میاں بھلکڑ کی شامت آئی
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
تحریر: ذوالفقار علی بخاری
”یوسف میاں!آپ اس نوکری کے لئے مناسب امیدوار لگ رہے ہیں؟“۔ کمپنی مالک نے اپنے سامنے بیٹھے میاں بھلکڑ سے کہا۔
”جی جناب!ہمیں ہوائی جہاز کے سواء باقی سب چلانا آتا ہے یہی دیکھ لیجئے زبان کتنی تیز ہے“۔ میاں بھلکڑ نے مسکراتے ہوئے بات کہی تو کمپنی مالک مسکرا دیے۔
”ٹھیک ہے یوسف میاں!کل سے نوکری پر آجائیے گا؟“۔ کمپنی مالک نے میاں بھلکڑ کی ملازمت کی درخواست کے کوائف کو ایک بار پھر کڑی نگاہ سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”جناب!ہمارا کام کیا ہوگا؟“۔ میاں بھلکڑ نے یہ سوچے سمجھے بنا ء کہ وہ نوکری کا اشتہار پڑھ کر ہی اس ملازمت کے لئے آئے ہیں انہوں نے سوال کیا تو کمپنی مالک نے ناگواری سے کہا۔
”آپ کو دستاویزات یا اشیاء کے پارسل متعلقہ افراد کو دینے ہیں جن کے نام بھیجوائے جاتے ہیں۔یہی اشتہار میں بھی لکھا ہے“۔ ”اوہو!جناب ہمیں بھولنے کی عادت ہے یاد نہیں رہا، ہم تقسیم کرنے کا کام بہت شوق سے کرتے ہیں اکثر لنگر بھی تقسیم کرتے رہے ہیں“۔ میاں بھلکڑ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا تو کمپنی مالک نے باہر جانے کا اشارہ کر دیا۔
میاں بھلکڑ کو اُن کے اشارے سے بچپن کی ایک پرانی بات یاد آگئی۔
میاں بھلکڑ بچپن میں ہاتھ کے اشارے سے اکثر جہاز بنایا کرتے تھے۔ایک دن ان سے کسی نے پوچھا تھا کہ بھئی یہ جہاز سے بم کیسے گراتے ہیں۔ انہوں نے ڈنکے کی چوٹ پر یہ بات کہہ کر سو روپے کی رس ملائی کھائی تھی کہ جہاز کی دم پر جو ایک سوراخ ہوتا ہے اُس پر بم رکھ کر اُسے شیشم کی لکڑی سے دھکا دیتے ہیں تو وہ نیچے گر جاتا ہے، اُس کے بعد جب اُس شخص کو حقیقت معلوم ہوئی تو دس دنوں تک میاں بھلکڑ گھر سے باہر نہیں نکلے تھے۔ وہ اسی واقعے کو یاد کرتے ہوئے کمرے سے باہر نکلے تو فرش پر پہلاقدم یوں رکھا کہ زمین بوس ہونے کو تھے کہ ایک شخص نے ا ن کوتھام لیا۔
اسی وقت میاں بھلکڑ کی حس ظرافت پھڑکی۔”اللہ تم کو سپروائز بنائے“۔ ابھی ان کی بات مکمل ہوئی تھی کہ وہ شخص بو ل اُٹھا:
”توبہ کرو بھئی، میں اسسٹنٹ منیجر ہوں“۔ میاں بھلکڑ نے فورا وہاں سے دوڑ لگائی کہ کہیں مزید سبکی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اگلے روزمیاں بھلکڑ خوب تیاری کرکے گھر سے نکلے، دفتر سے پارسل وصول کیے اورتقسیم کرنے نکل پڑے۔
”ہاں بھئی!تم جانتی ہو کہ یہاں پر فرہاد بخاری نامی لکھاری جانتا ہے؟“۔ گلی میں ایک ناک بہتی بچی سے میاں بھلکڑ نے پوچھا۔
”وہ انکل جی! میں تو سب جانتی ہوں یہاں ماسی سکینہ رہتی ہیں،و ہاں خالہ مہوش کا گھر ہے، وہ جو چوبارہ نظر آرہا ہے وہاں میری سہیلی انار کلی رہتی ہے“۔
بچی نے مسکراتے ہوئے کہا تو میاں بھلکڑ اُس کی ناک کو دیکھتے ہوئے اپنی ناک کو بار بار پکڑ کر صاف کرنے لگے اورپھر ایک دم کہنے لگے۔ ”واقعی تم سب کو جانتی ہو؟“۔
”یہ پارسل ہ فرہاد بخاری صاحب کو تم پہنچا سکتی ہو کہ تم سب کو جانتی ہو؟“۔ میاں بھلکڑ نے ایک بڑا سا پارسل جس کاوزن دو کلو کے لگ بھگ تھا اُس بچی کو تھاما کراگلے پارسل کو منزل مقصود تک پہنچانے کے لئے روانہ ہو گئے۔
دفتری وقت ختم ہونے سے قبل وہ گھرروانہ ہونے کو تھے جب ایک فون کال آئی۔ فون کرنے والے نے جب اپنے پارسل کا پوچھا تو میاں بھلکڑ کا جواب تھا کہ وہ تو دیا جا چکا ہے۔اُن صاحب نے کہا کہ ابھی تک وصول نہیں ہوا ہے۔
میاں بھلکڑ نے ان کو آگاہ کیا کہ بھئی دیا چکا ہے تاہم وہ انکاری تھے کہ وصول نہیں ہوا ہے۔میاں بھلکڑ فوری طور پر متعلقہ پتے پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ جس لڑکی کو پارسل دیا ہے اس حلیے کی کوئی بچی کسی گھر میں نہیں ہے۔ ایک ایک کرکے سب گھروں کے دروازے بجائے تو ایک گھر سے یہ انکشاف ہوا کہ جس بچی کی وہ بات کر رہے ہیں وہ تو مہمان تھی وہ واپس ننھیالی شہر جا چکی ہے۔
میاں بھلکڑ کے سر پر طوفان منڈلا رہا تھا کہ جس شخص کا پارسل گم ہوا تھا وہ نوکری سے برخاستگی کی دھمکی دے رہا تھا۔آخر کار جس گھر میں بچی آئی تھی اُن کے سربراہ نے اُس سے ٹیلفونک رابطہ کرکے معلومات حاصل کیں تو معلوم یہ ہوا کہ وہ پارسل تو گھر کی چھت پر رکھ کر بھول گئی تھی اورکسی بڑے کو بتانا بھی یاد نہیں رہا تھا۔
پارسل مل چکا تھا، میاں بھلکڑ نے پارسل مذکورہ شخص کو دے کر اپنی جان چھڑوالی تھی۔ اُس دن اُن کو احساس ہوا تھا کہ انٹرویو والے دن کمپنی مالک نے یہ تلقین کی تھی کہ جس کا پارسل ہوگا اُسی کو ہی ملے گا۔وہ یہ بات بھول گئے تھے اسی وجہ سے اُن کے ساتھ یہ اندوہناک واقعہ پیش آیا تھا۔ ۔ختم شد۔
(یہ کہانی ماہ نامہ جگنو کے مارچ ٢٠٢٢ کے شمارے میں شائع ہوئی) |