دعوتِ حق اور اُس کا طریقِ کار !!

#العلمAlilmعلمُ الکتاب سُورَہِ حٰمٓ السجدة ، اٰیت 33 تا 36 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ومن
احسن قولا
ممن دعا الی اللہ
وعمل صالحا وقال
اننی من السلمین 33 و
لا تستوی الحسنة ولا السیئة
ادفع بالتی ھی احسن افاذا الذی
بینک و بینهٗ عداوة کانهٗ ولی حمیم 34
وما یلقٰہا الا الذین صبروا ومایلقٰہا الا ذوحظ
عظیم 35 واما ینزغنک من الشیطٰن فاستذ باللہ
انهٗ سمیع علیم 36
اے ہمارے رسُول ! قُرآن نے انسان کے لیۓ خیر کے جس راستے کی نشان دہی کی ہے آپ خیر کے اُس راستے پر چلنے والوں کو قُرآن کا یہ ضابطہِ اخلاق بھی سنا دیں کہ عملِ خیر کی تمام باتوں میں سب سے بہترین بات انسان کا انسان کو اللہ کی طرف بلانا اور عملِ خیر کی تعلیم دینا ہے اور پھر اپنے اُس قولِ خیر و عملِ خیر پر عمل کر کے زیرِ اصلاح و تعلیم اَفراد کو اِس اَمر کا یقین دلانا ہے کہ اِس قولِ خیر و عملِ خیر کو سب سے پہلے میں نے خود تسلیم کیا ہے اور اُس کے بعد میں نے دُوسروں کو اِس کی تعلیم دی ہے ، اِس اچھے انسان کی اِس اچھی تعلیم کے برعکس اگر ایک بُرا انسان ایک بُری بات کی تعلیم دیتا ہے تو وہ اِس اچھے انسان کے برابر اِس لیح نہیں ہو سکتا کہ اَچھے انسان کی اچھی بات اور بُرے انسان کی بُری بات برابر نہیں ہوتی اِس لیۓ لازم ہے کہ آپ کا دشمن جب بھی آپ کی اچھی بات کے برعکس کوئی بُری بات کرے تو آپ اُس کے جواب میں اتنی اچھی بات کریں کہ آپ کی جان کا وہ دُشمن آپ کا جاں نثار بن جاۓ لیکن انسان کو یہ اخلاقی عظمت اُس وقت حاصل ہوتی ہے جس وقت وہ دشمن کے جبر کا اپنے صبر کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے ، اگر دعوتِ حق کے کسی مُشکل مرحلے میں شیطان آپ کو یہ بات بُھلانے کی کوشش کرے تو آپ شیطان کے اُس شر کو محسوس کرتے ہی اپنے اُس اللہ کی حفاظت میں آجایا کریں جو آپ کی ہر بات کو براہِ راست سُنتا ہے اور آپ کے ہر عمل کو براہِ راست جانتا ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم کی روشن اٰیات اور اُن روشن اٰیات کی روشن تعلیمات کے مطابق قُرآنِ کریم کے جس مقررہ قول و عمل کا نام دینِ اسلام ہے اُس دینِ اسلام کا انسان سے سب سے پہلا مطالبہ یہ ہے کہ زمین کا ہر انسان شرک کے تاریک نظریۓ کو ترک اور توحید کے روشن نظریۓ کو اختیار کرلے اِس لیۓ زمین کا جو انسان دینِ اسلام کے اِس مطالبے پر عمل کرتے ہوۓ شرک کی تاریکی سے نکل کر توحید کی روشنی میں آتا ہے تو اُس پر شرک کی تاریکی سے نکل کر توحید کی روشنی میں آتے ہی یہ اَمر لازم ہو جاتا ہے کہ توحید کی جس روشن دعوت کو اُس نے خود قبول کیا ہے تو حید کی اُس روشن دعوت کو وہ اپنی دینی و ایمانی بساط کے مطابق زمین پر اپنے قرب و جوار میں رہنے والے اُن تمام انسانوں تک پُہنچانے کی کوشش کرے جو انسان اللہ تعالٰی کی اِس روشن توحید کے اِس روشن قُرب و جوار میں رہنے کے باوجُود بھی ابھی تک شرک کی اُس تاریکی میں پھنسے ہوۓ ہیں جس تاریکی سے اُن کو باہر نکالنا اتنا ہی ضروری ہوتا ہے جتنا کہ ایک جلنے والے مکان سے زندہ انسانوں کو زندہ باہر نکالنا ضروری ہوتا ہے لیکن دینِ اسلام کی اِس دعوتِ حق کا یہ کام اپنے اِس خاص حوالے سے جتنا اہم تر ہوتا ہے اتنا ہی نازک تر بھی ہوتا ہے اِس لۓ قُرآنِ کریم نے اِس دینِ اسلام کی اِس دعوتِ عام کے لیۓ جو خاص ہدایات دی ہیں اُن خاص ہدایات میں سب سے پہلی ہدایت یہ ہے کہ اِس دین کے جس