انتخاب آپ کے ہاتھ میں ہے

آپ بے شک دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں، آپ انسانوں کی اکثریت کو افسوس میں مبتلا پائیں گے۔ کسی کو رشتے چھوٹ جانے کا افسوس ہے، کسی کو تعلیم پہ محنت نہ کرنے پر افسوس ہے، کسی کو اپنی کہی ہوئی باتوں پر افسوس ہے اور کسی کو قیمتی وقت ضائع کرنے پر افسوس ہے۔ ہر شخص دور اندر پشیمان اور نادم ہے۔

آپ بے شک دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں، آپ انسانوں کی اکثریت کو افسوس میں مبتلا پائیں گے۔ کسی کو رشتے چھوٹ جانے کا افسوس ہے، کسی کو تعلیم پہ محنت نہ کرنے پر افسوس ہے، کسی کو اپنی کہی ہوئی باتوں پر افسوس ہے اور کسی کو قیمتی وقت ضائع کرنے پر افسوس ہے۔ ہر شخص دور اندر پشیمان اور نادم ہے۔ اس سارے افسوس اور احساسِ ندامت میں اکثر لوگ ایک اہم پہلو پہ کبھی غور ہی نہیں کرتے کہ آخر ایسا کیا ہے جو ہمیں اس ندامت کی دلدل میں دھنساتا چلا گیا؟ ہمیں اندازہ بھی نہ ہوا اور رشتے چھوٹ گئے؟ ہمیں معلوم ہی نہ ہوا اور تعلیم کے سارے مواقع ہاتھ سے نکل گئے؟ ہم جان ہی نہ سکے کہ کب وقت ہاتھ سے پھسل گیا اور ہم تہی دامن رہ گئے؟ ان تمام تر سوالات کا صرف ایک ہی جواب ہے۔ یہ سب اس انتخاب کے سبب سے ہے جو آپ نے اس وقت کیا۔ یہ آپ کا انتخاب ہے جس نے آپ کو وہ سب بنا دیا جو آپ آج ہیں۔

دنیا میں بے شمار مثالیں ایسی ہیں جو اسی اہم پہلو کو ظاہر کرتی ہیں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ حضرت یوسف ؑ کا واقعہ بیان کرتے ہیں۔ جب عزیزِ مصر کی بیوی نے انہیں ورغلانا چاہا تو آپ ؑ کے پاس اختیار تھا کہ آپ اس عورت کی بات مان لیں یا اپنی عزت کی حفاظت کریں۔ حضرت یوسف ؑ ایک غیر ملک میں تھے اور غلام تھے۔ غلاموں کو بدکاری کی سزا آزاد انسانوں سے کم ہی ملتی تھی۔ مگر اس کے باوجود حضرت یوسف ؑ نے اپنی عزت کا انتخاب کیا۔ بعد ازاں جب وہ قید میں تھے اور عزیزِ مصر نے خواب کی تعبیر بتانے کے باعث انہیں بلوایا تو آپ ؑ نے پہلے ان عورتوں کا پوچھا۔ وجہ یہی تھی کہ آپ ؑ اپنی عزت محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔ اس موقع پر بھی حضرت یوسف ؑ کے پاس اختیار تھا۔ وہ چاہتے تو فوراً عزیزِ مصر کے پاس چلے جاتے مگر انہوں نے پہلے اپنے کردار پہ لگے غلط الزام سے خود کو بری کرایا۔ انہوں نے یہ انتخاب کر کے خود کو دنیا کا سب سے کریم انسان بنا دیا جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابو حریرہ سے مروی ہے۔ اس حدیث میں بیان ہے کہ آپ ﷺ نے یوسف ؑ کو لوگوں میں سب سے زیادہ کریم قرار دیا۔

