کیا آپ جانتے ہیں کہ اگر برف کے پہاڑ پگھل جائیں تو کیا ہوگا، انٹارکٹیکا میں اسلام آباد سے بھی بڑا آئس شیلف غائب ہوگیا

image
 
پانی انسانی زندگی کا سب سے ضروری جزو سمجھا جاتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ زمین کا تین چوتھائی حصہ پانی ہے جس کا بڑا حصہ سمندری پانی جبکہ صرف 3 فیصد حصہ صاف ستھرے، پینے کے پانی پر مشتمل ہے۔
 
انٹار کٹکا میں پانی کا ذخیرہ
انٹارکٹیکا دنیا کا انتہائی جنوبی براعظم ہے، جہاں قطب جنوبی واقع ہے اور یہاں انٹار کٹیکا کی برف میں دنیا کا 90 فیصد تازہ پانی موجود ہے، جس میں سے 80 فیصد برف اس منجمد برِاعظم کے مشرقی حصے میں ہے۔جغرافیائی اصطلاح میں اسے منطقہ باردہ جنوبی (South friged zone) بھی کہتے ہیں۔ یہ دنیا کا سرد ترین، خشک ترین اور ہوا دار ترین براعظم ہے جبکہ اس کی اوسط بلندی بھی تمام براعظموں سے زیادہ ہے۔
 
14٫425 ملین مربع کلومیٹر کے رقبے کے ساتھ انٹارکٹیکا ایشیا، افریقا، شمالی امریکا اور جنوبی امریکا کے بعد دنیا کا پانچواں بڑا براعظم ہے۔ انٹارکٹیکا 98 فیصد برف سے ڈھکا ہوا ہے ،انٹارکٹیکا کو برف کا ایک وسیع صحرا سمجھا جاتا ہے جہاں برف ہی برف ہے اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ یہاں انسانی زندگی کا مستقل کوئی ٹھکانہ نہیں تاہم صرف تحقیقی مقاصد کیلئے مختلف ممالک کے سائنس دان قیام پذیر ہیں۔
 
انٹارکٹیکا میں تقریباً 20 لاکھ برس سے بارش نہیں ہوئی۔ اس کے باوجود دنیا کے میٹھے پانی کے 80 فیصد ذخائر اسی براعظم پر موجود ہیں، اگر یہ سب پگھل جائیں تو سمندری سطح کو ساٹھ میٹر (200 فٹ) تک بلند کرسکتے ہیں ۔
 
image
 
آئس شیلف غائب
انٹار کیٹکا میں اسلام آباد سے بھی بڑے رقبے پر موجود آئس شیلف کے ڈرامائی اختتام کا مشاہدہ سٹیلائٹ تصاویر میں کیا گیا جس میں مشرقی انٹار کٹیکا کے ساحل پر کونگر آئس شیلف کو15 مارچ کو مکمل طور پر منہدم ہوتے دیکھا جاسکتا ہے۔اس آئس شیلف کا رقبہ ایک شہر کے برابر تھا اور اس کو اسلام آباد سے بڑا یوں کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے شہر اقتدار کا رقبہ 906 کلومیٹر سے کچھ ہی زیادہ ہے لیکن غائب آئس شیلف 1200 اسکوائر کلومیٹر رقبے پر محیط تھی۔
 
ناسا کی ماہر کیتھرین والکر کی طرف سے جاری کردہ سٹیلائٹ تصاویر میں دکھایا گیا کہ 14مارچ سے آئس شیلف غائب ہونا شروع ہوا اور 16مارچ کی تصویر میں آئس شیلف سرے سے موجود ہی نہیں۔اس سے قبل جولائی 2017 میں انٹارکٹیکا کے برفانی خطے لارسن سی سے 5800اسکوائر کلومیٹر بڑا تودہ الگ ہوا تھا ۔
 
کیا برف کے ذخائرپگھل رہے ہیں؟
آئس شیلف کے اچانک غائب ہونے سے دنیا بھر کے سائنسدان ورطہ حیرت میں ہیں کیونکہ خطے میں درجہ حرارت مارچ کے وسط میں منفی 8اعشاریہ 11 سینٹی گریڈ تک ریکارڈ کیا گیا جو کہ سال کے اس حصے کی اوسط سے 30 ڈگری زیادہ تھا۔
 
اس لئے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ جاننا تو بہت مشکل ہے کہ زیادہ درجہ حرارت اس آئس شیلف کے منہدم ہونے کا باعث ہو، مگر زیادہ بہتر طریقے سے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مشرقی انٹارکٹیکا میں گرم موسم نے برف کے پگھلنے پر کس حد تک اثر کیا ہے۔
 
image
 
ماہرین کا کہنا ہےکہ کمپیوٹر کی پیشگوئی سے عندیہ ملتا ہے کہ اگر اسی شرح سے فضا میں زہریلی گیسوں کا اخراج جاری رہا تو دنیا بھر کا موسم مزید گرم ہوتا جائے گا جس کے نتیجے میں برفانی براعظم کے مختلف حصے تیزی سے پگھل جائیں گے۔
 
برف پگھلنے سے کیا ہوگا؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ آئس شیٹس اس برفانی براعظم کے سمندر میں برف کے بہاؤ کو روکے رکھنے کے لیے ناگزیر ہیں کیونکہ اگر آئس شیٹس منہدم ہوجائیں تو برف کے بہاؤ کی رفتار بڑھ جائے گی جس کا نتیجہ سمندروں کی سطح میں اضافے کی شکل میں نکلے گا۔ نتیجتاً رواں صدی کے آخر تک سمندری سطح میں چھ فٹ یا اس سے زائد کا اضافہ ہوسکتا ہے۔
 
پاکستان میں پانی کی قلت
پاکستان دنیا میں پانی کے بحران کا شکار ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے اور عالمی تحقیق کے مطابق بڑھتی ہوئی آبادی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث جنوبی ایشیاء بالخصوص پاکستان میں تازہ پانی کی دستیابی وقت کے ساتھ ساتھ کم ہورہی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو2040 تک پانی کی مکمل عدم دستیابی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
 
ماہرین کے مطابق پاکستان کو ہنگامی بنیادوں پر پانی کے حوالے سے فوری اقدامات اورمنصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ عوام میں پانی بچانے کا شعور اور فوری طور پر چھوٹے بڑے ڈیمز کی تعمیر ملک کی اشد ضرورت ہے ۔
YOU MAY ALSO LIKE: