العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالشُورٰی ، اٰیت 14 تا 15
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
ماتفرقوا
الا من بعد ما
جاء ھم العلم بغیا
بینھم ولولا کلمة سبقت
من ربک الٰی اجل مسمی لقضی
بینھم وان الذین اورثواالکتٰب من
بعدھم لفی شک منه مریب 14 فلذٰلک
فادع واستقم کماامرت ولاتتبع اھواءھم و
قل اٰمنت بماانزل اللہ من کتٰب وامرت لاعدل
بینکم اللہ ربنا وربکم لنا اعمالنا ولکم اعمالکم لا
حجة بیننا و بینکم اللہ یجمع بیننا والیه المصیر 15
اے ہمارے رسُول ! زمین کے پہلے اہلِ زمین کے درمیان فرقہ بندی کا جو مرض
رُونما ہوتا رہا ہے وہ مرض ہمیشہ اِس بنا پر ہی رُونما ہوتا رہا ہے کہ ہر
زمین و ہر زمانے کی تنزیل کے بعد ہر زمین و ہر زمانے کے شک گزیدہ وارثانِ
تنزیل اپنے اختلاف کے فیصلے اللہ کی اُس تنزیلِ ہدایت کے مطابق کرنے کے
بجاۓ اپنی اپنی خاندانی عداوت و جہالت کے مطابق کیا کرتے تھے اور اُن مُجرم
وارثانِ تنزیل کا یہ جُرم ایک ایسا سنگین جُرم تھا کہ اگر اللہ نے انسانی
اعمال و نتائجِ اعمال کے درمیان انسان کے رجوع الی الحق کے لیۓ ایک وقفہِ
مُہلت نہ رکھا ہوا ہوتا تو اُن اہلِ تنزیل کے اُس جُرم کا اُسی زمانے کی
اُسی زمین پر ہی حساب برابر کر دیا جاتا لیکن اللہ نے چونکہ انسانی اعمال و
نتائجِ اعمال کے درمیان ایک مُہلت رکھی ہے اور اُس مُہلت کو یومِ قیامت پر
اُٹھا رکھا ہے اِس لیۓ اِس بار ہم نے آپ کو اپنی اِس آخری تنزیل کی آخری
بار حُجت تمام کرنے کے لیۓ آخری بار اہلِ زمین میں مبعوث کیا ہے تاکہ آپ
اِن اہلِ زمین کے سفلی خیالات و رُجحانات کی پروا کیۓ بغیر اِن اہلِ زمین
کو اِس اَمر سے آگاہ کردیں کہ اللہ نے مُجھ پر اپنی جو کتابِ حق نازل کی ہے
میں خود بھی اُس کتابِ حق پر ایمان لایا ہوں اور تُم سب کو بھی اُس کتابِ
حق پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہوں کیونکہ اللہ نے مُجھے حُکم دیا ہے کہ
میں تُمہارے سارے اختلافات کے سارے فیصلے عدل کی اس کتاب کے اُس عدل کے
مطابق کیا کروں جس عدل کی بُنیاد نظریہِ توحید کا یہ اعتقاد ہے کہ ہمارا
اور تُمہارا رب صرف ایک اللہ ہے اور ہم سب اُسی ایک اللہ کے وہ بندے ہیں جن
کے درمیان دعوتِ خیر اور اعمالِ خیر کا یہی عادلانہ رشتہ ہے کسی ذاتی یا
خاندانی عداوت کا کوئی ظالمانہ رشتہ نہیں ہے ، ممکن ہے کہ آپ کی اِس دعوتِ
حق کے بعد یہ لوگ آپ پر نازل ہونے والی اِس تنزیلِ حق پر ایمان لے آئیں اور
یومِ حساب کے حسابِ عمل کی اُس قرارِ واقعی سزا سے بَچ جائیں جو اِن کے یومِ
