رحمت ومغفرت اور نیکیوں کا موسم
بہار
روزہ: اسلام کا بنیادی رکن اوراہم ترین عبادت
ماہِ رمضان کا چاندظاہرہوافضل کی بدلیاںچارسوچھاگئیں
رحمت کبریاجوش پرآگئی بارشیںفیض وعرفان برساگئیں
رمضان المبارک نواںقمری مہینہ ہے جو رحمت ومغفرت اور نجات کا مہینہ اور
نیکیوں کا موسم بہارہے۔اسی ماہ مقدس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پرروزے
فرض کئے ہیں۔ روزہ! اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک بنیادی رکن اور
تےسرا فریضہ ہے۔ اسلام میں روزوں کی فرضیت کا حکم 2 ہجری میں نازل ہوا۔روزہ
ایک ایسی عبادت ہے جو امت مسلمہ کے ساتھ ساتھ تمام سابقہ امتوں پر بھی فرض
تھی، اگرچہ ان روزوں کی تعداد اور کیفیت جدا جداتھی۔
صوم کا معنیٰ و مفہوم
روزے کو عربی زبان میں ”صوم“ کہتے ہیں اور” صوم“ کے لغوی معنیٰ ہیں: ”رکنا“....
اور اصطلاحِ شریعت (Term of Sharia)میں صبح صادق کے طلوع ہونے سے لے کر
سورج کے غروب ہونے تک اللہ تعالیٰ کے قرب اور اجرو ثواب کی نیت سے قصداً
کھانے ،پینے اور نفسانی خواہشات سے رُکے رہنے کا نام ”روزہ“ (Fasting) ہے۔
روزہ کی فرضیت
روزہ!اسلام کا چوتھابنیادی رکن اور اہم ترین عبادت ہے۔ روزہ ہر عاقل و بالغ
مسلما ن مرو وعورت پر فرض ہے۔روزوں کی فرضیت قرآن کریم،احادیث مبارکہ اور
اجماعِ امت تینوں سے ثابت ہے۔روزے کی فرضیت، وجوب اور اہمیت کے حوالے سے
قرآنِ مجیدمیں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یٰاَ یُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُوا کُتِبَ عَلَیکُمُ الصِّیَامَ کَمَا کُتِبَ
عَلَی الَّذِینَ مِن قَبلِکُم لَعَلَّکُم تَتَّقُونَo
ترجمہ: ”اے ایمان والو! تم پر (پورے ماہِ رمضان المبارک کے) روزے رکھنا فرض
کئے گئے ہیں، جیسے تم سے پہلے (امت کے) لوگوں پر فرض کئے گئے تھے (یہ روزے
تم پر اس لئے فرض کئے گئے ہیں )تا کہ تم پرہیز گار بن جاﺅ۔“(سورةالبقرہ:آیت
نمبر 183)
اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کے روزوں کے حکم کیلئے”کُتِبَ عَلَیکُمُ
الصِّیَام“کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں اور”کُتِبَ “کا لفظ فرضےت کیلئے
استعمال ہوتا ہے۔علاوہ ازیںروزوں کی فرضےت کے متعلق ایک اورمقام
پرارشادباری تعالیٰ ہے:
﴾ فَمَن شَھِدَ مِنکُمُ الشَّھرَ فَلیَصُمہُ۔ ﴿
ترجمہ: ”تم میں سے جو شخص اس مہےنے(رمضان) کو پائے تو اس پر لازم ہے کہ اس
کے روزے رکھے“۔ (سورة البقرہ: آیت185)
رمضان المبارک ....رحمتوں اوربرکتوں کامہینہ
اللہ تعالیٰ نے روزوں کی عبادت کیلئے رمضان المبارک کا مہینہ مختص فرماکر
اس کی فضیلت واہمیت کومزید بڑھا دیا ہے، کیونکہ رمضان المبارک وہ مہینہ ہے
جس میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں، برکتوں ، نعمتوں، سعادتوں اور انواروتجلیات
کا نزول عام دنوں کی بہ نسبت بہت زیادہ ہوااورہوتاہے، مثلاً
vرمضان المبارک وہ مہینا ہے جس میںنفل کاثواب فرض کے برابراور ایک فرض
کاثواب سترفرائض کے برابراورنیک اعمال کااجروثواب عام دنوں کے مقابلے میں
ستر(۰۷)گنا ز یادہ کردیا جاتا ہے۔
vرمضان المبارک وہ مہینا ہے،جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کا(یکبارگی)
نزول فرماکرمسلمانوں پر فضل عظیم اوراحسان فرمایاہے ۔
vرمضان المبارک وہ مہینا ہے،جس میںصاحبانِ ایمان نمازِ تراویح کی صورت میں
دوعبادتوں کی سعادت حاصل کرتے ہیں یعنی ایک تونمازِتراویح ادا کرتے ہیں اور
دوسرا اس نمازمیں قرآن پاک کی تلاوت اور سماعت کرتے ہیں۔
vرمضان المبارک وہ مہینا ہے،جس کی8تاریخ کواللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو
کفار کے خلاف بغیر ہتھیاراٹھائے اورجنگ کئے فتح مبین یعنی”فتح
مکہ“عطافرمائی تھی۔
vرمضان المبارک وہ مہینا ہے،جس کی17تاریخ کوحق وباطل کا پہلاعظیم معرکہ
”غزوئہ بدر“ پیش آیاتھا، جس میں مسلمانوں کوتاریخی فتح اورکفارکوذلت آمیز
شکست ہوئی تھی۔
vرمضان المبارک وہ مہینا ہے،جس کے آخری عشرہ میں”اعتکاف“ کی عبادت اداکی
جاتی ہے ،جس سے معتکف مسلمان نیکیوںسے مالا مال ہوجاتے ہیں۔
vرمضان المبارک وہ مہینا ہے،جس میں اہل ایمان سب سے زیادہ صدقہ وخیرات فطرہ
اورزکوٰة ادا کرتے ہیں اور اس طرح اپنے غرےب مسلمان بھائیوں کے لئےخوشیوں
کا سامان کرکے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوشش کرتےہیں۔
vرمضان المبارک وہ مہینا ہے، جس کے آخری عشرے کی طاق راتوںمیںسے ایک طاق
رات (خصوصاً ستائیسویںشب)کوشب قدرآتی ہے، جس کی عبادت و بندگی کا ثواب ہزار
مہینوں (تقریباً83سال اور4ماہ) کی عبادت سے بھی افضل واعلیٰ اوربرترہے۔
vرمضان المبارک وہ مہینا ہے،جس کی27تاریخ کو اللہ تعالیٰ نے اہل پاکستان کو
انگریزکی غلامی ومحکومی سے نجات دے کر اپنا الگ وطن ”پاکستان“عطافرمایا۔
رمضان المبارک کی فضیلت واہمیت
رمضان المبارک کی فضیلت واہمیت کے حوالے سے حضرت ابو ہرےرة رضی اللہ عنہ
بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشادفرمایا:
عن ابی ھریرة قال قال رسول اللہﷺ اذا دخل رمضان فتحت ابواب السماءوفی روایة
فتحت ابواب الجنة وغلقت ابواب جھنم وسلسلت الشیاطین وفی روایة فتحت ابواب
الرحمة۔(متفق علیہ)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایاکہ ”جب رمضان آتاہے تو آسمان کے دروازے
کھول دئیے جاتے ہیں اور ایک روایت کے مطابق جنت کے دروازے کھول دئے جائے
ہیں اورجہنم کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں اور شیاطین زنجیروں میں جکڑ کر
قید کر دئے جاتے ہیں۔جبکہ ایک روایت میں آتا ہے کہ رحمت کے دروازے کھول دئے
جاتے ہیں“۔(صحیح بخاری،صحیح مسلم کتاب الصیام)
vحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا
کہ:”جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو شیاطین اور وہ سرکش جن باندھ دیے جاتے
ہیں اوردوزخ کے دروازے بند کردئے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ
کھولانہیںجاتااورجنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اوران میںسے کوئی دروازہ
بند نہیں کیاجاتا ہے۔ اور پکارنے والاپکارتا ہے کہ اے بھلائی کے طالب آگے
بڑھ اور اے برائی کے طالب رک جا اور اللہ کی طرف سے بہت سے لوگ جہنم کی آگ