اسی طرح حضرت ابراہیم ؑ کی مثال روزِ روشن کی طرح واضح ہے۔ جب ان کے والد نے ان کی مخالفت کی تو آپ ؑ کے پاس اختیار تھا۔ آپ ؑ چاہتے تو خاندان کی خوشی کے لیے اپنے اس مطالبے سے دست بردار ہو جاتے کہ ان کی قوم بتوں کی پرستش ترک کر دے جیسا کہ عام رواج پایا جاتا ہے کہ فیملی اسٹینڈرڈز اور دوستوں کے معیارات پر پورا اترنے کے لیے لوگ معلوم نہیں کیا کچھ ترک کر دیتے ہیں۔ لیکن حضرت ابراہیم ؑ نے ایسا نہیں کیا۔ وہ لوگوں کی تحقیر سے بچنے کے لیے آسان راستے کا انتخاب کر سکتے تھے مگر انہوں نے عارضی عزت کی قربانی دے کر دائمی عزت کا انتخاب کیا۔ انہوں نے دعا کی کہ اللہ میرے لیے میرے بعد آنے والوں میں لسانِ صدق یعنی سچی نیک نامی بنائیے۔ اللہ نے اربوں کھربوں انسان ایسے پیدا کر دیے جو ان کی عزت کرتے ہیں۔ آج تین بڑے ادیان یہودی، عیسائی اور مسلمان اس بات پہ جھگڑتے ہیں کہ ابراہیم ؑ ہمارے ہیں۔ اللہ نے انہیں قلبِ سلیم عطا کیا اور ان کے لیے آگ کو گلزار بنا دیا۔ حضرت یوسف ؑ اور حضرت ابراہیم ؑ بے شک پیغمبر تھے لیکن اللہ نے ان کے واقعات قرآن میں اسی لیے بیان فرماۓ ہیں تاکہ ہم عام انسان ان کی زندگیوں سے سبق حاصل کر کے خود کو مضبوط شخصیت کا حامل فرد بنا سکیں۔

پیغمبروں کے بہترین فیصلوں سے سیکھنے کے بعد اب ایران کے ایک بادشاہ سے سبق لیتے ہیں جسے ایک نجومی نے خبر دی کہ چند سال بعد ایران میں اس سلطنت کا خاتمہ ہو جاۓ گا۔ اس بادشاہ کے پاس کئی اختیارات تھے۔ وہ چاہتا تو اس وقت کو بہتر انداز سے گزارتا اور چاہتا تو ایسا کچھ کر جاتا جس سے سلطنت کے وسیع ہونے کے امکانات پیدا ہو جاتے۔ مگر اس نے ایک انوکھا انتخاب کیا۔ اس نے ریاست کی ساری گھڑیوں کا وقت تین سو سال پیچھے لے جانے کا حکم جاری کر دیا۔ بادشاہ کے حکم پہ ایسا کر دیا گیا مگر انجام کیا ہوا؟ چند سال بعد وہ سلطنت واقعی اپنا وجود کھو بیٹھی اور کوئی پیچھے کی ہوئی گھڑی اس سلطنت کی بقا کے لیے کچھ نہ کر سکی۔ وقت گزر گیا اور یہ انتخاب ایک بڑی ناکامی کے سوا کچھ ثابت نہ ہوا کیوں کہ وقت کو پیچھے لے جا کر اسے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرنا کوئی معقول فیصلہ نہ تھا۔
زندگی میں یہ ضروری ہے کہ اگر انجام اچھا چاہتے ہیں تو انتخاب اچھا کریں۔ یاد رکھیے، جب منزل آ جاتی ہے تو سفر ختم ہو جاتا ہے۔ انتخاب منزل آنے کے بعد نہیں کیا جاتا۔ منزل آنے کے بعد صرف نتائج بھگتے جاتے ہیں۔ اچھا انتخاب ہو گا تو نتیجہ بھی اچھا ہو گا۔ برا انتخاب ہو گا تو انجام بھی تکلیف دہ ہی ہو گا۔ انتخاب آپ کے ہاتھ میں ہے، اپنے انتخاب کو درست کریں۔ قیمتی وقت ضائع نہ کریں، رشتہ داروں کو ان کا حق دیں، لوگوں سے بھلی بات کہیں، زندگی کے ہر شعبے میں محنت کریں، بروقت سوچ سمجھ کر درست فیصلے کریں اور اپنے کیے ہوۓ غلط فیصلوں پر صرف افسوس کرنے کے بجاۓ ان سے سبق بھی حاصل کریں تاکہ ایک اچھا اور اطمینان بخش انجام آپ کا مقدر بنے۔

 

Unaiza Ghazali
About the Author: Unaiza Ghazali Read More Articles by Unaiza Ghazali: 12 Articles with 7732 views Studying at university of Karachi, teaching Tajweed and various subjects, contributing in social work projects and living with the passion of writing .. View More