انڈر 21 فیمیل مقابلے اور ضم اضلاع کی کارکردگی
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
ضم اضلاع کے خیبر پختونخواہ میں ضم ہونے کے بعد کیا سابقہ قبائلی علاقہ جات کے ڈی ایس اوز کی بھرتی کیلئے طریقہ کارکیوں تبدیل نہیں کیا جارہا ' پشاور سمیت دیگر اضلاع میں باقاعدہ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز کو بھرتی کیا جاتا ہے جنہوں نے باقاعدہ سپورٹس کا شعبہ پڑھا ہو یا پھر متعلقہ شعبے میں کوئی کارکردگی دکھائی ہو لیکن ضم اضلاع کے ان سپورٹس مینجرز کو ااب کیوں رکھا گیا ' کیا ان کی پہنچ بڑے سیاسی شخصیات تک ہیں ' یا پھر "حصہ پہنچانے " میں ماہر ہیں.کیا ایف اے پاس سپورٹس مینجرکے مقابلے میں ضم اضلاع میں بین الاقوامی کھلاڑیوں کی کمی ہے یاان پر پبلک سروس کمیشن کا قانون کیوں لاگو نہیں ہوتا ' کیا ان ضم اضلاع میں باصلاحیت افراد کی کمی ہے ' بالکل نہیں ' لیکن ان افراد کو رکھنے کا مقصد کیا ہے. اس پر زیادہ "سرد ردی " کی ضرورت نہیں. |
|
انڈر 21 کے صوبائی سطح پر ہونیوالے مقابلے 1992کے بعد ہونیوالے صوبائی حکومت کے سب سے بڑے مقابلے ہیں ' 1992 میں ہونیوالے سرحد گیمز کے بعد خیبر پختونخواہ حکومت نے پہلی مرتبہ کھیل اور کھلاڑیوں کے فرو غ کیلئے یہ اقدامات اٹھائے ' جو کسی حد تک لائق تحسین ہیں لیکن ان مقابلوں میں ضم اضلاع کی پوزیشن کہاں پر ہیں اس حوالے ے ابھی تک خاموشی ہیں.سابقہ قبائلی علاقہ جات جو اب ضم ہو کر خیبر پختونخواہ کیساتھ ضم ہو چکے ہیں کا قیام پاکستان سے لیکر ضم ہونے سے یہ گلہ رہا کہ انہیں کسی معاملے میں موقع نہیں دیا گیا ' انکے ساتھ جانبدارانہ رویہ رہا اس باعث اب بھی بعض ضم اضلاع میں ایسے لوگ موجود ہیں جو علی اعلان یہ کہتے ہیں کہ ضم ہونے سے ان کے مسائل حل نہیں ہوئے اور وہی ایشوز جو سابقہ قبائلی علاقوں میں تھے وہی ایشوز ضم ہونے کے بعد اب بھی چل رہے ہیں. ان لوگوں کے تحفظات اپنی جگہ ' لیکن کیا کھیلوں کے شعبے میں ضم اضلاع کیساتھ وہی سلوک نہیں ہورہا جو اس سے قبل کا تھا.
موجودہ ضم اضلاع جو اس سے قبل قبائلی علاقہ جات تھے میں پراجیکٹ کے تحت اس وقت پولٹیکل انتظامیہ کے حق میں ملک کیساتھ زندہ باد کرنے والے یا پھر سیکرٹریٹ تک رسائی حاصل کرنے والے اہلکاروں کونوکری مل گئی تھی ان میں بیشتر میٹرک اور ایف اے پاس اہلکار تھے جو اب بھی ہیں ' ان ضم اضلاع میں کام کرنے والے سپورٹس مینجرز کی اہلیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ کچھ عرصہ قبل ہونیوالے ضم اضلاع کے مقابلوں میں پشاور یا دوسرے شہروں میں رہائش پذیرایسے کھلاڑیوں کو لایا گیا جن کے شناختی کارڈ میں پتے تو سابقہ قبائلی علاقوں کے تھے لیکن ان کی رہائش ان بڑے اضلاع میں تھی انہیںٹریک سوٹ ' شوز و دیگر سہولیات دیکر یہ ظاہر کیا گیا کہ ان کا تعلق متعلقہ ضلع سے ہے لیکن حقیقت میں یہ کھلاڑی ہیں جن کا اپنے آبائی علاقوں سے صرف ڈومیسائل اور پتے کی حد تک رشتہ ہے ' اور وہ بھی اسی وجہ سے کہ کوٹہ سسٹم میں انہیں داخلہ مل جاتا ہے ورنہ انہیں ان قبائلی علاقوں میں کوئی دلچسپی نہیں .
ضم اضلاع کے خیبر پختونخواہ میں ضم ہونے کے بعد کیا سابقہ قبائلی علاقہ جات کے ڈی ایس اوز کی بھرتی کیلئے طریقہ کارکیوں تبدیل نہیں کیا جارہا ' پشاور سمیت دیگر اضلاع میں باقاعدہ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز کو بھرتی کیا جاتا ہے جنہوں نے باقاعدہ سپورٹس کا شعبہ پڑھا ہو یا پھر متعلقہ شعبے میں کوئی کارکردگی دکھائی ہو لیکن ضم اضلاع کے ان سپورٹس مینجرز کو ااب کیوں رکھا گیا ' کیا ان کی پہنچ بڑے سیاسی شخصیات تک ہیں ' یا پھر "حصہ پہنچانے " میں ماہر ہیں.کیا ایف اے پاس سپورٹس مینجرکے مقابلے میں ضم اضلاع میں بین الاقوامی کھلاڑیوں کی کمی ہے یاان پر پبلک سروس کمیشن کا قانون کیوں لاگو نہیں ہوتا ' کیا ان ضم اضلاع میں باصلاحیت افراد کی کمی ہے ' بالکل نہیں ' لیکن ان افراد کو رکھنے کا مقصد کیا ہے. اس پر زیادہ "سرد ردی " کی ضرورت نہیں.
ویسے یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جن ضم اضلاع کیلئے سپورٹس مینجرز کو اب ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز رکھا گیا ہے ان کے دفاتر کہاں پر ہیں ' اور انہوں نے اپنی تعیناتی کے بعد کتنا وقت صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں واقع ضم اضلاع کے سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں گزارا ہے یا پھر پھر متعلقہ اضلاع میں کوئی سرگرمی کی ہے یا نیا ٹیلنٹ مردوں اور خواتین کے مقابلوں میں لائے ہیں' کم و بیش ایک دہائی سے ضم اضلاع میں سپورٹس کے شعبے سے وابستہ ان افراد سے پوچھنے کی ضرورت بھی تو ہے کہ بھائی میرے آپ تنخواہ کس چیز کی لے رہے ہیں ' ان ضم اضلاع میں کونسا ٹیلنٹ لیکر آئے ہیں. آپ کی ڈیوٹی کہاں پر ہیں اورآپ ڈائریکٹریٹ میں کیوں ہیں اور آپ کا سارا سامان کبھی پاکستان سپورٹس بورڈ اینڈ کوچنگ سنٹر کے ہاسٹل میں کیوں پڑا ہوتا ہے جس میں کبھی کبھار "بڑے ناخوشگوار"واقعے بھی پیش آتے ہیں جن میں تازہ ترین واقعہ پشاور میں سابق چیف سیکرٹری ڈاکٹر کاظم نیاز کی موجوددگی میں افتتاحی تقریب کے دوران ہوا جس پر "مٹی پائو"والا کام کرلیا گیا تاکہ بدنامی نہ ہو .کھلاڑیوں کیلئے لیا جانیوالا سپورٹس کا سامان متعلقہ سٹیشن میں کیوں نہیں.اسے کیوں پی ایس بی کے ہاسٹل سے لاکر اب صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں رکھا گیا ' اور اس مد میں نکلنے والے کرایہ جات کی تفصیلات کیا ہے یہ وہ چیزیں ہیں جس پر ہمیشہ پردہ ڈالا جاتا ہے.
حال ہی میں ہونیوالے انڈر 21 فیمیل کے مقابلوں میں یہ کہا گیا کہ صوبے کے پینتیس اضلاع میں بشمول ضم اضلاع کے فیمیل کھلاڑی حصہ لے رہی ہیں جس کی تعداد کم و بیش تین ہزار بنتی ہیں لیکن اگلے دن صرف خیبر اور باجوڑ کی ٹیم شریک رہی ' باقی خیر خیریت تھی یہ الگ بات کہ اورکزئی کا بینرز لگایا گیا تھا لیکن وہاں پر کوئی کھلاڑی دیکھنے کو نہیں ملا . اب وزیراعلی سمیت سیکرٹری سپورٹس و ڈی جی سپورٹس کے کرنے کا کام یہ بھی ہے کہ ضم اضلاع کے سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے یہ پوچھے کہ بھائی آپ تنخواہیں کس چیز کے لے رہے ہیں ' ضم اضلاع میں سٹیڈیم بنانا تو آ پ کا کام نہیں ' اس کیلئے انجنئیرنگ ونگ سمیت سی اینڈ ڈبلیو کا الگ ڈیپارٹمنٹ ہے جو ان معاملات کو دیکھتا ہے. کوئی یہ پوچھے کہ چلو پہلے تو قبائلی علاقہ جات ہے سوال پوچھنے پر ایف سی آر کے اندر لوگوں کو کرایا جاتا تھا اور بیس سے چالیس سال تک کو ئی پوچھ نہیں سکتا ' اب تو اتنی اندھیر نگری نہیں ' اب تویہ سوال بنتا ہے کہ آپ کے ڈیپارٹمنٹ نے کتنے کھلاڑی ان علاقوں میں پیدا کئے ہیں ' ان کے نام اور فہرستیں دیکھنے کی ضرورت ہے ' ناکہ یہ بتایا جائے کہ ا ن علاقوں سے نکل کر آکر پشاور یا دیگر اضلاع میں مقیم کھلاڑیوں کے نام دئیے جائیں کہ یہ کھلاڑی ہمارے پیدا کردہ ہیں.
کوئی سپورٹس ڈائریکٹریٹ ضم اضلاع سے یہ پوچھنے کی ہمت رکھتا ہے کہ بھائی آپ نے ضم اضلاع کے کھیلوں کے مقابلوں میں بھی اپنے کھلاڑیوں کو شامل نہیں کیا ' اب انڈر 21 کے مقابلوں میں پہلے تو زبانی کلامی سب شریک تھے لیکن میدان میں کچھ نہیں تھا ' اب سوال پوچھنے پر یہ بتایا جارہا ہے کہ سابقہ قبائلی علاقے جو اب ضم ہوچکے ہیں میں فیمیل کھلاڑیوں کواچھا نہیں سمجھا جاتا اور وہاں کے کلچر کے مطابقت نہیں ' ٹھیک ہے اگر وہاں پر برا منایاجاتا ہے تو کھیلوں سے وابستہ متعلقہ سرکاری اہلکاروں نے اس حوالے سے ان علاقوں میں کوئی سیمینار ' کوئی پروگرام ' کوئی بیٹھک ' کوئی سروے کروایا ہے کہ کیا وجوہات ہیں اور اس کیلئے کیا اقدامات اٹھائے ہیں اگر ابھی تک نہیںتو پھر صوبائی حکومت کو اتنے اخراجات کرنے کی ضرورت کیا ہے ' لاکھوں کی مد میں ملنے والی تنخواہیں ضم اضلاع کے سپورٹس ڈائریکٹریٹ اور ان کے اہلکاروں پر خرچ کرنے کی ضرورت کیا ہے اگر ضم اضلاع کے کھلاڑی نہیں آسکتے اور پشاور و چارسدہ کے کالجز کے بچے اور بچیاں ان مقابلوں میں آکر ڈومیسائل کی بنیاد پر کھیلتے ہیں جن کی رہائش ان علاقوں میں ہیں تو پھر ان کی کارکردگی کیا ہے
یہ تمام چیزیں اس بات کی بھی نشاندہی کرتی ہے کہ ضم اضلاع کے کھیلوں پر لگنے والا فنڈز بھی ضائع ہوہا ہے اور وہاں کے مقامی افراد مستفید نہیں ہورہے ' تو پھر لازما ان ضم اضلاع کے وہاں پر مقیم افراد میں احساس محرومی پیدا ہوگی خواہ وہ کھیلوں کے شعبے سے ہو یا پھر دیگر شعبوں سے ' جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ' |