ایک شادی شدہ بال بچے دار شخص نے کسی دوسری عورت کے چکر میں پڑ کر اپنی بہت
نیک خدمت گزار اور وفا شعار بیوی کو طلاق دے دی جو پہلے ہی ایکبار بیوہ ہو
چکی تھی اور پہلی شادی سے اس کے دو بچے تھے اور پھر اس والے شوہر سے بھی دو
بچے ہوئے ۔ بعد میں اس بیچاری نے کن مشقتوں سے تن تنہا اپنے ان چاروں بچوں
کو پالا کن کن مصائب و مشکلات کا سامنا و مقابلہ کیا وہ ایک الگ داستان ہے
۔ پندرہ سال گزر گئے وہ شخص سخت بیمار پڑ گیا نزع کا عالم طاری ہو گیا مگر
جان نکلتی نہ تھی ۔ اسی نیم جانکنی کی کیفیت میں دو تین دن گزر گئے تو پھر
اس کا چھوٹا بھائی اپنی سابقہ بھابھی کے پاس آیا اور اس کے آگے ہاتھ جوڑ
دیئے کہ چل کر بھائی کو معاف کر دیں ۔ وہ ساتھ جانے اور اپنے سابقہ شوہر کا
سامنا کرنے پر راضی نہ تھی مگر اُس کا بھائی اِس کے پیر پڑنے کو ہو گیا تو
مجبوراً ساتھ چلی گئی اور اس شخص کے روبرو معافی کے الفاظ ادا کیے اس کے
صرف پندرہ منٹ بعد اس کی روح پرواز کر گئی ۔
دوسرا اسی سے کچھ ملتا جلتا سا قصہ کچھ اس طرح سے ہے کہ کسی لڑکی کی شادی
ہوئی تو اس کا شوہر ایک انتہائی ظالم غیرذمہ دار اور بددماغ آدمی نکلا اس
نے اپنی جہالت اور مار پیٹ سے بیوی بچوں کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی ۔ پورے
پچیس سال بعد جب سب بچے جوان ہو گئے اپنے پیروں اور ماں کی پشت پر کھڑے ہو
گئے تو اس نے شوہر سے طلاق لے لی ۔ وہ دینے پر راضی نہیں تھا بہت معافی
تلافی پر بھی اتر آیا مگر یہ کسی صورت نہیں مانی اور کہا کہ اب تک بچوں کی
خاطر برداشت کیا تھا اب تُو سونے چاندی کا بھی بن جا تو تیرا ساتھ مجھے
گوارا نہیں ۔ اور طلاق لے کر الگ گھر میں چلی گئی اتنا بڑا فیصلہ اس نے
بچوں کی حمایت اور رضامندی کے بغیر تو نہیں کیا ہو گا انہوں نے بھی بہت کچھ
اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو گا خود بھی بھگتا ہی ہو گا کہ وہ بھی اب باپ کو
برداشت کرنے پر تیار نہیں تھے ۔ یہ تو ایک غیرذمہ دار اور نکما شخص تھا ہی
اپنا گھر بھی نہیں بنایا تھا مشترکہ گھر میں ہی مقیم تھا بیوی بچوں کے چھوڑ
جانے کے بعد اس کا مقام گلی کے کتے سے بھی بدتر ہو گیا اس کی چارپائی کمرے
سے نکال کر گھر کی سیڑھیوں تلے ڈال دی گئی پھر وہ بہت سخت بیمار بھی پڑ گیا
کوئی ایسی تکلیف تھی کہ جھنجھلا کر اپنے بال نوچتا تھا اور خود اپنے ہاتھوں
کو دانتوں سے کاٹتا تھا جس سے جلد پر زخم پڑ جاتے تھے ۔ پھر ایک وقت ایسا
آیا کہ وہ سابقہ بیوی کا نام لے لے کر چلاتا تھا کہ اسے کہو کہ آ کر مجھے
معاف کر دے ۔ جب اس تک بات پہنچی تو اس نے کہا کہ میں نے معاف کیا میرے
اللہ نے معاف کیا مگر میں اس کے پاس نہیں جاؤں گی ۔ اور پورے خاندان کی
لاکھ منت سماجت کے باوجود اس نے جانے سے انکار کر دیا اور صاف کہا کہ وہ اب
میرے لئے نامحرم ہے اجنبی ہے اس کا میرا کوئی رشتہ نہیں آخر میں کیوں اس کے
پاس جاؤں؟ اور وہ شخص اسی طرح ایڑیاں رگڑتا رگڑتا طلاق کے صرف دو سال بعد
ایک بہت ہی عبرتناک موت سے ہمکنار ہؤا ۔
ہمارے معاشرے میں کمزوروں اور مجبوروں کے ساتھ ظلم زیادتی ناانصافی
بےایمانی ہراسانی اور طرح طرح سے درندگی و شقاوت و فرعونیت کی مثالیں قدم
قدم پر بکھری پڑی ملتی ہیں ۔ اپنے ذاتی مشاہدے کی بناء پر ہم مکافاتِ عمل
پر کوئی خاص یقین نہیں رکھتے مگر کبھی کبھی کوئی اکا دکا عبرت انگیز واقعہ
ہی ہم کو مطلق منکر ہونے سے بھی روکے رکھتا ہے ورنہ تو ہم نے زیادہ تر خوفِ
خدا سے عاری اور آخرت کی پوچھ پکڑ سے قطعی بےنیاز لوگوں کو خوب پھلتے
پھولتے اور عروج پاتے ہی دیکھا ہے کسی بھی مکافات و مؤاخذے کا سامنا کیے
بغیر وہ ٹھاٹ کی زندگی بسر کرتے ہیں اور باٹ کی موت مر جاتے ہیں ۔ ویسے بھی
جزا و سزا اسی دنیا میں ملنا ضروری نہیں ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے یومِ
حساب مقرر کر رکھا ہے مگر کبھی کبھی وہ ظالم کو اسی دنیا میں بھی نشانِ
عبرت بنا دیتا ہے جیسا کہ ہم نے اوپر دو واقعات کا ذکر کیا جو کہ حقیقی ہیں
فرضی نہیں ۔ کچھ لوگوں کی اللہ رسی ڈھیلی چھوڑتا ہے جو مہلت ملنے کے باوجود
ہدایت نہیں پکڑتے کیونکہ وہ آخرت کی پکڑ پر یقین نہیں رکھتے ۔
|