انڈر 21 کھیلوں کے مقابلے اختتام پذیر لیکن کھلاڑی کہاں !

یبر پختونخواہ حکومت کا کھیلوں کی سہولیات کی فراہمی سمیت کھلاڑیوں کو ماہانہ وظیفہ دینا ایک بڑا اور اہم اقدام ہے ' جو یقینا سراہے جانے کے لائق ہیں صوبے کے وزیراعلی محمود خان جو کھیلوں کے انچارج وزیر بھی ہیں نے دیگر شعبوں کے مقابلے میں کھیل' سیاحت اور ثقافت کیلئے سب سے زیادہ فنڈز مختص کئے ہیں ' اور مختلف منصوبے اسی مد میں جاری و ساری ہے.جو یقینا موجودہ حکومت کا بڑا کارنامہ ہے لیکن.

انڈر 21 فیمیل کھیلوں کے مقابلے گذشتہ ہفتے اختتام پذیر ہوگئے ' کم وبیش و سال بعد ہونیوالے ان مقابلوں میں خیبر پختونخواہ کے مختلف اضلاع کے کھلاڑیوں نے شرکت کی ' جبکہ ضم اضلاع سے تعلق رکھنے والے صرف خیبر و باجوڑ کی ٹیم شریک ہوئی اپر دیر اور لوئر دیر کی ٹیمیں بھی "ہوائی " بن گئی تھی.جن کے کھلاڑیوں نے ان مقابلوں میں حصہ لیا.یہ سال 2018 میں نافذ ہونیوالے صوبائی حکومت کی سپورٹس پالیسی کا حصہ ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ نرسری سطح پر کھلاڑیوں کو پروموٹ کیا جائیگا اور کھیلوں کے انفراسٹرکچر کو بہتر کیا جائیگا انڈر 21 مردوں کے مقابلے تو پہلے اختتام پذیر ہوگئے تھے اب فیمیل کے مقابلے بھی جو کرونا کے باعث لیٹ ہوگئے تھے صوابی ' چارسدہ اور پشاور میں کردئیے گئے .تین مختلف جگہوں پر کرانے کا مقصد نہ صرف سیکورٹی کی صورتحال کو بہتر کرنا ' فیمیل کھلاڑیوں کو ان کے نزدیکی ہاسٹل تک رکھنا بلکہ ان تین مختلف شہروں میں حکومت کی طرف سے بنائے جانیوالے انفراسٹرکچر کے بارے میں کھلاڑیو ں میں آگاہی پیدا کرنا بھی تھا تاکہ لوگوں میں اس حوالے سے آگاہی پیدا ہو.انڈر 21 فیمیل کھیلوں کی افتتاحی تقریب پشاور میں ہوئی جبکہ اختتامی تقریب مختلف جگہوں پر میچز ختم ہونے کے بعد ختم کردی گئی اور کھلاڑیوں کو انعامات دئیے گئے مختلف کھیلوں میں پوزیشن ہولڈرز کھلاڑیوں کے نام ان لسٹ کرنے کے بعد اب انہیں صوبائی حکومت ایک سال تک وظیفہ بھی دے گی .

خیبر پختونخواہ حکومت کا کھیلوں کی سہولیات کی فراہمی سمیت کھلاڑیوں کو ماہانہ وظیفہ دینا ایک بڑا اور اہم اقدام ہے ' جو یقینا سراہے جانے کے لائق ہیں صوبے کے وزیراعلی محمود خان جو کھیلوں کے انچارج وزیر بھی ہیں نے دیگر شعبوں کے مقابلے میں کھیل' سیاحت اور ثقافت کیلئے سب سے زیادہ فنڈز مختص کئے ہیں ' اور مختلف منصوبے اسی مد میں جاری و ساری ہے.جو یقینا موجودہ حکومت کا بڑا کارنامہ ہے لیکن.

سوال یہ ہے کہ صوبائی حکومت کا جو کھیلوں کے انفراسٹرکچر بہتر کرنے کی ذمہ دار ہے نے کب سے کھیلوں کے مقابلوں کو آرگنائز کرنے کا ٹھیکہ لیا ہے کیونکہ انفراسٹرکچر کی تیاری حکومت کا کام ہے اور آرگنائز کرنا کسی اور کاکام ہے لیکن انفراسٹرکچر کی تیاری بھی موجودہ حکومت تو کررہی ہے مگر مخصوص افراد کے تعاون سے ' ان انفراسٹرکچر کی حقیقت کیا ہے انفراسٹرکچر کے سلسلے میں بننے والے مختلف گرائونڈز ' کورٹ ' کی اصل حقیقت کیا ہے اس کا اندازہ گذشتہ تین سالوں میں بننے والے گرائونڈز ' کورٹ کو دیکھنے کی ضرورت ہے ' کیا یہ انفراسٹرکچر اس معیار کا بنا ہے جس کے دعوے حکومت کررہی ہیں اور کیا اس میں جو سٹیک ہولڈر تھے ان سے مشاورت کی گئی یہ بھی بنیادی سوال ہیں ' اور ایک سال میں کروڑوں کی لاگت سے بننے والے ان گرائونڈز کی اب کیا پوزیشن ہے ' کھلاڑیوں سے جاننے کی ضرورت ہے ' دفتروں میں بیٹھ کر میٹنگ کرنے یا پھر فائلوں کے پیٹ بھرنے کے نہیں.جس میں کررہے ہیں ' ہو جائیگا اور انقلاب آئیگا جیسے الفاظ سننے کو ملیں گے.