داعی نے اپنے یومِ دعوت سے لے کر یومِ قیامت تک اِس دین کی جس دعوتِ توحید کو پیش کرنا ہے اُس داعی نے اِس دینِ حق کی اِس دعوت کو قیامت تک قُرآن کے اُنہی رہنما اصولوں کے مطابق پیش کرنا ہے جو رہنما اصول اِس کتابِ تنزیل کے نزول کے زمانے میں اِس تنزیل کے اُس صاحبِ تنزیل کے لیۓ نازل ہوۓ تھے جس صاحبِ تنزیل پر اللہ تعالٰی کی یہ تنزیلِ کامل نازل ہوئی تھی اور جس وقت اُس صاحبِ تنزیل پر یہ تنزیلِ کامل نازل ہوئی تھی اُس وقت اِس تنزیلِ کامل نے اپنے اُس صاحبِ تنزیل کو سب سے پہلے یہی ہدایت دی تھی کہ ایک بات کے اچھے یا بُرے دو ہی پہلو ہوتے ہیں اور ہم نے چونکہ آپ کو اپنا وہ کلامِ حق قُرآن دے دیا ہے جس کی ہر بات ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ سچی ہے اِس لیۓ حق و باطل کے اِس طے شدہ معیاری اصول کے مطابق حق بات صرف آپ کی بات ہے اور آپ کی اِس سچی بات کے مقابل میں آنے والی ہر وہ بات باطل ہے جو اِس حق کے خلاف ہے اِس لیۓ اہلِ زمین کے لیۓ وہی اَمرِ حق لازم ہے اور اسی اَمرِ حق کی تعلیم لازم ہے جو اَمرِ حق آپ کو دیا گیا ہے اور آپ یہ بات بھی بخوبی جانتے ہیں کہ ہر اَمرِ حق کی دعوت کے لیۓ اُس اَمرِ حق کا صرف اَمرِ حق ہونا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اُس قولِ حق کو کہنے کے لیۓ اُس قولِ حق کا طریقہِ اظہار و ابلاغ بھی اُس حق کے معیار کے مطابق ہونا لازم ہوتا ہے کیونکہ حق کی جو بات بے طریقہ و بے سلیقہ ہوتی ہے وہ بات اپنے سننے والے کے لیۓ اکثر و بیشتر محض ایک بے اثر بات ہی نہیں ہوجاتی بلکہ کبھی کبھی تو وہ بات حق کے خلاف اور مقصدِ حق کے بھی خلاف ہوجاتی ہے لہٰذا آپ جب بھی قبولِ حق کی یہ دعوت دیں تو دینِ حق کے اُس دشمن کی بُری بات کے جواب میں اتنی اچھی بات کہیں کہ آپ کا وہ جانی دشمن آپ کا جاں نثار بن جاۓ اور اگر کبھی کوئی شیطان اپنی شیطانی باتوں سے آپ کو اُلجھانے اور آپ کی حق بات سے آپ کو ہٹانے کی کوشش کرے تو آپ اُس کے اِس فتنے کا احساس ہوتے ہی اپنے اُس اللہ تعالٰی کی حفاظت میں آجائیں جو آپ کی ہر بات کو بذاتِ خود سنتا ہے اور آپ کے ہر عمل کو بذاتِ خود جانتا ہے ، جب آپ قُرآن کے بتاۓ ہوۓ اِس محتاط طریقے کے مطابق حق کی دعوت دیں گے تو اللہ تعالٰی کی مدد آپ کے شاملِ حال و شریکِ اعمال رہے گی ، دعوتِ حق کا یہ کام اگرچہ مُشکل ہے لیکن دین کا جو داعی اِن قُرآنی ہدایات پر عمل کرے گا اُس کو ہمیشہ ہی اللہ تعالٰی کی یہ مشروط بالحق مدد ملتی رہے گی ، چنانچہ جس زمانے میں یہ تنزیلِ حق نازل ہوئی اور جس زمانے میں آپ نے اِس تنزیل کے اِس ضابطے کے مطابق اِس تنزیل کی تعلیم دی تو عالَم میں اِس عالَم گیر تنزیل کے وہی عالَم گیر انقلابی اثرات پیدا ہوۓ جو پیدا ہونے چاہیۓ تھے لیکن بعد ازاں جب اِس تنزیل کے روایتی حاملین نے اِس تنزیل کو اپنے لیۓ ایک منفعت بخش صنعت بنا لیا تو اِس تنزیل کی وہ تاثیر ہی ختم ہو گئی جو اِس تنزیل کا لازمہ ہوا کرتی تھی اور اِس تجربے اور مشاہدے سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جب تک اِس تنزیل کے روایتی حاملین اپنی رُوح کو اِس تنزیل کے تابع نہیں بنائیں گے تب تک انسان کی عملی زندگی میں اِس تنزیل کے وہ اثرات و ثمرات واپس نہیں آئیں گے جو انسان و انسانیت کی ایک عقلی و عملی ضرورت ہیں !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 559762 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More