#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ حٰمٓ السجدة ، اٰیت 37
تا 40 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
من اٰیٰته
الیل و النھار
والشمس والقمر
لاتسجدوا للشمس ولا
للقمر والسجدوا لله الذی
خلقھن ان کنتم ایاه تعبدون 37
فان استکبروا فالذی عند ربک یسبحون
لهٗ بالیل والنھار وھم لایسئمون 38 ومن اٰیٰتهٖ
انک تری الارض خاشعا فاذا انزلنا علیھا الماء اھتزت
وربت ان الذی احیاھا لمحی الموتٰی انهٗ علٰی کل شئی قدیر
39 ان الذین یلحدون فی اٰیٰتنا لایخفون علینا افمن یلقٰی فی النار
خیر ام من یاتی اٰمنا یوم القیٰمة اعملوا ماشئتم انهٗ بما تعملون بصیر 40
اگر تُم قُرآن کے بیان کیۓ ہوۓ حقائقِ رَفتہ و رواں کے مطابق اِس عالَم پر
غور و فکر کرو گے تو اسی ایک نتیجے پر پُہنچو گے کہ اِس عالَم میں شب و روز
کے آنے جانے اور آفتاب و ماہتاب کے چڑھنے ڈھلنے کا جو عمل ہمیشہ سے جاری ہے
وہ اُس ایک ہی خالق کے حُکم سے جاری و ساری ہے جس کے یہ اَرکانِ عالَم
محکوم ہیں اِس لیۓ تُم بھی خالق کی اِس محکوم مخلوق کی محکو میت اختیار
کرنے کے بجاۓ اِس محکوم مخلوق کی طرح اُس خالق کی محکومت اختیار کرو جس
خالق کی یہ ارکانِ عالَم محکومیت اختیار کیۓ ہوۓ ہیں ، جو لوگ اِس عالَم و
اَرکانِ عالَم کی اِس محکوم مخلوق کے اَحوال پر غور کرنے کے بجاۓ ایک
متکبرانہ سر کشی اختیار کیۓ ہوۓ ہیں اُن کی اِس سرکشی سے خالقِ عالَم کے
اِس نظامِ خلق میں کوئی بھی فرق واقع نہیں ہوتا کیونکہ خالق کی جو مخلوق
اپنے علم و فکر کے اعتبار سے اپنے خالق سے جتنی قریب ہوتی ہے وہ اتنی ہی
رات اور دن اُس کی اطاعت میں مصروف ہوتی ہے ، اگر تُم اِس عالَم کی تخلیق
پر غور و فکر کرو گے تو تُم دیکھو گے کہ جب اِس مُردہ زمین کو اُس حاکم سے
حُکمِ حیات ملتا ہے تو اِس میں وہ مُتعدی زندگی آجاتی ہے جو اِس ایک ہی
زندگی کو زندگی در زندگی دیتی چلی جاتی ہے اور اگر تُم اِس پر مزید غور کرو
گے تو تُم کو اِس اَمر کا بھی یقین آجاۓ گا کہ اللہ مرے ہوۓ انسانی جسموں
کو بھی اسی طرح وقت در وقت زندہ کرتا رہتا ہے جس طرح وہ اِس مُردہ زمین کو
سال بہ سال زندہ کرتا رہتا ہے اِس لیۓ کہ اُس نے اِس عالَم کی ہر ایک شئی
کی موت و حیات کا وہ خود کار نظام مقرر کیا ہوا ہے جس خود کار نظام کے تحت
عالَم کی ہر ایک شئی پر اُس کی موت کے وقت پر موت آتی ہے اور اُس کی زندگی
کے وقت پر زندگی آجاتی ہے ، جو مُلحد و مُنحرف لوگ ہماری اٰیات پر اپنی مَن
مانی معنویت کے لبادے چڑھاتے ہیں وہ ہم سے چُھپے ہوۓ نہیں ہیں ، اگر اُن