سے نجات پاتے ہیں اوریہ ہررات کوہوتاہے۔ (جامع ترمذی،سنن ابن ماجہ”کتاب
الصوم“)
vحضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد
فرمایاکہ:”اگر میری امت کو معلوم ہوتا کہ رمضان کیا چیز (اوراس کی کیا
اہمیت)ہے تو میری امت تمنا کرتی کہ (کاش) پورا سال ہی رمضان ہو۔(ابن خزیمہ)
روزہ بہت ہی اہم عبادت ہے۔ اگر کوئی شخص بغیر عذر شرعی کے ایک روزہ بھی ترک
کردے تو فرمان نبویﷺ کے مطابق اگروہ ساری زندگی بھی روزے رکھے توبھی اس ایک
فرض روزے کی قضا نہیں بن سکتی۔
vحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
عن ابی ھریرة قال رسول اللہ ﷺ من افطر یومامن رمضان من غےررخصة ولا مرض لم
یقض عنہ صوم الدھر کلہ وان صامہ
ترجمہ: جو شخص رمضان میں ایک دن بغیر رخصت اور مرض کے روزہ ترک کر دے تو
اگر تمام عمر بھی روزے رکھے تو اس ایک روزہ کی قضا نہیں بن سکتی“۔(جامع
ترمذی)
گناہوں کی بخشش اور رحمتوں کی بارش
ایک حدیث مبارک میں رسول اکرمﷺ نے فرمایا کہ:
﴾ مَن صَامَ رَمَضَانَ اِیمَاناً وَّ احتِسَابًاغُفِرَ لَہ مَا تَقَدَّ مَ
مِن ذَنبِہ۔ ﴿
(متفق علیہ،کتاب الصوم)
ترجمہ: ”جس شخص نے ایمان اجروثواب کی نیت سے ماہ رمضان المبارک کے روزے
رکھے ، اس کے پچھلے سارے گناہ بخش دئے جائیں گے“۔
اسی طرح ایک اور حدیث قدسی میں حضور سید عالمﷺ فرماتے ہیں کہ انسان کے ہر
نیک عمل کا اجروثواب دس سے لے کر سات سو گنا تک دیاجاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ
کافرمان ہے کہ....”روزہ صرف اورصرف میرے لیے ہے اور میں خودہی اس کا اجر
دوں گا۔ جب کہ دوسری روایت کے مطابق فرمانِ خداوندی ہے کہ:”روزہ میرے لئے
ہے اور اس کا اجر میں خود ہوں“۔(مشکوٰة المصابیح)
روزہ دارکیلئے بابِ جنت”ریّان“
ایک حدیث مبارک میںفرمان رسول ﷺہے کہ روزہ داروں کیلئے جنت میں مخصوص
دروازہ ہو گاجس سے صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے۔چنانچہ حضرت سہل بن سعدرضی
اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
عن سہل بن سعد قال قال رسول اللہ ﷺفی الجنة ثمانیة ابواب منھا باب یسمی
الریان لایدخلہ الاالصائمین۔(متفق علیہ)
ترجمہ: رسول اللہﷺنے ارشادفرمایاکہ:” جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے ایک
دروازے کو”ریّان“کہتے ہیں،ا س دروازے سے (جنت میں)صرف روزہ رکھنے والے ہی
داخل ہوں گے۔
روزہ دار کیلئے دو عظیم خوشیاں
ایک حدیث میںرسول اللہﷺ روزہ کی اہمیت اوراس پر ملنے والی خوشیاں بیان کرتے
ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ:
﴾ لِلصَّائِمِ فَرحَتَانِ، فَرحَة عِندَ فِطرِہ وَ فَر حَة عِندَ لِقَائِ
رَبِّہ۔ ﴿
ترجمہ:”روزہ دار کیلئے دو خوشیاں ہیں، ایک خوشی روزہ افطار کرتے وقت اور
ایک خوشی(روز قیامت) اپنے رب سے ملاقات کے وقت ہوگی“۔(مشکوٰة المصابیح،کتاب
الصوم)
اس حدیث مبارک میں روزہ دار کیلئے دو عظیم اور انمول خوشیوں کا ذکر کیا گیا
ہے۔ ایک خوشی تو روزہ دار کوہر روز غروب ِآفتاب کے وقت روزہ افطار کرتے وقت
ملتی ہے اور دوسری خوشی روزِ قیامت اﷲ تعالیٰ سے ملاقات کے وقت ملے گی، جس
کی اﷲ اور رسول اﷲﷺ نے بشارت دی ہوئی ہے۔
پہلی اورافطار کی خوشی
روزہ دار کو جو خوشی افطار کرتے وقت ہوتی ہے وہ دو طرح سے ہوتی ہے، ایک تو
اس طرح کہ سارا دن بھوکا پیاسا رہنے کی وجہ سے انسان اپنے جسم وجاںمیں کسی
قدر کمزوری محسوس کرتا ہے اور افطار کرتے ہی اس کے جسم میں دوبارہ سے نئی
طاقت اورتوانائی آجاتی ہے، جس سے اسے انتہائی خوشی ہوتی ہے۔
دوسری خوشی اس طرح ہوتی ہے کہ اﷲتعالیٰ نے روزہ دار کو بھوک پیاس برداشت
کرنے کی قوت و طاقت عطاءکی اور اسے آنکھوں، کانوں اور ہاتھوں کی برائی کرنے
سے روکا اور یوں اس کا روزہ مکمل ہوگیا۔ ان دونوں خوشیوں کے امتزاج سے جو
بڑی خوشی بنتی ہے، اسے افطاری کی خوشی کہا گیا ہے۔
دوسری اورملاقاتِ رب کی خوشی
حدیث مبارک کے مطابق روزہ دار کو دوسری خوشی تب حاصل ہوگی، جب وہ قیامت کے
دن اپنے اﷲ تعالیٰ سے ملاقات کرے گا۔یہ خوشی کتنی عظیم اور انمول ہوگی اور
کیسی ہوگی، یہ اﷲ اور اس کا رسولﷺ ہی بہتر جانتے ہیں، ہاں البتہ یہ ضرور ہے
کہ ایسی خوشی انسان نے اس دنیا میں کبھی محسوس نہیں کی ہوگی۔
روزہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں روز ہ دارکیلئے شفاعت وسفارش کرے گا۔
چنانچہ عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورسیدعالم ﷺ نے فر
ما یا کہ :
”روزے اور قرآن دونوں بندے کیلئے شفاعت (سفارش) کرےں گے۔ روزے عرض کریں گے
:”اے پروردگار ! میں نے اس بندے کو کھانے پےنے اور نفس کی خواہش پورا کرنے
سے روکے رکھا تھا ،آج میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما.... اور قرآن کہے
گا کہ” میں نے اس بندے کو رات کو سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا تھا، آج
اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما،چنانچہ روزہ اور قرآن دونوں کی سفارش
بندے کے حق میں قبول فرمائی جائے گی“۔(شعب الا یمان للبےہقی،مشکوٰة
المصابیح)
رمضان المبارک:نیکیوں کا موسم بہار
روزے کو دینی، روحانی، اخلاقی اور معاشرتی لحاظ سے بڑی اہمیت حاصل ہے، سب
سے پہلے تو اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوجاتاہے کہ اﷲتعالیٰ نے اسے
ہر امت کے لوگوںپر لازم رکھا ہے۔ روزہ سے مسلم معاشرہ میں ایک نہایت پاکیزہ
اور ایمان افروز کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ دن بھر روزہ سے رہنا....کھانے پینے
اورازدواجی عمل سے پرہیزکرنا.... گناہوں، لغویات اور برائیوں سے اجتناب
کرنا .... نیکیوں اور خیرو بھلائی میں سبقت کرنا.... زکوٰة وصدقات اور
عطیات وخیرات کی ادائیگی کرنا .... غریبوں اور ناداروں سے ہمدردی وغمگساری
کرنا....تلاوتِ قرآنِ مجیدکرنا.... رات کو قیام اور صلوٰة التراویح کی
ادائیگی سے پورامعاشرتی ماحول بڑا پاکیزہ اورمثالی بن جاتاہے اوریہ پورا
ماہِ مقدس رحمت و مغفرت ، عبادات،نیکیوں اور خیروبھلائی کا موسمِ بہار بن
جاتاہے۔
روزہ انسانی ہمدردی اور اسلامی اخوت کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ اسی لئے رسول
اﷲﷺ نے ماہ رمضان کو ”شہر مواسات“ یعنی” ہمدردی کا مہینہ“ قرار دیا ہے۔ صبح
سے شام تک بھوکا پیاسا رہ کر انسان کے دل میں معاشرے کے تنگ دست اور مفلس
لوگوں کے دکھوں کا احساس پیدا ہوتا ہے اور اس طرح اُن کی امداد کا جذبہ
بیدار ہوتاہے۔
ایک حدیث قدسی میںرسول اللہ ﷺکا فرمان ہے کہ اس مہینے میں اﷲ تعالیٰ خود
فرماتا ہے کہ: ”روزہ! میرے لئے ہے اور اس کا اجر بھی میں خود ہی دوں گا اور
آپ ﷺنے فرما یا کہ: مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے،
بلا شبہ روزہ دار کے منہہ کی مہک(بُو) اﷲتعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے
زیادہ اچھی ہے“۔(صحیح بخاری،صحیح مسلم)
روزے کا مقصداورفلسفہ
روزے کو دینی، روحانی، اخلاقی اور معاشرتی لحاظ سے بڑی اہمیت حاصل ہے اور
روزے کی اصل غرض وغایت اورمقصدانسان میں تقویٰ (پرہیز گاری) پیدا کرنا ہے۔
حضور سید عالمﷺ کا فرمان عالیشان ہے کہ....”جس نے جھوٹ بولنا اور اس پر عمل
کرنا نہیں چھوڑا اگر اس نے کھانا پینا ترک کر دیا تو اللہ عزوجل کے نزدیک
اس کی کوئی قدر نہیں۔(مشکوٰةالمصابیح)
روزے کی حالت میں ہرقسم کے گناہوں کے ارتکاب سے بالعموم اور جھوٹ وغیبت سے
بالخصوص اجتناب کرناچاہئے ورنہ روزے کی برکتیں زائل ہوجاتی ہیں۔حدیث شریف
میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:” الصیام جنة مالم یخرقھا“ روزہ ڈھال ہے جب تک
اس کو پھاڑ نہ دیا جائے۔ آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ روزہ کس چیز سے
پھٹ جاتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایاکہ جھوٹ اور غیبت سے۔
اب اگر کوئی شخص روزہ رکھ کربھی جھوٹ، غیبت اور بد دیانتی کا مرتکب رہے تو
یہ ایسا ہی کہ کوئی شخص ایک طرف تو ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ورزش بھی کرتا
ہے دوا بھی کھاتا ہے مگرڈاکٹرنے جس چیز سے پرہیز کرنے کاکہا تھااس وہ پرہیز
نہیں کرتا یا جس سبب کی بناءپر بیماری لاحق ہوئی ہے وہ سبب نہیں چھوڑاتو
کیا ایسا شخص مطلوبہ نتائج حاصل کرسکے گا؟ اوراس بیماری صحت یاب ہوسکے گا؟
ہر گز نہیں۔
روزے کی غرض وغایت اورمقصد کے حوالے سے مفسر قرآن حضرت علامہ پیر محمدکرم
شاہ صاحب الازہری رحمة اللہ علیہ رقمطراز ہیں :
”روزے کا مقصد اعلیٰ اور اس سخت ریاضت کا پھل یہ ہے کہ تم متقی (Pious) اور
پاک باز بن جاﺅ۔ اب جب کہ بعض حلال چیزیں بھی اپنے ربّ کے حکم سے تم نے ترک
کر دیں تو وہ چیزیں جن کو تمھارے رب نے ہمیشہ ہمیشہ کےلئے حرام کر دیا ہے
(چوری، رشوت، سود، جھوٹ، غیبت، چغلی، بددیانتی وغیرہ) اگر یہ مراقبہ پختہ
ہوجائے تو کیا تم ان کا ارتکاب کر سکتے ہو، ہر گز نہیں؟ مہینہ بھر کی اس
مشق( Excercise )کا مقصد یہی ہے کہ تم سال کے باقی گیارہ ماہ بھی اللہ
تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور ان برائیوں سے دور رہو“۔(تفسیر ضیاءالقرآن)
روزہ ایک جامع عبادت ہے۔ دیگر عبادات میں ریا کا شائبہ ہے ، مگر روزہ
میںریاکاقطعاً شائبہ نہیں ہوتااورعبادتِ روزہ مخلوق کی طرف سے اپنے خالق کی
بارگاہ میں ایک خاموش نذرانہ ہے ۔روزہ اﷲ تعالیٰ کی ذات پر پختہ یقین اور
توحید کامل کا آئینہ دار ہے۔ بھوک اور پیاس کی شدت کے باوجود انسان تنہائی
میں بھی کھانے پےنے کی پسندیدہ چیزوں کے قریب نہیں پھٹکتا، کیوں کہ وہ
جانتا ہے کہ میرا خالق و مالک اور علیم و خبیر رب مجھے ہروقت اورہرجگہ دیکھ
رہا ہے۔
روزے سے انسان کی صحت بھی بہتر ہو جاتی ہے اور بعض بیماریوں کا بھی اس سے
ازالہ ہوتا ہے۔ روزے کے دوران انسان دن رات ایک نظم و ضبط کے پابند ہوجاتا
ہے ،مثلاًکھانا پینا کب شروع کیا جائے اور کب ختم کردیا جائے اور پھر
دوبارہ کس وقت کھایا جائے۔ اپنی بھوک وپیاس پر قابو پانا، زبان کو قابو میں
رکھنا۔نفسانی خواہشات پر کنٹرول، کب سونا ہے اور کب جاگنا۔ ان سب باتوں سے
انسان کو ضبطِ نفس اورپابندی وقت کی تربیت حاصل ہوتی ہے۔
سحروافطارمیںبرکت ہے
روزہ رکھنے سے پہلے سحری ضرورکرنی چاہئے کیونکہ سحری میں برکت ہے ۔ اورحدیث
مبارک میںسحری کومسلمانوں اوراہل کتاب کے روزہ کے درمیان فرق قرار
دیاگیاہے۔حضرت انس ابن مالک روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایاکہ
(تَسَحَّرُوافَاِنَّ فِی السُّحُورِبَرَکَةُ) ”سحری کھایا کرو کیونکہ سحری
میں برکت ہے“۔
اسی طرح افطار کے حوالے سے ایک حدیث میں فرمایاکہ” لوگ اس وقت تک بھلائی کے
ساتھ رہیں گے جب تک وہ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے“۔
ان احادیث سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہوجائے کہ سحری روزہ کےلئے شرط ہے،
ایسا نہیں ہے،سحری کے بغیر بھی روزہ رکھاجاسکتاہے اورروزہ افطارکرتے وقت
بہت زیادہ دیرنہیں کرنی چاہئے بلکہ جوں ہی سورج غروب ہوجائے توافطارکرلینا
چاہئے۔
کھجور سے روزہ افطار کرنے میںزیادہ ثواب ہے، اگر کھجور نہ مل سکے تو پانی
سے افطار کرناچاہئے۔ حضور سید عالم ﷺکا ارشادِ گرامی ہے :
اذاافطراحدکم فلیفطرعلی تمرفانہ برکة فان لم یجد فلیفطرعلی ماہ فانہ
طھور۔(مشکوٰة)
ترجمہ: ” جب تم میں سے کوئی ایک روزہ افطار کرے تواسے چاہئے کہ کھجور سے
افطار کرے کیونکہ اس میں برکت ہے اور اگر کھجورنہ پائے تو پانی سے افطار
کرے کیونکہ وہ پاک کرنے والا ہے۔حضور سید المرسلین ﷺکا بھی یہی معمول تھا
۔چنانچہ حدیث شریف میں ہے :
عن انس قال کان النبی ﷺیفطرقبل ان یصلی علی رطبات فان لم تکن علی تمیرات
فان لم تکن حساحسوات من مائ۔ (مشکوٰة)
ترجمہ: ”حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی پاک ﷺ نماز سے پہلے
ترکھجوروں سے افطار فرماتے ،اگرتر کھجوریں نہ ہوتیں تو خشک کھجوروں سے اور
اگر خشک کھجوریں بھی نہ ہوتیں تو پانی کے چند گھونٹ بھر لیتے“۔
روزہ کافدیہ
ایسا ضعیف العمریا بیمار شخص جس میں نہ اب روزہ رکھنے کی قدرت ہے اور نہ ہی
بظاہرآئندہ اس کے اتنے صحت مند ہونے کی امید ہے کہ وہ روزہ رکھ سکے گاتو
ایسی صورت میں وہ ہر روزہ کے بدلے فدیہ دے اور فدیہ کی مقدارفی روزہ ایک
صدقہ فطر کے برابرہے۔
صدقہ فطر
رسول اکرم ﷺ کا ارشادِگرامی ہے کہ بندے کا روزہ زمین وآسمان کے درمیان معلق
رہتا ہے( یعنی شرفِ قبولیت نہیں پاتا)جب تک کہ وہ بندہ صدقہ فطرادا نہ
کردے۔
صدقہ فطر میں تنوع
جس طرح قربانی کے جانوروںمیں نبی کریم ﷺنے تنوع کو مشروع ومسنون فرمایا۔
اسی طرح رسول اکرم ﷺنے صدقہ فطر میں بھی تنوع کو مشروع فرمایا ہے۔حدیث ہے،
حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں
ہم ایک صاع(چار کلو گرام) طعام (صدقہ فطر) ادا کرتے تھے۔ یا ایک صاع
(چارکلو) کھجور یں یا ایک صاع (چارکلو) جَو یا ایک صاع (چار کلو) کشمش، جب
حضرت معاویہ کا زمانہ آیاتو گندم آگےا اور انہوں نے کہا میری رائے میں نصف
صاع (دو کلو) گندم ان کے چار کلو کے برابر ہے۔ (صحیح بخاری،سنن ابوداﺅد،سنن
ترمذی)
علامہ غلام رسول سعیدی صاحب رقمطراز ہیں: ”جس طرح قربانی کے جانوروں
میںتنوع ہے اور ان کی کئی اقسام ہیں اس طرح صدقہ فطر میں بھی تنوع ہے اوراس
کی کئی اقسام ہیں۔اور جو لوگ (مال ودولت کے حساب سے) جس حیثیت کے ہوں وہ
اسی حیثیت سے صدقہ فطر ادا کریں۔ مثلاً جو کروڑ پتی لوگ ہیں وہ چار کلو
پنیر کے حساب سے صدقہ فطر ادا کریں اور جو لکھ پتی ہیں وہ چار کلو کشمش کے
حساب سے اور جو ہزاروں روپے کی آمدنی والے ہیں وہ چار کلو کھجور اور
سینکڑوں کی آمدنی والے دو کلو گندم کے حساب سے صدقہ فطرادا کریں۔(تبیان
القرآن جلد7صفحہ761)
جو شخص رمضان اور روزے کے اس قدر فوائد و برکات سے واقف ہو اور ان سے
محرومی اختیار کرلے۔ اس سے زیادہ بدبخت و بد نصیب اورمحروم شخص کو ن ہو
سکتا ہے۔لہٰذاہمیںچاہئے کہ رمضان المبارک اور اس کے روزوں کا پورے ذوق و
شوق سے اہتمام کریں اور اس سلسلے میں سستی اور بے پرواہی دکھا کر اس کی
برکتوں سے اپنے آپ کو محروم نہ کرلیں۔
آزادی پاکستان....عطیہ رمضان
رمضان المبارک میں اہل ایمان کو جہاںنیکیوں کے دوسرے بہت سارے مواقع
میسرہوتے ہیں اورانہیںبے شماراجروثواب اور انعامات سے نوازاجاتا ہے، وہاں
اہل پاکستان کیلئے اللہ تعالیٰ کا خاص انعام یہ بھی ہواہے کہ اللہ تعالیٰ
نے 27 رمضان المبارک /14اگست 1947کومسلمانوں کو انگریزوں کی غلامی ومحکومی
سے نجات دے کرعلیحدہ وطن پاکستان عطافرمایا۔یہ وہ عظیم اور تاریخی دن ہے جب
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کوانگریزوں کی 2سوسالہ غلامی اور محکومی سے نجات
عطا فرمائی۔
رمضان المبارک کی 27ویں شب یعنی لیلة القدرکی عظیم رات کو برصغیرکے
مسلمانوں کی برسہابرس کی صبرآزمااور طویل جدوجہد بالآخرکامیابی سے
ہمکنارہوئی اور مسلمانوں کوکفراورظلم کی حکومت اور غلامی سے نجات
ملی۔اپناالگ وطن حاصل کرنے میںبےشمار شہیدوں کا خون رنگ لایا۔لاکھوں صاحبان
ایمان کی دعائیں قبول ہوئیں اور کروڑوں لوگوں کا الگ وطن حاصل کرنے کاخواب
شرمندئہ تعبیر ہوا اور دنیا کے نقشے پرپاکستان وجود میں آگیا۔جس وقت اسلامی
جمہوریہ پاکستان معرضِ وجود میں آیا،وہ وقت،وہ دن اور وہ رات رمضان المبارک
کی عظیم رات تھی لیکن افسوس کہ ہم نے اپنے لمحہ آزادی کو 27رمضان المبارک
کے بجائے 14اگست سے وابستہ کردیا اور اہل فکر کہتے ہیں کہ ہم رمضان المبارک
سے کیا دورہوئے کہ منزلِ اسلام سے دورہوتے گئے اور آج اسے پانے کیلئے بھٹک
رہے ہیں۔ |