حساب پر ٹلی ہوئی ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم کی موجُودہ اٰیات کا موجُودہ مضمون قُرآنِ کریم کی اُن پہلی
اٰیات کے اُس پہلے مضمون کی ایک سمری ہے جس مضمون میں نُوح علیہ السلام کے
عہد سے لے کر عیسٰی علیہ السلام کے عہد تک کے اُن سارے تاریخی اَدوار کا
احاطہ کیا گیا تھا جن تاریخی اَدوار میں زمین کی مُختلف قومیں بَن بَن کر
بگڑتی اور بگڑ بگڑ کر بنتی رہی ہیں لیکن اُن کے اُس بناؤ اور بگاڑ میں بگاڑ
کا پہلو زیادہ غالب رہا ہے اِس لیۓ موجُودہ اٰیات میں یہ حقیقت واضح کی گئی
ہے کہ زمین پر اہلِ زمین کی زندگی اُن کے انسانی اعمال کے نتائج ہی کا محض
ایک وقفہِ مُہلت نہیں ہے بلکہ یہ اصلاحِ اعمال کی بھی وہ آخری مُہلت ہے جس
آخری مُہلت کو با مقصد و با مراد بنانے کے لیۓ اِس بار اہلِ زمین کے لیۓ
اللہ نے اپنے آخری رسُول پر اپنی آخری تنزیل نازل کردی ہے تاکہ انسان آخری
بار اپنی آخری اصلاح کر کے اُس حسابِ آخرت کے لیۓ تیار ہو جاۓ جس حسابِ
آخرت کے بعد کوئی کوئی اور حساب نہیں ہو گا بلکہ صرف وہ جزاۓ عمل یا سزاۓ
عمل ہو گی جس کا چاہنے یا نہ چاہنے کے باوجُود بھی انسان کو سامنا کرنا پڑے
گا ، اٰیاتِ بالا کے اِس مضمون میں سب سے پہلے تو انسانی کردار میں بگاڑ
پیدا کرنے والی وہ خرابی بیان کی گئی ہے جس خرابی کی وجہ سے سابقہ قومیں
اور ملّتیں گم راہ ہوتی رہی ہیں اور اُس کے بعد اُس خرابی کی یہ وجہ بیان
کی گئی ہے کہ زمین پر اللہ تعالٰی کے نبی اور رسُول انسانی گم راہی کے اُس
خاص زمانے میں مامور کیۓ جاتے تھے جب کوئی قوم اپنی گم راہی کی انتہا پر
پُہنچ جاتی تھی اور اللہ تعالٰی کا جو رسُول یا نبی جس قوم میں آتا تھا وہ
اُس قوم کو اُس گم راہی کی اُس انتہا سے ہٹانے اور یہ بات یاد کرانے کے لیۓ
آتا تھا کہ جس قوم کے پاس اللہ کی جو تنزیل موجُود ہے وہ قوم اُس تنزیل کی
دینی وارث ہے اور اُس قوم نے اُس تنزیل کو اللہ تعالٰی کی طرف سے دی گئی
اُس دینی و رُوحانی وراثت کے طور پر اہلِ زمین کے درمیان ہمیشہ ہی زندہ و
قائم رکھنا ہے لیکن وہ قومیں اُس تنزیل کے تابع رہنے اور اُس تنزیل کے تابع
رہ کر اُس تنزیل کے مقصدی تقاضے پُورے کرنے کے بجاۓ اُس تنزیل سے انحراف
اور اپنی نفسانی خواہشات کا اتباع شروع کر دیتی تھیں جس کی وجہ سے اُن
قوموں میں آۓ روز وہ گم راہ فرقے پیدا ہوتے رہتے تھے جو فرقے حق و ناحق اور
تنزیل و غیر تنزیل کا وہ فرق ہی مٹا دیتے تھے جس فرق کے مٹنے کے بعد وہ
قومیں کبھی جُزوی طور پر اور کبھی اجتماعی طور پر تباہ و برباد ہو جاتی