میں عقلِ عام موجُود ہے تو وہ خود ہی یہ فیصلہ کرلیں کہ آنے والی زندگی میں
اُن کا آتشِ رَنج میں جلنا اُن کا ایک بہترین اَنجام ہے یا اُن کا بہارِ
راحت میں پلنا اُن کا ایک اعلٰی ترین اَنجام ہے ، اگر وہ آنے والی زندگی کا
یہ فرق جان لیں تو پھر وہ جو چاہیں وہ کریں ، اللہ اُن کے جُملہ اعمال کو
دیکھ رہا ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا میں خالقِ عالَم کے بناۓ ہوۓ جس عالم کے بارے میں جو ایک علمی
و فکری مضمون وارد ہوا ہے وہ علمی و فکری مضمون اِس سے قبل بھی قُرآنِ کریم
کے کئی ایک مقامات پر وارد ہو چکا ہے اور اِس کے بعد بھی وہ مضمون قُرآنِ
کریم کے کئی ایک مقامات پر وارد ہونے والا ہے اِس لیۓ قُرآنِ کریم کی اِن
پہلی اٰیات میں وار ہونے والے اِس مضمون کے مقابلے میں اٰیاتِ بالا کی آخری
اٰیت میں وراد ہونے والے الحادِ مُلحدین کے اُس مضمون پر گفتگو کی زیادہ
ضرورت ہے جس مضمون کو اِس اٰیت سے پہلے سُورَةُالاَعراف کی اٰیت 180 اور
سُورَةُ النحل کی اٰیت 103 میں قُرآنِ کریم نے اپنا موضوعِ سخن بنایا ہے ،
مُلحد کا معنٰی عام طور پر کافر و بیدین کیا جاتا ہے جو مذہبی قدامت پسندوں
نے معاشرتی جدت پسندوں کے لیۓ ایک گالی کے طور پر ایجاد کیا ہے جو اِس لیۓ
درست نہیں ہے کہ مُلحد کی اَصل لَحد ہے اور لحد قبر کے اندر بنائی جانے
والی اُس بغلی قبر کو کہا جاتا ہے جو ایک تو شاید اِس خیال سے بنائی جاتی
ہے کہ مرنے والے کی تدفین کرنے والے اَفراد مرنے والے کی قبر میں آسانی کے
ساتھ اُتر کر مرنے والے کو آسانی کے ساتھ قبر میں اُتار سکیں اور عام قبر
میں اِس خاص بغلی قبر کا اہتمام کُچھ اِس خیال سے بھی کیا جاتا ہے کہ
جانوروں کے کثرت کے ساتھ اِس قبر پر گزرنے کے باعث اگر اصل قبر جلد مُنہدم
ہو جاۓ تو وہ بغلی قبر زیادہ دیر تک محفوظ رہے اور دفن کیۓ گۓ انسانی جسد
کو زیادہ دیر تک بیرونی جان داروں کی آمد و رفت سے ہونے والی ٹوٹ پھوٹ سے
زیادہ دیر تک محفوظ رکھے اور ظاہر ہے کہ قبر کے اندرونی حصے میں لحد کی
صورت میں کیا جانے والا یہ الحادی تجدد بھی اسی طرح کا ایک الحادی تجدد ہے
جس طرح کا تجدد قبر کے بیرونی حصے میں چار دیواری یا گنبد وغیرہ کی صورت
میں کیا جاتا ہے ، قُرآنِ کریم نے سُورَةُالکہف کی اٰیت 27 اور سُورَةُ
الجن کی اٰیت 22 میں لَحد کا معنٰی جاۓ پناہ مقرر کیا ہے اِس لیۓ انسانی
جسم کی زمین میں بنائی جانے والی عام قبر کے اندر جو خاص بغلی لحد بنائی
جاتی ہے مُلحد کو اُسی لحد سے منسوب کر کے مُلحد کہا جاتا ہے جس کا معنٰی
کوئی جدت پیدا کرنے والا انسان ہوتا ہے کیونکہ مُلحد بھی انسانی زندگی کے
