معرکۂ فرعون و کلیم میں حق و باطل کی کشمکش کے مختلف
پہلو اجاگر ہوتے ہیں، ارشادِ ربانی ہے:’’ ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں
کےساتھ فرعون اور اس کے اعیانِ سلطنت کے پاس بھیجا‘‘۔ میخوں والے فرعون کے
سامنے حضرت موسیٰ ؑ انفرادی طور پر کمزورتو تھے مگر بنی اسرائیل بھی غلام
تھی اس کے باوجود دعوتِ دین کے لیے حالات کےبدلنے اوررائے عامہ کی استواری
کا انتظار نہیں کیا گیا۔رب کائنات کے حکم پرانجام کی پرواہ کیے بغیر حضرت
موسیٰؑ سرکار دربار کی جانب نکل کھڑے ہوئے ، اور:’’ جا کر کہا کہ میں ربّ
العالمین کا رسول ہوں ‘‘۔ اس دعوت کے خلاف نشانیوں کا مطالبہ کیا گیا :’’
پھر جب اس نے ہماری نشانیاں ان کے سامنے پیش کیں تو وہ ٹھٹھے مارنے لگے‘‘ ۔
عصائے موسیٰ اور ید بیضا کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا۔
ان مافو ق الفطرت نشانیوں کے بعد آفاق و انفس کی نشانیوں کا ذکر یوں ہے کہ
:’’ ہم ایک پر ایک ایسی نشانی ان کو دکھاتے چلے گئے جو پہلی سے بڑھ چڑھ کر
تھی ، اور ہم نے ان کو عذاب میں دھر لیا تاکہ وہ اپنی روش سے باز آئیں۔ ہر
عذاب کے موقع پر وہ کہتے ، اے ساحر ،اپنے رب کی طرف سے جو منصب تجھے حاصل
ہے اس کی بنا پر ہمارے لیے اس سے دعا کر، ہم ضرور راہ راست پر آ جائیں گے ۔
مگر جوں ہی کہ ہم ان پر سے عذاب ہٹا دیتے وہ اپنی بات سے پھر جاتے تھے ‘‘
قرآن کریم میں ان مختلف سماوی آفات کی تفصیل موجود ہے کہ جن سے نجات کے
لیے وہ حضرت موسیٰؑ سے رجوع کرتے تھے ۔ آج کل اس کی ایک قسم تو عالمی وباء
ہے لیکن اور بھی مصبتیں جیسے قحط یا سیلاب اور بیروزگاری و مہنگائی وغیرہ
بھی انسانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کے لیے کافی ہے بشرطیکہ وہ اپنا
رویہ بدل کر رب سے رجوع کریں ۔ آگے کا مرحلہ دلچسپ ہے:’’ ایک روز فرعون نے
اپنی قوم کے درمیان پکار کر کہا ،’’ لوگو ، کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں
ہے ، اور یہ نہریں میرے نیچے نہیں بہہ رہی ہیں؟کیا تم لوگوں کو نظر نہیں
آتا؟‘‘
فرعون کا یہ بیان اس کے رویہ میں تبدیلی کی علامت ہے۔ پہلے تو وہ حضرت
موسیٰ ؑ کو ناقابلِ اعتناء سمجھ کران کا تمسخر اڑا رہا تھا لیکن جب نورِ
ہدایت پھیلنے لگا تو اسے اندیشہ لاحق ہوگیا کہ مبادہ قوم اس دعوت کو قبول
نہ کرلے اس لیے اب وہ ایسے احسانات یاد دلانے لگا جس کا اس کی ذات سے کوئی
تعلق نہیں تھا ۔ آج بھی ووٹ مانگنے کے لیے وباء کے دوران کی جانے والی
غذائی مدد یاد دلاکر احسان جتایا جاتا ہے حالانکہ وہ حکمراں کے جیب سے نہیں
بلکہ عوام کے ٹیکس کی رقم ہوتی ہے مگر بھولے بھالے عوام اس کے فریب میں
پہلے بھی آتے تھے اب آ جاتے ہیں۔ اترپردیش کے انتخابی نتائج اس بات ثبوت
ہیں پانچ کلو مفت چاول اور ایک کلو چنے نے سارے پاپ دھو دئیے ۔ احسان جتانے
والے فرعون کا حضرت موسیٰ ؑ سے خود کا موازنہ کرتے ہوئے یہ پوچھنا بھی
مضحکہ خیز ہےکہ بتاو:’’ میں بہتر ہوں یا یہ شخص جو ذلیل و حقیر ہے اور اپنی
بات بھی کھول کر بیان نہیں کر سکتا؟ ‘‘ اُس زمانے میں الیکشن تو نہیں ہوتے
تھے مگر عوام میں اپنا رعب داب قائم رکھنے کی خاطر مد مقابل کی تضحیک کا
رواج تھا اور دعوت کی مسترد کرنے کی خاطر یہ سوال بھی ہوتا تھا کہ :’’کیوں
نہ اس پر سونے کے کنگن اتارے گئے ؟ یا فرشتوں کا ایک دستہ اس کی اردلی میں
نہ آیا؟‘‘۔ اس طرح کے احمقانہ مطالبات کی تو کوئی حد نہیں ہے کیونکہ جو
نشانی سامنے ہے اس کو تو جھٹلانے کے بعد ہٹ دھرمی دکھاتے ہوئےنت نئے
مطالبات کیے جاتے ہیں۔
حکمراں ایسی حرکت کیوں کرتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ:’’اس نے اپنی قوم کو
ہلکا سمجھا‘‘ آج کے حکمراں بھی قوم کو بیوقوف سمجھ کر بے سر پیر کی
ہانکتےہیں اور لوگ اس کو تسلیم بھی کرلیتے ہیں یہی بات آگے کہی گئی کہ:’’
اور انہوں (قوم )نے اس کی اطاعت کی، در حقیقت وہ تھے ہی فاسق لوگ‘‘۔ یعنی
فرعون کے پوری طرح بے نقاب ہوجانے کے باوجود جن لوگوں نے حضرت موسیٰؑ کی
دعوت حق پر لبیک کہنے کے بجائے معمولی مفادات کی خاطر ظالم حکمرانوں کا
ساتھ دیاوہ بھی اسی کےانجام سے دوچار ہوگئے۔ارشادِ قرآنی ہے:’’آخر کار جب
انہوں نے ہمیں غضب ناک کر دیا تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور ان کو اکٹھا
غرق کر دیا اور بعد والوں کے لیے پیش رو اور نمونہ عبرت بنا کر رکھ دیا‘‘۔
اس طرح کی نشانیاں آج بھی ظاہر ہوتی ہیں لیکن اس سے عبرت پکڑنے والے کم ہی
ہوتے ہیں۔
|