جب انسان نے اس کرہِ ارض پر قدم رکھا تھا تو دوسرے
انسانوں کو اپنا مطیع اور خاشیہ بردار بنانا اس کی جبلت میں تھا۔اسے
خودنمائی کا جو عظیم جوہر عطا کیا گیا تھا انسان نے اپنی حرص وہوس کی کشید
سے اس کے معنی بد ل دئیے اور اپنے ا صلی جو ہر کا رنگ اور ہیت بدل کر
دوسروں کو اپنا غلام بنانا شروع کر دیا۔ امریکہ کی پوری تاریخ دورِ غلامی
کی مکروہ افعال سے بھری پڑی ہے۔انسانی تخلیق کی بو قلمونیاں اگر چہ اس منفی
سوچ کی جلوہ نمایوں کی متقاضی نہیں تھیں لیکن پھر بھی انسان نے اپنی سوچ کو
اس ڈگر پر چلانے کی منصوبہ بندی کرنے کی طرح ڈالی تو اس کا کا فطری نتیجہ
انسانوں کے اندر خلیج و تفریق کا پیدا ہونا تھا۔یہ شائد اسی تفریق کا منطقی
نتیجہ تھا کہ مختلف اقوام ،قبائل،نسلوں ،جتھوں ،گروہوں اور برادریوں نے
دوسرے انسانوں کو خود سے کمتر سمجھ کر ان پر اپنی برتری کا سکہ جمانے کی
کاوشیں شروع کر دیں۔جنگ وجدل اور مخاصمت نے مختلف قبائل کے درمیان ایک ایسی
آگ کو ہوا دی جو قرن ہا قرن سے انسانوں کی یکجہتی،اس کی ایکتا، اس کی
مساوات،اس کی برابری ،اس کے تقدس اور اس کے احترام کے لئے سمِ قاتل بن گئی
۔طاقتور اقوام نے کمزو رو نخیف اقوام کو اپنا غلام بنانے کے لئے توسیع
پسندی کی شمشیر سے انکا وہ حشر کیا کہ ان کے خونِ نا حق سے دریاؤں کا پانی
سرخ ہو گیا۔ تاریخ کے پنوں سے نمرود، فرعون،شداد، بخت نصر،چنگیز خان ،
ہلاکو خان،روڈلف ہٹلر اور مسولینی جیسے بے رحم ،قاتل اور سفاک حکمرانوں نے
پوری انسانیت کو اپنے قدموں تلے روندھنے کا بیڑہ اٹھا یا ۔ ویسے تو ایسے
فاتحین کی ایک طویل فہرست ہے جن کی شمشیریں انسانی خون سے رنگین ہوتی رہی
تھیں لیکن بے رحمی کا وہ عنصر جو چند انسانوں کی ذات سے منسوب ہوا وہ تاریخ
کے پنوں میں محفوظ ہو کر نشانِ عبرت بن چکا ہے۔،۔
اگر ہم جدید دور میں قدیم سفاکیت کو چشمِ تصور سے دیکھنے کی کوشش کریں تو
ہمیں یہ دیکھ کر حیرانگی ہو تی ہے کہ دنیا اس وقت امریکہ اور روسی بلاکوں
میں تقسیم ہو چکی ہے۔امریکہ کو اس لحاظ سے روس پر سبقت حاصل ہے کہ اسے یورپ
اور نیٹو کی حمائت شامل ہے۔مسلم اقوام بھی کسی نہ کسی وجہ سے امریکی بلاک
کا حصہ ہیں۔اس کی ایک وجہ شائد ملوکیت،شہنشائیت اور بادشاہت کا وہ نظام ہے
جس میں کسی خاص قبیلہ کو مسندِ اقتدار پر برا جمان کر دیا جاتاہے اور پھر
اسے اپنے مخالفین کو زندہ در گور کرنے کا لائسنس مل جاتا ہے ۔ شہنشاہوں کی
بقا اور اقتدار چونکہ امریکی حمائت سے مشروط ہو تا ہے اس لئے وہ اپنا وزن
امریکی پلڑے میں ڈال دیتے ہیں۔مشرقِ وسطی میں امریکی اثرو رسوخ انتہائی
شدید ہے اور مسلم اقوام کو ایک ایسے آہنی شکنجہ میں جکڑ دیا گیاہے جس کی
وجہ سے کسی بھی قوم کے لئے اس شکنجہ سے نکل جانا ممکن نہیں ہے ۔ مسلم اقوام
کو کو خوف و ڈر کا شکار کرنے کے لئے اسرائیلی ریاست کوبالجبر قائم کر دیا
گیا ۔ایک ناجائز صیہونی ریاست کا قیام عربوں کے دل میں خنجر کی مانند پیوست
کر دیا گیا اور اس ناجائز ریاست ( ۔اسرائیل) کی حفاظت کی ذمہ داری امریکہ
نے اپنے کندھوں پر اٹھا لی لہذا کسی ملک میں اتنی جرات نہ رہی کہ وہ
اسرائیل کی جانب آنکھ اٹھا کر دیکھ سکے ۔اگر چہ اسرائیل ایک انتہائی چھوٹی
ریاست ہے لیکن امریکی اشیرواد کی وجہ سے پورا خطہ اس کی جنگی اور عسکری قوت
سے لرزاں ہے حالانکہ کبھی کرہِ ارض مسلم قوم سے لرزاں ہوا کرتا تھا(توڑے
مخلوقِ خداوندوں کے پیکر کس نے ۔،۔ کاٹ کے رکھ دئے کفار کے لشکر کس نے) ۔،۔
۱۹۶۷ کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کو جس بری طرح شکستِ فاش سے دوچار ہونا
پڑا اس نے عربوں کی عظمت اور وقار کو مٹی میں ملا دیا۔ایک زمانہ تھا کہ
دنیا عربوں کے نام سے کانپتی تھی۔ان کی جرات اور شمشیر زنی سے خوفزدہ
تھی۔ایک وقت تھا کہ ان کی جراتوں نے پورے کرہِ ارض پر اپنی فتوحات کے جھنڈے
گاڑھے تھے۔دنیا کی ہر قوم ان کی شمشیروں کے سامنے کھڑی ہونے سے سہم جاتی
تھی۔ اخلاقی طور پر کوئی قوم اس قابل نہیں تھی کہ وہ ان کے مدِ مقابل کھڑی
ہو سکتی۔وہ جس طرف رخ کرتے تھے ،فتح ان کے قدم چومتی تھی۔کردار کی عظمت اور
اعلی اوصاف نے ان کی روح میں جس سرشاری کو جنم دیا تھا اس کا سامنا کرنا
کسی بھی قوم کے لئے ممکن نہیں تھا۔کردار کی کاٹ تلوار کی کاٹ بن گئی
تھی۔دریاؤں کی منہ زور لہریں بھی ان کے قدم روکنے سے معذو رتھیں ۔تبھی تو
شاعرِ مشرق کو کہنا پڑا تھا ( دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے۔،۔
بحرِ ظمات میں دوڑا دئے گھوڑے ہم نے)۔قومیں اسلحہ کے زور پر نہیں بلکہ قوتِ
ایمانی سے اپنی عظمت کا بیج بوتی ہیں جو دیکھتے ہی دیکھتے تناور درخت بن
جاتا ہے اور پھر اس کی شاخیں پو ری انسا نیت پر سایہ فگن ہو جاتی ہیں۔وہی
عرب ،وہی ایرانی تھے وہی رومی تھے، وہی عراقی تھے اور وہی مصری تھے لیکن
ایمان کی قوت کے سامنے سب کو سر نگوں ہنا پڑ گیا تھا ۔وہ عرب جن کے ساتھ
نبر دآزما ہونا ایرانی اور رومی اپنی توہین سمجھتے تھے ایک دن انہی کی
شمشیروں کی کاٹ سے وہ گھائل ہوئے،مغلوب ہوئے اور آخرِ کار ان کے محلات انہی
خانہ بدوش عربوں کی تصرف میں آگے ۔کیا یہ باعثِ عبرت نہیں کہ انہی عربوں کے
کردار کو گھن لگا اورن کے ا ایمان کو ضعف آیا تو وہی نامور،بہادر اور جری
عرب اسرائیل کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئے ۔ایک ہی دن میں مصر، شام اور
اردن کی سرزمین اسرائیلی تسلط میں چلی گئی ۔کوئی ایسا سورما سامنے نہ آسکا
جو اسرائیلی یلغار کو روک پاتا،ان کو للکارتا اور ان سے اپنے علاقے واگزار
کرواتا۔ساری آہنی دیواریں ریت کی دیواریں ثابت ہوئیں کیونکہ اب عرب کردار
کی عظمت سے خالی ہو چکے تھے۔دولت کی چمک دمک ان کا ایمان قرار پائی تھی اور
لعل و زرو جواہر نے ان سے ان کی حمیتِ ایمانی چھین لی تھی۔ایک سیدھا سادہ
اصول تھا جسے دانائے راز نے ایک شعر میں کھول کر رکھ دیا تھا (قوم اپنی جو
ما ل و زرو جواہر پر مرتی۔،۔بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی ) دولت کی
محبت کو سنیاس دیں تو پھر فتح مقدر بنتی ہے ۔ دولت ایمان بن جائے تو عزتِ
سادات سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔،۔
مسلم قوم کی پہچان اس کی انسان دوستی،احسان،ایثار ،انصاف اور ظلم و جبر کے
خلاف ان کی آفاقی جدو جہد سے عبارت تھی لیکن پھر اقتدار کی محبت نے ان سے
انسان دوستی اور جدو جہد کے عظیم الشان فلسفے سے دستبرداری کے مناظر دیکھنے
شروع کر دئے ۔دولت کی ریل پیل اور آسائشاتِ دنیا نے ان کے رہن سہن،سوچ اور
بودو باش کو بالکل بدل کرر کھ دیا۔انسانیت کا درد پالنے والے اور تکریمِ
انساں کیلئے سر بکف پھرنے والے اقتدار کے دلدادہ بن کر سامنے آئے اور یوں
ان کے اس آفاقی جوہر کا خون ہو گیا جسے اسلام کی سنہری تعلیمات نے ان کی
روحوں میں انڈیلا ہوا تھا۔علامہ اقبال تو کہاتھا کہ( آ تجھ کو بتاتا ہوں
تقدیرِ امم کیا ہے ۔،۔ شمشیر و سناں اول طاؤ س و رباب آخر )۔کئی عشروں تک
اسرا ئیل کو تسلیم نہ کرنے کی ایک تحریک زوروں پر تھی لیکن پھر امریکی دباؤ
کی وجہ سے مشرقِ وسطی کے کئی ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کر کے اس سے سفارتی
تعلقات استورا کر لئے ہیں۔حال ہی میں یو اے ای ،بحرین ،سوڈان اور عمان نے
اسرائیل کے لئے اپنے دروازے کھول دئے ہیں تا کہ اسرائیل سے امن و امان سے
زندہ رہنے کی ایک نئی روائت کا آغاز ہو سکے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں
ہو تا ہے جو اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مخالف ہے ۔اس سلسلے میں بڑی کاوشیں
ہو ئیں لیکن بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔عربوں کے ساتھ پاکستانی قوم کی یکجہتی
ہرقسم کے شک و شبہ سے بالا تر ہے اور یہی کمٹمنٹ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی
راہ میں رکاوٹ ہے ۔ پاکستانی مزاج میں اسرائیل کے خلاف جو جذبات پائے جاتے
ہیں اسے امریکی دباؤ اور یورپی دھمکیاں بھی بدل نہیں سکتں ۔بابائے قوم کا
فرمان اور علامہ اقبال کا پیغام اسرائیل کو تسلیم کرنے کی راہ میں مزاخم ہے
۔ اس قوم کی خاکستر میں ابھی کچھ چنگاریاں باقی ہیں جو کسی وقت بھی خرمن کو
جلا سکتی ہیں۔،۔
|