انفراسٹرکچر کے بعد پروگراموں کو آرگنائز کرنے کا کام کس کا ہے ' کیا یہ سرکار میں گود میں بیٹھ کر سرکاری فنڈز جاری کرنے والوں کا کام ہے ' اگر یہی ہے تو پھر نئے ٹیلنٹ کو لانے کا کام کس کا ہے ' کیونکہ کہیں پر ون مین شو چل رہا ہے کیونکہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ واحد ڈیپارٹمنٹ ہے جس میں گھروں میں ہونیوالے "سالگرہ کی تقریبات اور پارٹیوں میں " شامل ہو کر بڑے بڑے افسران مشاورت کرتے ہیں کہ کس چیز کو کس طرح کرنا ہے کیا لاکھوں روپے لینے والے ایسوسی ایشنز کی کوئی حیثیت ہے ' کیا ان ایسوسی ایشنز میں جینوئن لوگ بھی ہیں اور اگر ہیں تو کہاں پر ہیں اور اگر نہیں تو کونسے لوگ مامے چاچے اور باپ بیٹے بن کر ایسوسی ایشن پر قابض ہیں اور سال میں ایک مرتبہ ٹورنامنٹ منعقد کروا کے اپنا نام شہیدوں میں شامل کردیتے ہیں. یہ وہ سوالات ہیں جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے.

بات ہورہی تھی انڈر 21 کے مقابلوں کی ' سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب تک ہونیوالے انڈر 21 کے مقابلے جو اس سے قبل بھی ہوئے تھے اور اب بھی ہوئے ہیں اور کھلاڑیوں کو سالانہ وظیفہ ملتارہا اور اب مستقبل میں ملے گا ' ان ٹاپ پوزیشن ہولڈر کھلاڑیوں کی پوزیشن اس وقت کیا ہے ' کیا وہ قومی سطح کے مقابلوں کیلئے تیار ہوگئے ہیں اور ان کی وہاں پر پوزیشن کیا ہے ' کتنے ایسے کھلاڑی ہیں جنہوں نے انڈر 21 سمیت صوبائی حکومت کی طرف سے جاری مقابلوں میں حصہ لیا اب ان میں کتنے کھلاڑی گرائونڈز میں آرہے ہیں اور اپنے متعلقہ کھیل میں ان کی پوزیشن کیا ہے . کیا کسی نے جاننے کی کوشش کی ہے.صوبائی حکومت کی طرف سے سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں بیٹھے سینکڑوں کلاس ون افسران نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ان کھیلوں سے نکلنے والے کھلاڑی جو دو سال قبل تھے انکی پوزیشن کیا ہے ' اور اب جو آئے ہیں وہ کہاں پر جائیں گے. ٹھیک ہے سپورٹس ڈائریکٹریٹ انہیں وظیفہ فراہم کررہی ہیں لیکن یہ وظیفہ متعلقہ کھیل میں بہترین پرفارمنس پر ہے کیا یہ پرفارمنس صرف ان مقابلوں تک محدود ہے یا پھر یہ کھلاڑی مستقبل میں بھی کچھ کرینگے.یا پیسہ ختم اور کھیل ہضم والا حل ہو جائیگا.

سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبرپختونخواہ کے کچھ افسران کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ضلعی حکومت کی طرف سے ملنے والے کھیلوں کیلئے رقم سمیت صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی فنڈز عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ ہے اور عوام کے خون پسینے کی کمائی "ریڈ کارپٹ " بچھانے میں اگر لگتی ہے تو عوام "سیاستدانوں "کو بھی لتاڑتے ہیں تو پھر " عوام کے ٹیکسو ں سے تنخواہ لینے والے" ان اہلکاروں سے بھی پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ ٹیکسوں کا پیسہ کہاں پر لگ رہا ہے ' لیکن یہاں پر تو سب سے آسان بیان ہے کہ "سر جی اپنے جیب سے لاکھوں روپے" لگائے ہیں بلکہ ہم نے تو بیگم کے اکائونٹس سے بھی رقم نکال کر لگائی ہیں. اب سوال یہ ہے کہ لاکھوں روپے ایک بندہ کس لئے لگاتا ہے 'اس لئے کہ اسے پتہ ہے کہ جو انوسٹمنٹ میں کررہا ہوں اس کا صلہ ملنے والا ہے یاپھر میں اسے نکال بھی سکتا ہوں '' یا پھر سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ میں کچھ لوگ ولی اللہ ہے ' جنہیں کھیلوں اورکھلاڑیوں غم کھائے جارہا ہے اس لئے وہ اپنے جیب سے پیسے لگاتے ہیں.

