بےعلم نتواں خدارا شناخت
ہمارے دینی طبقہ میں بالخصوص اور دیگر شعبہ ہائے حیات میں بالعموم، اکثر و
بیشتر ہمیں ایسے افراد ملتے رہتے ہیں جنھیں دنیائے فقر و تصوف میں ارفع
مقام اور ید طولٰی رکھنے کا دعویٰ ہوتا ہے جب کہ حقیقی صورت حال یہ ہے کہ
ایسے افراد کلی طور پر تصوف کی تا (ت) سے بھی پوری طرح واقف نہیں ہوتے-
کچھ ایسی ہی صورت حال ہمارے ادبی حلقوں میں بھی پائی جاتی ہے- اکثر و بیشتر
شعراء و ادباء خود کو معاشرے کے شامنے درویش منش و صوفی شاعر کے روپ میں
پیش کر کے اپنا کھوکھلا بھرم قائم رکھے ہوئے ہوتے ہیں- در حقیقت ایسے تمام
شعراء و ادباء یا نام نہاد عماء و مشائخ، علم و فضل ( جو کہ جوہر خداداد ہے
اور ہر شخص کو بقدر استعداد ہی ودیعت کیا جاتا ہے) سے خالی ، تیرہ باطن ،
ذہن رسا و طبع نباض سے محروم، فہم و شعور سے بے خبر ، کور چشم قسم کے لوگ
ہوتے ہیں- جنھیں ثم رددنٰہ اسفل سافلین کا صحیح و حقیقی مصداق قرار دیا جا
سکتا ہے- یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے وجود میں حیوانیت سے نچلے درجے کے غماز
ہیں - جن کا انسان ہونا ، کسی گدھے کا گدھا ہونے سے بھی بد تر ہے یقیناً اس
قبیل کے افراد کے لئے حکیم الامت حضرت علامہ اقبال علیہ الرحمتہ نے فرمایا
تھا-
کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمی آید
قارئین کرام ! واضح رہے کہ ہم یہاں اپنے حوالے سے کسی قسم کا (خفی و جلی)
کوئی کبر و تفاخر یا تعلی نہیں برت رہے اور نہ ہی اس سے کسی انسان (
بالخصوص اہل علم شعراء و ادباء ) کی تحقیر و تذلیل لازم آتی ہے بلکہ یہ تو
وہ آنکھوں دیکھے حقائق ہیں جو اہل علم و فن اور صاحبان دانش و بینش کی
مجالس سخن میں آئے روز پیش آتے رہتے ہیں-
وہ لوگ جو کہ علم و حکمت اور فضل و کمال کے حوالے سے نہ تین میں نہ تیرہ
میں ہوتے ہیں، سر مجلس خود کو بڑا ثابت کرنے کے لئے نہایت ہی اوچھے قسم کے
حربے اختیار کرتے رہتے ہیں- کوئی خود کو بڑا اور (سینئر) ظاہر کرنے کے لئے
پہلے ہی نقیب مجلس کو اپنے ہاتھوں پہ چڑھا لے گا کہ مجھے فلاں شاعر کے بعد
پڑھوانا، کوئی کہے گا کہ مجھے مسند صدارت پہ بٹھایا جائے، کوئی خود کو خواہ
مخواہ ہمہ دان ثابت کرنے لئے صاحبان علم و فن اور اہل فکر و تدبر کے مفاہیم
پر اپنی کم علمی و فطری جہالت کے ساتھ ساتھ نا آشنائی فن کے سبب نازیبا
جملے کسے گا اور ہتک آمیز قہقہوں سے فضائے مجلس پراگندہ کرنے کی گھٹیا
حرکات کرے گا وغیرہ وغیرہ-
شاید اسی لئے ہمارے فاضل بزرگ دوست مولوی صدیق تاثیر صاحب مدظلہ (شیخو پورہ)
نے کہا تھا کہ
تاثیر ! نہ پچھ کر دے جو کھیکھن شاعر
جب ایسے حضرات اپنے قبیلے کے درمیان مدعی تصوف نظر آتے ہیں تو ان کی اس
جاہلانہ حماقت پر ہر بالغ نظر اور با شعور انسان کا دل کڑھتا ہے اور کف
افسوس ملنے کو جی چاہتا ہے-
کیونکہ قارئین کرام ! تصوف وہ فردوس تخیل ہے جس کے پاکیزہ، طیب و طاہر
جلوؤں کا نظارہ للن تنالوا البر حتٰی تنفقوا مما تحبون کی خار دار اور
دشوار گزار گھاٹیوں کے جاں گسل مراحل سے گزر کر ہی کیا جا سکتا ہے-
آسماں سے کوئی پوچھے کہ تنک تاب ہلال
کن مراحل سے گزرتا ہے قمر ہونے تک
یا پھر با الفاظ دیگر
نظارہ مہ وشاں سے پہلے
تطہیر نگاہ چاہتا ہوں
تطہیر نگاہ کے ان روح گسل و جاں گداز مراحل سے استقامے سے گزرنا ہی تصوف
ہے-
تصوف عرفان الٰہی کا وہ بحر بہکراں جو دین اسلام کی اصل (روح) ہے اور اس کی
اساس کم و بیش دس ، گیارہ بنیادی ارکان پر مشتمل ہے-
١- تجرید توحید ٢ - توبہ و رجا ٣- خوف و تقویٰ
٤- اخلاصو یقین ٥- صبر وشکر ٦- تواضع
٧- رضاو توکل ٨- ذکر و فکر ٩- وجد و سماع
١٠- فقر و استغنا ١١- غلبہء حال (مشاہدہ) وغیرہ
ان اراکین کی اگر نہایت اختصار سے بھی تشریح کی جائے تو پھر بھی کئی ایک
دفتر درکار ہوں گے- محولہ بالا حضرات میں سے آجکل (خواہ وہ کسی بھی شعبہء
حیات سے متعلق ہو) کون ایسا ہے جو ان علوم و فنون پر کما حقہ کامل دسترس
رکھتا ہے-
ہزار نکتہء باریک تر ز مو اینجاست
نہ ہر کہ سر بہ تراشد قلندری داند
قارئین کرام !
دراصل انبیاء و مرسلین علیھم السلام کی روایات مسنون کی کامل پاسداری کا
نام تصوف ہے- دائرہ تصوف میں داخل ہر کر انسان کو دیکھتی آنکھوں نار نمرود
میں خود چھلانگ لگانی پڑتی ہے- رضائے مولٰی کے لئے اپنے ہاتھوں اپنے بچے
ذبح کرنے پڑھتے ہیں- اعلائے کلمتہ اللہ کے باب میں سر نوک سناں قرآن سنانا
پڑتا ہے- سر دار بانگ انا الحق بلند کرنی پڑتی ہے- یہ کوئی خالہ جی کا گھر
نہیں کہ جس ایرے غیرے نتھو خیرے کا دل کرے، منہ اٹھا کر خانہء تصوف میں
ڈاخل ہو جائے- پاکی ، پلیتی کی اقسام جانتا ہی نہ ہو اور صوفی بنا پھرے-
تصوف صفائے باطن سے متعلق ہے اور صفائے باطن خود سوزی کے سوا کچھ بھی نہیں-
یعنی مرنے سے پہلے اپنے آپ کو مار دینا- اور یہ نہایت ہی کٹھن اور پرخطر
منزل ہے- ہوائے نفس کا خاتمہ کر کے خود کو خالصتا اس مالک و مالائے حقیقی
کے سپرد کر دینا ہی اساس تصوف ہے- توکل اختیار کرنا اور رضا جوئی کرنا- جن
انسان کا ظاہر و باطن (قل ان الصلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب
العالمین) کے معیار پہ پورا اتر رہا ہے تب وہ خود کو صوفی کہلوانے کا مستحق
ہے-
قارئین کرام !
ایک مرتبہ شیخ الاسلام و المسلمین ، سلطان الزاھدین، فرید العصر حضرت بابا
فرید الدین مسعود فاروقی اجودھنی گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کے عرس مبارک کے
موقع پر مجذوب دوراں، فقیر صدق طینت بابا فضل دین چشتی کلیامی علیہ الرحمتہ
نے فاتح قادیانیت، قاطع مرزائیت، آفتاب شریعت، مہتاب طریقت ، کاشف سر حقیقت
، نائب غوث الوریٰ، اعلٰحضرت گولڑوی حضور قبلہ ء عالم پیر سیدنا مہر علی
شاہ گیلانی قادری چشتی نظامی قدس سرہ السامی کے کان مبارک میں سر گوشی کرتے
ہوئے فرمایا ( پیر جی ! درویشی خلاف نفس کا نام ہے ، مرن توں پہلاں مریئے
تاں گل بن دی) یہ الفاظ انھوں نے اپنی پوٹھواری زبان میں کہے تھے اور اس
بات کا ذکر اکثر قبلہء عالم علیہ الرحمتہ فرماتے رہے تھے-
لہٰذا ثابت ہوا کہ جس طرح دیگر شعبہ ء حیات کے متعلق علوم و فنون کے کچھ
قواعد و ضوابط ہوتے ہیں - اسی طرح دنیائے شریعت و طریقت کے بھی کچھ اصول
ہیں جنھیں اہل حق علماء و مشائخ جو ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
سنت اور اسلاف کے طریق صالح پر کار بند ہوں) کی صحبت اختیار کر کے سیکھا
اور سمجھا جا سکتا ہے-
اسی لئے اللہ رب العالمین نے فرمایا تھا کہ کونوا مع الصادقین یعنی
صحبت صالح ترا صالح کند
صحبت طالح ترا طالح کند |