بہتر روزگار کی تلاش اور زائد آمدنی کے حصول کی خاطر دیار
مغرب کا رخ کرنے والے ایک صاحب نے دس سال تک عرب امارات میں محنت مزدوری کی
اس عرصے کے دوران ماں باپ کو گھر بنا کر دیا تین چھوٹے بہن بھائیوں کی شادی
کی پھر امریکہ آ گئے امیگرنٹ ویزے پر ۔ مگر اپنی امریکہ روانگی سے صرف چار
روز پہلے ، جہاں ان کے رشتے کی بات چیت چل رہی تھی انہوں نے لڑکی والوں کو
ان کی بیٹی کے مستقبل کے بارے میں سبز نیلے پیلے باغ دکھا کر انہیں فوری
نکاح بلکہ رخصتی پر بھی آمادہ کر لیا تاکہ اس کے ویزے وغیرہ کی کارروائی
بلاتاخیر عمل میں لائی جا سکے ۔ اور اسی رات باقاعدہ بارات لے جا کر بہت
دھوم دھام سے دلہن بیاہ لائے اور اگلے روز شاندار ولیمہ کیا ۔ پھر جو کام
بیس مہینوں کا بھی نہیں تھا اس میں بیس سال لگا دیئے ۔ اس عرصے کے دوران
باقی کے بہن بھائیوں کی شادیاں کیں نئے مکان کی تعمیر کی مد میں بینک سے
لیا گیا لاکھوں روپے کا قرض ادا کیا ۔ کبھی کبھار دو چار سالوں بعد پاکستان
کا چکر بھی لگا لیتے تھے چاہتے تو پورا خاندان امریکہ میں اکٹھا کر سکتے
تھے مگر اس کے لئے ضروری تھا کہ ان پر سے مشترکہ گھرانے کے اندھا دھند
اخراجات کا بوجھ ہلکا کیا جاتا تاکہ وہ تمام اہلخانہ کی کاغذی کارروائی کی
بھاری فیسیں ادا کر سکتے ۔ مگر کسی کو یہاں آنے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ان
کو صرف با قاعدگی سے موصول ہونے والے زر مبادلہ سے سروکار تھا اور اس میں
کوئی تعطل گوارا نہیں تھا ۔ اس انتہائی خودغرضانہ اور غیر دانشمندانہ رویئے
کا سب سے بڑا نشانہ ان کی بیوی بنی اور برسہا برس بعد پیدا ہونے والے بچے
بھی ، جنہوں نے اپنے اتنے کماؤ اور محنتی باپ کے جیتے جی یتیمی کا مزہ چکھا
۔
زندگی کے بہت سارے قیمتی اور سنہرے سال اور پوری جوانی گنوا دینے کے بعد جب
انہوں نے اپنی فیملی کو پاس بلانے کی ٹھان لی تو بچوں کا پروسیس صرف دو
مہینوں اور بیوی کا آٹھ مہینے میں مکمل ہو گیا اور نواں مہینہ پورا ہونے سے
پہلے وہ سب ان کے پاس پہنچ گئے اور اس ملاقات کے درمیان تقریباً چار برسوں
کا فاصلہ حائل تھا مگر امتحان ختم نہیں ہؤا ۔ ان پر مشترکہ گھرانے اور
بیاہتا بہن بھائیوں کی مالی کفالت کا ذمہ بدستور لادے رکھا گیا ۔ جسے پورا
کرنے کے لئے وہ جاب کے علاوہ پارٹ ٹائم بھی کام کرنے لگے ۔ ہائی بلڈ پریشر
کے مریض تو پہلے ہی ہو چکے تھے اب شوگر بھی ہو گئی ۔ عقل تو اسی روز خبط ہو
گئی تھی جب وہ اپنے حالات کو سدھارنے کے لئے پردیس کو سدھارے تھے ۔ پھر یکے
بعد دیگرے والدین کا انتقال ہؤا جن کی علالت کے دوران بھی وہ اس لئے وطن
نہیں جا سکے تھے کہ ان کے علاج کے لئے جو رقوم درکار ہوتی تھیں وہ فراہم
کرنے کے بعد ان کے پلے کچھ بچتا ہی نہیں تھا الٹا مقروض ہوئے ۔
پھر حسب دستور حسب روایت وہی ہؤا جو ہوتا چلا آیا ہے مکان کی فروخت کا
مسئلہ اٹھا سب کو اپنا اپنا حصہ درکار تھا وہ سب نے وصول کر لیا انہیں ہر
قطار و شمار سے باہر نکال کر ۔ آپ یقین کریں یا نہ کریں انہیں ایک پھوٹی
کوڑی بھی نہیں ملی ۔ یہاں باتیں تو بہت ساری نا قابل یقین اور غیر منطقی
ہیں بہت سے تیکنیکی سوال اٹھتے ہیں مگر مشاہدہ یہی بتاتا ہے کہ زیریں و
متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا ہر مشرقی نوجوان جو اپنے گھرانے کی خوشحالی
و مالی آسودگی کا خواب آنکھوں میں لیے پردیسوں کی خاک چھانتا ہے اجنبی سر
زمینوں پر اپنا خون پسینہ ایک کرتا ہے تو ادھر سب خون کے رشتے اپنا اپنا
مطلب پورا ہو جانے کے بعد آنکھیں پھیر لیتے ہیں اور ہر ، اپنوں کی محبت میں
اندھا پردیسی کسی گلے شکوے کے جواب میں یہ قومی طعنہ ضرور سنتا ہے کہ تم نے
ہمارے لئے کیا ہی کیا ہے؟ اور اس کے ساتھ ہی اس کی آنکھیں کھل جاتی ہیں مگر
تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے ۔ عمر اور صحت کی پونجی گنوا دینے کے بعد عقل
آئی بھی تو وہ اب کس کام کی؟ |