔ لیکن آخرِ کار وہ ہیروئن کے نشے کا ایسا شکار ہوا کہ اس نے گھر کی ہر چیز نشے کے نذر کر دی۔ جج ریٹائرمنٹ کی زندگی اپنے بیٹے کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا لیکن اس کا بیٹا اپنا وقت ہیروئن کے نشیئیوں کے ساتھ گزار رہا تھا اور پھر اس کی حالت اتنی خراب ہو گئی کہ اب وہ صرف لائق افسوس ہی رہ گیا تھا ۔ اس کی بحالی کی کوئی کوشش کامیابی کا سہرا اپنے سر سجا نہ سکی تھی۔

اس کی بیوی کو ہارٹ اٹیک اپنے بیٹے کی اس نا گفتہ بہ حالت کے سبب ہی ہوا تھا ۔ جس اولاد کے لئے اس نے اپنی زندگی صرف کر دی تھی وہ اس کے بڑھا پے کا ساتھی بننے کو تیار نہیں تھی۔ بیٹی کا گھر میں آنا جانا ختم ہو چکا تھا اور بیٹا ویسے ہی اپنی موت وقت سے پہلے ہی مر رہا تھا ۔ جج اس بات کا فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ اس کو یہ سزا اس کے کون سے غلط فیصلے کی بنیا د پر مل رہی تھی۔ اس کی نظر کے سامنے کبھی ایک مقدمے کی فائل کھل جاتی تو کبھی دوسرے مقدمے کی فائل اس کا منہ اپنی طرف پھیر لیتی۔

اس کے پاس اس کی بیٹی کا موبائل نمبر توتھا لیکن اس کے دل میں اسے کال یا کوئی میسج کرنی کی خواہش نہ رہی تھی۔ اسے بار بار یاد آتا کہ جب اس کی بیٹی نے نیا نیا موبائل چلانا سیکھا تھا تو وہ ہر وقت اسے میسج کرتی رہتی تھی اور اس کے پیارے پیارے میسج اس کے دن بھر کی تھکن دور کر دیا کرتے تھے۔ اس نے اپنی بیٹی کو ایک مہنگا موبائل اس کی سالگرہ پے بطورِ تحفہ دیا تھا ۔ اس کی شدید خواہش تھی کہ اس کی بیٹی بھی اس کی طرح جج بنے یا پھر وہ ڈاکٹر بن جائے یا پھر کوئی اور گزٹڈ آفیسر کی سیٹ حاصل کر لے۔ لیکن بد قسمتی یا شامتِ اعمال کہ وہ ذہین نہیں تھی یا اس کا ذہن کسی اور طرف راغب ہو گیا تھا اور وہ اکیڈمی میں پڑھنے کے علاوہ اور سرگرمیوں اور معاملات میں پڑ گئی تھی اور وہ اپنے تعلقات میں اتنا آگے بڑھ گئی کہ اس نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ بھی خود ہی کر لیا یا دوسرے الفاظ میں وہ اپنی زندگی کی خود ہی جج بن گئی تھی۔

اس کے بیٹے نے اسے نہ صرف مایوس کیا بلکہ اس کی دنیا ہی اندھیر کر دی۔ اس بیٹے کے لئے تو اتنا بڑا گھر بنوایا گیا تھا ۔ اس کی شاندار عمارت اورخوبصورت لان اس کی جوانی کی چہل قدمی کے لئے تو بنوائے گئے تھے لیکن قسمت نے اسے بد حال لوگوں کا ساتھی بنا دیا اور اس نے اپنی زندگی کی ہر خوشی اور اپنے باپ کی ہر تمنا سگرٹ کے دھویں میں اڑا دی ۔

اسی اولاد کے لئے اس نے اور اس کی بیوی نے اپنے رشتہ داروں سے بھی تعلقات خراب کئے تھے۔ اب اس کے رشتہ داروں کو اس کی کوئی ضرورت نہ تھی ۔ وہ سب کے سب خوش حال ہو چکے تھے اور وہ جو کبھی اپنے خاندان کا سردار ہوا کرتا تھا اب اس کے پیروں جیسا بھی نہ رہا تھا ۔ اس کے اپنے بہن بھائی تو دنیا سے جا چکے تھے اور جو اس کے بھانجے اور بھتیجے تھے، ان کے ساتھ اس کا ناروا سلوک کسی سے ڈھکا چھپا نہ تھا ۔اس لئے اب وہ ان کو اپنی مدد کے لئے آواز نہیں دے سکتا تھا ۔

اس کی سوچیں ایک ایسے سمندر کی طرح تھیں جس میں تلاطم تو اٹھتا ہے لیکن اس کی کوئی آواز پیدا نہیں ہوتی۔ اس کے سر سبز لان کے کناروں پر لگے درختوں پرپرندے چہچہاتے تو اسے یوں لگتا جیسے وہ اسی کے متعلق باتیں کر رہے ہوں، اس پر تبصرہ کرتے رہے ہوں اس کی زندگی کی بے معنویت پر افسوس کررہے ہوں اور پھر ’جج ! جج! جج !‘ کہتے ہوئے اڑ جاتے ہوں۔ اسے ان پرندوں کو دیکھ کر یوں لگتا جیسے اس کی حیثیت ان سے کہیں پست ہے۔ وہ ہواؤں میں اڑنے والے ہیں اور وہ ہمیشہ زمین پر ہی رینگتا رہا ہے ۔ لیکن پرندوں نے اپنی ہستی کو کبھی پستی کا نشان نہیں بننے دیا تھا۔ وہ پرندے اس کے لان میں روزانہ آیا کرتے اور اب وہ پرندے ہی تھے جن سے اس کا دل بہلتا تھا ۔ اس نے ان پرندوں کے دانے دنکے کا بندوبست کیا ہوا تھا ۔ پرندوں کو بھی معلوم تھا کہ اس لان میں ’جج‘ اکیلا ہی رہتا ہے۔ شاید وہ اس جج سے اپنے زیادہ خو بصورت ہونے کا فیصلہ کروانے آتے۔ فیصلے کا لفظ ذہن میں آتے ہی جج کے چہرے پر ایک مایوسانہ سی مسکراہٹ پھیل جاتی اور اس کے منہ سے لفظ ’ فیصلہ‘! نہ جانے کیوں نکل جاتا ۔ شاید وہ اس نتیجے پے پہنچ چکا تھا کہ اصل فیصلے وہ نہیں جو عدالتوں میں ہوتے ہیں بلکہ اصل فیصلے وہ ہیں جو آسمانوں پے ہوتے ہیں ۔ اس بات سے کسی اور کو اختلاف ہو سکتا تھا لیکن جج کو اس بات سے کوئی اختلاف نہیں رہا تھا ۔ وہ اب یہ بات سرِ عام ماننے کو تیار تھا کہ عدالتوں کے فیصلے حتمی نہیں ، حتمی فیصلے تو اوپر سے آتے ہیں۔

اس کا دل چاہتا تھا کہ اپنے والدین کی قبر وں پر جا کے اُن سے معافی مانگے، ان کی قبر وں پر جا کے خوب روئے ۔ شاید اس کا دل ہلکا ہو جائے اور اسے سکون مل سکے۔ لیکن جب وہ ان کی قبروں پر جاتا، اسے رونا بالکل نہ آتا۔ اسے ایسے لگتا جیسے کوئی اس کا ہاتھ پکڑ کر واپس چلے جانے کا کہہ رہا ہو ۔اسے قبرستان میں خوف محسوس ہونے لگتا اور وہ جلدی جلدی گھر واپس آ جاتا ۔

وہ اپنے خاندان میں پہلا شخص تھا جو اپنی محنت، لیاقت اور خوش نصیبی سے جج کے عہدے پر پہنچ سکا ۔اس کا سارا خاندان متوسط طبقے سے تھا لیکن چند ایک رشتہ دار تجارت سے منسلک ہونے کی وجہ سے مالدار سمجھے جاتے تھے۔ اس کا والد ایک چھوٹا سا پرچون فروش دکاندار تھا اور اس کا بڑا بھائی بھی اس دکان میں اپنے والد کا ہاتھ بٹاتا تھا اور یوں خاندان کی روزی روٹی چلتی تھی۔ اس کا بچپن ہی سے خیال تھا ،جو آہستہ آہستہ عزمِ صمیم میں بدل گیا ،کہ وہ ضرور اپنے خاندان کا سہارا بنے گا اور اپنے خاندان کے لوگوں کی قسمت سنوارے گا۔ اس کی محنت رنگ لائی اور وہ سول جج کے امتحان میں کامیاب قرار پایا۔ اس کی کامیابی اس کے خاندان کے لئے عید کے چاند کی خوشی سے کہیں زیادہ تھی۔