عام طرزِ زندگی سے ہٹ کر عموما ایک الگ تھلگ طرزِ زندگی کی نمائندگی کرنے
کے لیۓ کسی ایسی زیرِ پناہ زندگی کی تلاش میں رہتا ہے جو اُس کی عام زندگی
کے لیۓ وہ خاص جاۓ پناہ بن جاۓ جو جاۓ پناہ اُس کی زندگی کو دُوسرے عام
لوگوں کی تُہمت زدہ زندگی سے ایک الگ تھلگ سی پُر سکون زندگی بنا دے اور
اگر مُلحد کی اِس طرح کی زندگی ایک گُم راہی ہے تو پھر ہر شیخ و زاہد ، ہر
صوفی و راہب اور ہر فقیہ و فقیر کی الگ تھلگ زندگی بھی ایسی ہی ایک گم راہی
ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ مُلحد اپنے آغازِ کار میں ہر مُحقق کی طرح ایک قابلِ
قدر مُحقق ہوتا ہے لیکن جب وہ شوقِ تحقیق میں بدہیات کا انکار کرنے لگتا ہے
تو وہ یقینا ایک خود راہ اور گمراہ ہستی بن جاتا ہے اِس لیۓ قُرآنِ کریم نے
مُلحد سے بہت سادہ سا مطالبہ کیا ہے کہ اگر وہ ایک گور کن کی طرح انسانی
قبروں میں لحد بناۓ تو ضرور بناۓ قُرآنی اٰیات میں لحد بنانے کے لیۓ الحاد
و گم راہی کے آلات و اوزار ہر گز نہ اُٹھاۓ کیونکہ جو انسان قُرآن کی کسی
اٰیت میں ایک خیالی لحد بناتا ہے تو وہ پہلے اپنی عادت کے مطابق اُس میں
ایک گور کن کی طرح ایک قبر بھی بناتا ہے اور اُس کے بعد وہ اُس قبر میں ایک
بغلی لحد بناتا ہے ، قبرستان میں تو وہ انسان یہ کام بصد شوق کر سکتا ہے
کیونکہ قبرستان میں جو لحد گیری کی جاتی ہے اُس لحد گیری میں قُدرتی طور پر
انسان کے ساتھ انسان کا ایک ارادہِ طیبہ بھی موجُود ہوتا ہے لیکن قُرآن میں
جب کوئی مُلحد یہ لحد بناتا ہے تو اُس میں اُس کا ارادہ جو کُچھ بھی ہوتا
ہے وہ صرف اور صرف ایک الحادِ مُلحد ہی ہوتا ہے جو عنداللہ ایک گم راہ کُن
عمل ہے اور قُرآنِ کریم نے مُتعلقہ اٰیتِ بالا میں یہ حکیمانہ ارشاد فرمایا
ہے کہ جو انسان قُرآنِ کریم کی کوئی خدمت کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنی اُس
خدمت کے دوران اٰیات میں اٰیات کے بیان کیۓ ہوۓ اُس حقیقی مفہوم سے تجاوز
کرے گا تو مرنے کے بعد اُس کو وہ تلخ زندگی دی جاۓ گی جو اُس کے لیۓ ایک
سخت ناپسندیدہ زندگی ہو گی اور اگر وہ نفسِ اٰیات میں اپنے نفسانی الحاد سے
اجتناب کرے گا تو مرنے کے بعد اُس کو وہ شیریں زندگی دی جاۓ گی جو اُس کے
لیۓ ایک بیحد سہولت آسا اور پسندیدہ زندگی ہو گی اور قُرآنِ کریم کی جو یہ
تنبیہہ کی ہے تو وہ صرف مُلحدین کے لیۓ جہان کے لیۓ ہی نہیں ہے بلکہ اُن
مُسلمین جہان کے لیۓ بھی ہے جو دن رات قُرآنی اٰیات کو انسانی روایات کے
تابع بنانے میں لگے رہتے ہیں اور اسی حال میں مر کر جہنم رسید ہو جاتے ہیں
!!
|