تھیں لیکن اُن قوموں میں چونکہ سلسلہِ نبوت و رسالت جاری ہوتا تھا اِس لیۓ
اُن قوم کے درد مند افراد کے دل میں یہ موہُوم سی اُمید بھی کہیں نہ کہیں
پر ہمیشہ موجُود ہوتی تھی کہ اِس قوم میں پہلے نبی اور پہلے رُسول کے بعد
جو دُوسرا رسُول یا دُوسرا نبی آۓ گا وہ اِس بے اصلاح قوم کی اصلاح کر دے
گا لیکن زمین پر اللہ تعالٰی کے آخری رسُول کے ذریعے اللہ تعالٰی کی آخری
کتاب نازل ہونے کے بعد کسی نبی یا رسُول کے آنے کا امکان تو ہمیشہ کے لیۓ
ختم ہو گیا ہے لیکن اِس کے باوجُود بھی یہ اَمر اِس اُمت کی خوش بختی ہے کہ
اِس کے پاس اللہ تعالٰی کی وہ آخری تنزیل موجُود ہے جس تنزیل میں انسانی
اصلاح و فلاح کے وہ سارے اصول اور ضابطے موجُود ہیں جو اِس اُمت کی قیامت
تک رہنمائی کر سکتے ہیں لیکن اِس اُمت کی اِس خوش بختی کے ساتھ اِس کی
بدبختی یہ ہے کہ اِس اُمت کے ساتھ بھی فرقہ پرستی کی وہی بدبختی موجُود ہے
جو پہلی اُمتوں کے ساتھ موجُود تھی اور اِس اُمت کی اِس بدبختی کا سب سے
خوفناک بلکہ شرمناک پہلو یہ ہے کہ پہلی اُمتیں گم راہی میں مُبتلا ہونے کے
بعد بھی اِس یقین کے ساتھ زندہ تھیں کہ اُن کے امام و فقیہ اور اُن کے دینی
رہنما اُن کو جو کُچھ سناتے ہیں وہ اللہ کی کتاب سے پڑھ کر سناتے ہیں اور
اُن کو جو جو کُچھ بتاتے ہیں وہ بھی اللہ تعالٰی کی کتاب سے دیکھ کر بتاتے
ہیں اِس لیۓ یہود و نصارٰی کی تاریخ میں ہمیں اللہ تعالٰی کی کتاب کا ایک
گم راہ کُن تفسیری اختلاف تو ضرور ملتا ہے لیکن ایسا ایک حوالہ بھی نہیں
ملتا کہ کسی یہودی یا نصرانی نے کبھی یہ کہا ہو کہ اللہ تعالٰی کی کتاب کا
کوئی فرمان تو غلط ہو سکتا ہے لیکن ہمارے احبار و رُہبان کا کوئی فرمُودہ
غلط نہیں ہو سکتا لیکن اِس اُمت کے گم راہ پیر اور گم راہ مُلا ببانگِ دُہل
یہ اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کی کتاب اپنی جگہ پر ہے لیکن ہمارے امام
و فقیہ کا فرمان قُرآن کے فرمان سے زیادہ مُعتبر ہے اور اِس اُمت کے عُلماء
و فقہا جو ابلیس کی اِس تلبیس کے غلام ہیں وہ اِن مُلحدانہ نظریات کی تردید
کے بجاۓ قُرآن کی تردید اور اپنے اُن گم راہ پیروں اور پروہتوں کی تائید
کرتے ہیں جو قُرآن کے خلاف صدیوں سے ایک شیطانی تحریک چلاتے چلے آ رہے ہیں
اِس لیۓ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جب تک یہ اُمت اپنے جاہل پیر و جاہل
مُلا کی غلامی سے نکل کر قُرآن کے ساۓ میں نہیں آۓ گی تب تک یہ اُمت ذلت و
مسکنت کے عذابِ الیم سے نجات نہیں پاۓ گی !!
|