اس کے ماں باپ کو اس کی کامیابی کی زندگی سے زیادہ حصہ نہیں ملا تھا اور وہ کچھ عرصے بعد اس دارِ فانی سے ملکِ عدم کے راہی بن گئے ۔ ان کی موت اگرچہ سکون کے سانسوں میں ہوئی لیکن اس کو بہت کلک رہا کہ کاش وہ اپنے ماں باپ کو حج کی سعادت حاصل کرنے بھیج سکتا۔ اگرچہ اس نے ان کے خرچے کا بندوبست کر لیا تھا لیکن قسمت کو جج کا یہ فیصلہ منظور نہ تھا ۔ وہ یکے بعد دیگرے اس جہان کو الوداع کہتے ہوئے پر سکون طور پر اگلی دنیا میں منتقل ہو گئے۔

ماں باپ کی خدمت کرنے کا سکون حاصل کرنے اور ان کے حج نہ کر سکنے کی حسرت اس بات کی طرف ڈھل گئی کہ اب وہ اپنے بڑے بھائی کو حج ادا کرنے کے لئے بھیجے ۔ جس میں وہ کامیاب ہوا لیکن بھائی کے اور مسائل بھی تھے جن کے حل کے لئے وہ بہت زیادہ مفید ثابت نہ ہوسکتا تھا کیوں کہ اب اس کی اپنی فیملی بھی اپنے تقاضے پیش کر رہی تھی۔

اس کے بچپن اور لڑکپن کے بہت سے دوست تھے ۔ جن میں سے کچھ اﷲ کو پیارے ہو چکے تھے لیکن کچھ اب بھی زندگی کی قید کاٹ رہے تھے۔ ان دوستوں سے آہستہ آہستہ دوری ہوتی گئی تھی۔ اس کی تعلیم نے اسے بہت سے دوستوں سے دور کر دیا تھا اور پھر جب اسے جج کا عہدہ ملا تو اس کے تمام دوست ایک ایک کر کے اجنبی ہوتے گئے۔ اسے دوستوں کے فون آتے لیکن وہ اٹنڈ نہ کرتا اور جب کبھی کوئی دوست ملنے آتا تو اسے مناسب طور پر نہ ملتا۔ وہ سمجھتے کہ اب وہ، وہ نہیں رہا بلکہ عہدے نے اسے بدل دیا ہے۔ اس رویئے کے پیچھے اس کی پیشہ ورانہ مجبوری بھی تھی اور کچھ انسانی نفسیات کہ انسان اپنے دوست، اپنے سماجی معیار کے مطابق ہی رکھنا چاہتا ہے۔ اونچے عہدے والا پست سماجی درجے کے دوستوں سے منہ موڑ لیتا ہے اور اپنے عہدے کے مطابق نئی دوستی استوار کر لیتا ہے۔ایساتقریباً ہر انسان کرتا ہے۔ بہت ہی کم لوگ اس سے برعکس رویہ اپنا تے ہیں ۔اس کا ایک قریبی بے تکلف دوست اس کی گلی کے آخری مکان میں رہتا تھا جس کے ساتھ اس کی بہت سی یادیں بھی وابستہ تھیں، لیکن وہ بھی اب اس سے دلی طور پر کوسوں دور جا چکا تھا ۔

اس کی پینشن بھی کافی تھی، اور ویسے بھی اس کے بینک اکاؤنٹ میں لاکھوں نہیں، کروڑوں روپے پڑے اس کے چیک کے آنے کا انتظار کرتے رہتے تھے۔ بچپن میں ان کے گھر میں ایک ایک روپے کی قدر تھی اور اس کا حساب لیا اور دیا جاتا تھا۔ اس وقت دولت اس کا خواب تھی۔ اب وہ خواب تو پورا ہو چکا تھا لیکن اب اس کی آنکھیں نیند سے محروم ہو چکی تھیں۔ وہ اکثر سوچتا کہ وہ زمانہ، اس زمانے سے کہیں زیادہ بہتر تھا۔ اس کی آنکھوں میں دولت کے خواب تھے اور گہری نیند بھی تھی۔ وہ خوب جی بھر کے سویا کرتا تھا ۔ لیکن اب اس کے خواب تو پورے ہو چکے تھے لیکن نیند اس کی آنکھوں سے روٹھ چکی تھی۔