انڈر 21 کے ان مقابلوں کا سلسلہ تو ختم ہوگیالیکن یہ سوال اپنی جگہ پر چھوڑ گیا ہے کہ اگر ایک ٹیم چترال سے آکر ناک آوٹ سسٹم پر ایک میچ کھیلتی ہیں اور میچ ہار کر اگلے دن واپس چلی جاتی ہیں تو پھر کھیلوں کو فروغ کیسے ملے گا ' کیا ان مقابلوں کو لیگ سسٹم پر نہیں کھیلا جاسکتا جس میں کم از کم ہر ٹیم کو تین تین میچز تو اپنے پول میں کرنے ہوتے ہیں ایسے میں پتہ بھی چلتا ہے کہ کونسا کھلاڑی کس کھیل میں بہتر ہے کھیل کوئی بھی ہو ایک میچ سے کسی کی کارکردگی کا اندازہ تو نہیں کیا جاسکتا .کیا ناک آوٹ سسٹم ان انڈر 21 کھیلوں کیلئے نہیں ہوسکتا ' .

اسی کے ساتھ کھیلوں کی ایسوسی ایشنز کا بھی پتہ کرنے کی ضرورت ہے کہ اصل میں ایسوسی ایشنز کہاں پر ہے کچھ ایسے ایسوسی ایشنز بھی انڈر 21 کے دوران دیکھنے کو ملے ' جو سارا سال غائب تھے لیکن انڈر 21 کے مقابلوں کا اعلان ہوتے ہی کونے کھدروں سے نکل آئے ' سب سے پہلے سپورٹس ڈائریکٹریٹ پہنچے' انہوں نے ٹریک سوٹ بھی لئے ' شوز بھی لئے ' ٹی اے ڈی اے بھی لیا لیکن کسی سے یہ سوال نہیں کیا کہ بھائی میرے گذشتہ ایک سال دو سال سے آپ کہاں پر تھے ' آپ کی منتخب کابینہ کہاں پر ہے' اور کب ان کا انتخاب کیا ' کیا ان لوگوں نے کوئی مقابلے کروائے تھے یہ وہ سوال ہیں جو سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے کرنے ہیں یا پھر متعلقہ ڈی ایس اوز کے کرنے ہیں تاہم چونکہ بعض جگہوں پر مضبوط اور تگڑے ڈی ایس اوز ہیں جنہیں نہ صرف سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے افسران کو پارٹیوں میں بلا کر مطمئن کرنا بھی آتا ہے بلکہ انہیں ایسوسی ایشنز بنانا بھی آتا ہے اور وہ اپنے من پسند افراد کو آگے لا کر انہیں ایڈجسٹ بھی کرلیتے ہیں ا س لئے یہ سوال جو ان کے کرنے کا ہے انہوں نے نہیں کیا اس لئے بعض ایسے ایسوسی ایشن جو حقیقت میں جینوئن نہیں بھی وہ بھی سرکار کے فنڈزسے مستفید ہوئے.

یہاں پر ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ انڈر 21 کے ان مقابلوں سے ٹاپ پر آنیوالے کھلاڑیوں کو کیا ایسوسی ایشنز کے پاس بھیج دیا گیا ہے یا ان کی فہرستیں متعلقہ ایسوسی ایشنز کے پاس ہیں ' جواب نفی میں ہی ملے گا کیونکہ بعض مضبوط ایسوسی ایشنز بھی اس معاملے میں خاموش ہیں کیونکہ اگرکوئی کھلاڑی ان مقابلوں سے نکلتا ہے تو پھر و ہ متعلقہ ایسوسی ایشنز کے فورم سے صوبائی اور پھر قومی سطح کے مقابلو ں میں حصہ لیتا ہے کیونکہ فیڈریشن انہی ایسوسی ایشنز کی ہے ' اب اگر انڈر 21 کے کھلاڑی ٹاپ پوزیشن پر آئے ہیں ان کھلاڑیوں کی صوبائی ایسوسی ایشنز میں کیا حیثیت ہے کیا وہ وہاں کھیل رہے ہیں یا پھر انڈر 21 یا دیگر مقابلوں میں حصہ لینے اور وظیفہ لینے کے بعد غائب ہوگئے ہیں اس سمیت کئی ایسے سوالات ہیں جو سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں بیٹھے بڑے بڑے افسران کو کرنے کی ضرورت ہے جو ایماندار ہونے کے ساتھ ساتھ لائق بھی ہیں اور روزانہ ان معاملا ت میں میٹنگز پر میٹنگز بھی کرتے ہیں لیکن انہیں یہ بتانے کی ضرورت بھی ہے کہ کھیلوں کے شعبے میں کارکردگی کا پتہ " فیلڈ "میں چلتا ہے ناکہ دفاتر میں بیٹھ کر احکامات جاری کرنے سے ..
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 637 Articles with 499872 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More