اللہ تبارک و تعالی ٰ کی مقرر کردہ حدوں کی پابندی کرنا انتہائی ضروری ہے

اللہ تبارک و تعالی ٰ کی مقرر کردہ حدوں کی پابندی کرنا انتہائی ضروری ہے
محمد رفیق اعتصامی
کائنات میں ہر چیز محدود، مقرر اور ماپی ہوئی ہے، سوائے اللہ تعالیٰ کے، جو ہر قسم کی حدود سے اوپر ہے اور ابدی ہے۔ قرآن پاک میں اسکا بیا ن ہے ”اور اللہ کے ہاں ہرچیز ایک اندازہ سے ہے“۔ (سورہ رعد:8)
جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر جاندار کی عمر، صلاحیت اور رزق معین ہے۔ اسی طرح ہر مشینری کی کام کرنے کی طاقت اور ایکسپائری ڈیٹ بھی محدود ہوتی ہے۔
حد سے مراد دو چیزیں ہیں، یعنی کسی بھی جاندار کے جسم کی حد یا کسی مشینری کار یا بس کی باڈی وغیرہ ۔
حد سے مراد اس چیز کا خاکہ، ڈیزائن یا آوٹ لائن ہے، جس کی بنیاد پر کوئی چیز ایجادہو تی ہے۔ کیونکہ ہر ایجاد پہلے ڈیزائن کی جاتی ہے اسکا نقشہ بنتا ہے اور پھر تخلیق کے عمل سے گذرتی ہے۔
مثال کے طور پر کوئی گاڑی، شیشے کا گلاس یا گھر وغیرہ کا خاکہ جیسا کہ تصویر میں ظاہر ہے۔
او ر دوسری بات یہ ہے کہ یہ چیز اس وقت تک محفوظ اورباقی ہے جب تک یہ اپنی حدود کے اندر ہے اور اسکا نقشہ یا خاکہ سلامت ہے اور اگر یہ ٹوٹے گا تو وہ چیز ختم ہو جائے گی۔
مثال کے طور پر، فرض کریں کے اگر خدا نخواستہ کسی گاڑی کو کوئی حادثہ وغیرہ پیش آتا ہے، اور وہ ٹوٹ جاتی ہے، تو اس کا ڈیزائن یا نقشہ خراب اور مسخ ہو جاتا ہے اور وہ ختم ہو جاتی ہے۔
اوریہ جاندار یا بے جان چیز کے جسم کی حد کی مثال ہے، اسی طرح ایک حد اور بھی ہے جو اس چیز کی ابدی سلامتی او ر بقا کی حد ہے اس کی مثال اس طرح ہے کہ ہر چیز ایک خاص مقصد کے تحت بنائی جاتی ہے یا ایجاد کی جاتی
ہے، اور اگر یہ اس پر پوری اترے تو یہ محفوظ اور صحیح ہے، اور اگر ایسا نہیں ہے تو یہ بالکل بیکار اور فضول ہے
لہٰذا اسے کسی کباڑ خانے کی زینت بنا دیا جاتا ہے۔
اب میں اصل نکتے کی طرف آتا ہوں کہ انسان کو بھی ایک خاص مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت! جیسا کہ قرآن پاک میں اس کا ذکر آیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے”اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں، میں نہیں چاہتا ان سے کوئی رزق اور نہ ہی یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کچھ کھلائیں، بیشک اللہ ہے روزی دینے والا زور آور اور غالب“
(سورہ الذّاریات:56)۔
پس اللہ تعالیٰ کی عبادت اور بندگی انسان کی سلامتی اور بقا کی ایک حد ہے یعنی دین اسلام کی مقرر کردہ عقائد و اعمال کی حدود کا پابند رہنا،اور اگر وہ ایساکرتا ہے، تو وہ ابدی طور پر سلامت رہے گا اور قیامت کے دن اسکی زندگی ہمیشگی کی ہوگی اور بہترین اجر دیا جائے گا ارشاد باری تعالیٰ ہے(ترجمہ)
''یہ اللہ کی طرف سے (مقرر کردہ) حدود ہیں۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اللہ اسے ایسے باغات بنا دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہی بڑی کامیابی ہو گی۔“ (النساء:13)۔
اور اس کے بر عکس اگر انسان اللہ کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرے گا تو اسے قیامت کے دن سزا دی جائے گی اور ایسے لوگ جہنّم میں داخل کئے جائیں گے۔
جیسا کہ قرآن پاک میں اس کا بیان ہے، ”مجرم اپنی نشانیوں سے پہچانے جائیں گے، اور وہ پیشانی کے بالوں اورقدموں سے پکڑے جائیں گے۔ پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟ یہ وہ جہنم ہے جسے مجرم جھٹلاتے تھے وہ اسکے اور شدید کھولتے ہوا پانی کے درمیان چکر لگاتے پھریں گے'' (سورہ الرحمٰن: 44)

یہ اس لئے ہے کیونکہ انہوں نے اللہ تعالی کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کیا۔
لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ انسان اللہ تبارک و تعا لیٰ کی مقرر کردہ حدود کو پہچانے یعنی اسلامی تعلیمات پر عمل کی پابندی کرے تاکہ اسے دونوں جہان کی کامیابی نصیب ہو۔

 

Muhammad Rafique Etesame
About the Author: Muhammad Rafique Etesame Read More Articles by Muhammad Rafique Etesame: 196 Articles with 321251 views
بندہ دینی اور اصلاحی موضوعات پر لکھتا ہے مقصد یہ ہے کہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے فریضہ کی ادایئگی کیلئے ایسے اسلامی مضامین کو عام کیا جائے جو
.. View More