اس کا بچپن ایک چھوٹے سے تنگ وتاریک مکان کے کسی کونے میں گم ہو چکا تھا۔ وہ امیر لوگوں کے بڑے بڑے عالی شان مکان دیکھ کر حسرت میں مبتلا ہو جایا کرتا کہ کاش ان کا بھی ایک بڑا سارا گھر ہو، جس میں ایک سبزہ زار ہو، درخت، پودے اور گھاس ہو۔ ایسا گھر کس کی خواہش نہیں ہوتی، اور کون ایسے گھر کی تمنا نہیں کرتا۔اس نے انتھک محنت سے ایسا مکان خرید لیا تھا۔ اس کے بیوی بچے خوش نصیب تھے جو اس گھر میں کئی سال رہے لیکن وہ اُن جتنا خوش نصیب نہ تھا کیوں کہ جب اس کے اس گھر میں رہنے کے دن آئے تو اس کی بیوی اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئی اور پھر اس کی پیاری بیٹی نے اپنی پسند کی شادی اپنے ماں باپ کو اعتماد میں لئے بغیر ہی کر لی اور اس کا بیٹا ہیروئن کا شکار ہو کر بے کار ہو گیا ۔ اور جج اس گھر کا اکیلا اور تنہا فرد بن کر رہ گیا۔

اس نے اپنے کمرے میں اپنے ماں باپ کی تصاویر سجا رکھی تھیں لیکن ان تصاویر سے اس کی ذہنی کیفیت مزید اضطراب کا شکار ہو جاتی اور وہ ان تصویروں سے باتیں کرتا کرتا جذباتی انداز میں اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پیٹنے لگتا۔ ایسا کرنے سے اس کا سر چکرا جاتا۔ اور کبھی کبھی اسے ڈر محسوس ہوتا کہ کہیں وہ پاگل ہی نہ ہو جائے۔ وہ کہیں اپنی گردن ہی نہ دبا لے۔ اپنے جسم پر کوئی چاقو یا بلیڈ نہ پھیر لے۔ اس گھر میں اس پر نظر رکھنے والا یا اسے اپنے آپ سے بچانے والا کوئی نہ تھا۔ اس کا ایک پرانا ملازم تھا ۔ لیکن شومئی قسمت کہ بڑہاپے کے باعث اس کی طبیعت بھی خراب رہنے لگی تھی؛ اور وہ بھی کام چھوڑ کر جا چکا تھا اور کوئی نیا ملازم اس کی جگہ آنے کو تیار نہ تھا ۔ جب قسمت خراب ہو جائے تو ملازم بھی نہیں ملا کرتے چاہے ساری دنیا بے روزگارہی پھر رہی ہو۔

جج کی زندگی جو کہ فیصلوں سے عبارت تھی کسی اور کے فیصلے کا شکار ہو چکی تھی۔ اسے اپنی زندگی کے اس انجام سے دوسروں کی زندگیوں پر اس کے کئے گئے غلط فیصلوں کے برے اثرات کی بد بو محسوس ہو رہی تھی۔ یہ بد بو اس کے جسم اور گھر کی چاردیواری سے مسلسل آیا کرتی۔ اس زندگی کے افسوس ناک انجام کے بعد اگلے جہان کی زندگی جس پر اسے یقین تو تھا لیکن فیصلے کرتے وقت دنیا کی زیب وزیبائش اس کا دھیان اپنی طرف لگا لیا کرتی ۔ لیکن اب جب اس کے پاس زندگی میں نئے سرے سے کرنے والا کوئی کام نہ بچا تھا، وہ صرف کفِ افسوس مَل سکتا تھا ۔ وہ دنیا کے سراب کے پیچھے ہی بھاگتا رہا اور دنیا کی دولت اس کے ہاتھ نہ آ سکی۔ دنیا کا مال ، دنیا نے واپس لے لیا تھا اور وہ اپنے سر پر گناہوں کی ’پَنڈ‘ اٹھائے اگلی دنیا کا راہی بننے والا تھا۔اسے لازمی طور پر اگلی دنیا کے جج کے فیصلے کا انتظار تھا کہ وہ اس کے سنائے گئے فیصلوں پر کیا فیصلہ سناتا ہے۔۔ ۔ اب وہ خود جج نہیں بلکہ مجرم تھا اور جج صاحب کی پُروقار کرسی پر کوئی اور بیٹھا ہوا تھا !
 

Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 313066 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More