تاریخِ آدم و ابلیس اور تاریخِ تَقدیر و تَقلید

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالزُخرف ، اٰیت 22 تا 25 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
بل
قالوا انا و
جدنا اٰباءنا علٰی
امة وانا علٰی اٰثٰرھم
مھتدون 22 وکذٰلک ما
ارسلنا من قبلک فی قریة
من نذیر الّا قال مترفوھا انا
وجدنا اٰباءنا علٰی امة وانا علٰی
اٰثٰرھم مقتدون 23 قٰل اولوجئتکم
باھدٰی مما وجدتم علیه اٰباءکم وانا بما
ارسلتم بهٖ کٰفرون 24 فانقمنا منھم فانظر
کیف کان عاقبة المکذبین 25
مُنکرینِ قُرآن کے پاس اپنے بیہُودہ اعتقادِ تقدیر کے بعد اپنے فرسُودہ اعتقادِ تقلید کی بھی یہی دلیل ہے کہ ہم نے اپنے اَسلاف کو وہی کُچھ کرتے دیکھا ہے جو ہم کر رہے ہیں لیکن اُن کی اُس پہلی کمزور دلیل کی طرح یہ دُوسری دلیل بھی باطل ہے اور یہ وہی فرسُودہ دلیل ہے جو اِس بستی سے پہلی بستیوں کے وہ آسُودہ حال لوگ پیش کیا کرتے تھے جن کی ہدایت کے لیۓ ہمارے پہلے ہادی آتے تھے اور اِن کو اِن کے مَنفی اعمال کے مَنفی نتائج سے ڈراتے تھے اور یہ لوگ اُن سے بھی یہی کہتے تھے کہ ہم نے اُسی راستے پر چلنا ہے جس پر ہمارے اَسلاف چلتے تھے اور اِن کو بھی ہمارے ہادی بتاتے تھے کہ یہ قدیم زمانے کی اُس تقلیدی تعلیم کے مقابلے میں جدید زمانے کی ایک ترقی یافتہ تعلیم ہے جو تُمہارے زمانے کے علم کے مطابق تُمہاری علمی ضروت ہے تو کیا تُم اِس علمی و عقلی فرق کے باوجُود بھی اُسی راہ پر چلتے رہو گے جو تُمہاری منزلِ مقصود کے خلاف جانے والی راہ ہے اور ہمارے اُن ہادیوں کی اِس بات کے جواب میں وہ لوگ ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ ہم اپنے اَسلاف کی اُس تعلیم کے خلاف تُمہاری کوئی بات سننا چاہتے ہیں اور نہ ہی اپنے اُن اَسلاف کے اُس طریقے اور عمل کو چھوڑنا چاہتے ہیں جو ہماری ایک تقدیری اور تقلیدی میراث ہے اور چونکہ اُن کے یہ سارے اعتقادات و معتقدات ہمارے اَزلی قانُونِ کے خلاف تھے اِس لیۓ وہ سارے لوگ اپنی اُسی اَجل کا شکار ہوکر ہلاک ہوۓ جس اَجل کے وہ خوش اعتقاد مُقلد تھے !!
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
تَقدیر اور تَقلید کے حوالے سے قُرآنِ کریم کی اِس سُورت کی سابقہ اور موجُودہ اٰیات میں جو دو تاریخی مضامین وارد ہوۓ ہیں اُن دونوں تاریخی مضامین کا جو مجموعی تاثر سامنے آتا ہے وہ مجموعی تاثر یہ ہے کہ تَقدیر اور تَقلید کے یہ دونوں مضامین جسم و رُوح کی طرح ایک دُوسرے کے ساتھ کُچھ اِس طرح باہم دِگر جُڑے ہوۓ ہیں کہ تقدیر کا اعتقاد تقلید کے عمل اور تقلید کا عمل تقدیر کے اعتقاد کے بغیر مُکمل ہی نہیں ہوتا اور اُس کی وجہ غالبا یہ ہے کہ ابلیس نے راندہ درگاہ ہونے کے بعد جب انسان کو گُم راہ کرنے کا عمل شروع کیا تھا تو اُس نے سب سے پہلے انسان کو تقدیر کا یہ اعتقاد دیا تھا کہ انسان جس وقت جو اَچھا یا بُرا عمل کرتا ہے وہ عمل اللہ تعالٰی کے حُکم سے کرتا ہے اور جس وقت کے جس دورانئے میں انسان سے جو بھی اَچھا یا بُرا عمل سر زد ہوتا ہے وہ اللہ تعالٰی کی مرضی سے ہی سرزد ہوتا ہے اور اِس لیۓ سر زد ہوتا ہے کہ اُس وقت کے اعتبار سے وہی عمل اللہ تعالٰی کو مطلوب ہوتا ہے اور ابلیس نے کمال ہشیاری کے ساتھ اپنی اِس ابلیسی تعلیم میں یہ تلبیسِ ذات بھی شامل کردی تھی کہ اللہ تعالٰی کو جس طرح ایک خاص زمان و مکان میں آدم کے ایک خاص عمل میں آدم کی اطاعت مطلوب تھی اسی طرح اللہ تعالٰی کو اُس خاص زمان و مکان میں اُسی خاص عمل میں ابلیس کا انحراف بھی مطلوب تھا اور آدم نے اُس خاص وقت میں اطاعت کا جو عمل کیا تھا وہ اُس خاص وقت کے اعتبار سے آدم کا ایک درست عمل تھا اور ابلیس نے بھی اُس خاص وقت میں اطاعت سے جو انحراف کیا تھا اُس کے انحراف کا وہ عمل بھی اُس خاص وقت کے لحاظ سے اتنا ہی درست تھا جتنا آدم کا عمل درست تھا اور تقدیر کا یہی وہ اعتقاد تھا جس کا اظہار اِس سُورت کی اٰیت 20 کے مطابق عہدِ نبوی کے مُنکرین قُرآن نے کیا تھا اور مُنکرینِ قُرآن نے اپنا یہ اعتقاد اپنے اسلاف کے اُس تقلیدی عمل کے حوالے سے پیش کیا تھا جو تقلیدی عمل اُن کے اَسلاف کرتے آرہے تھے اور اَب عہدِ نبوی کے مُنکرینِ قُرآن بھی اپنے اَسلاف کی تقلید میں وہی تقلید کر رہے تھے اور تقلید کے اِس عمل کے اسی عملی تسلسل سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ ابلیس نے جس طرح انسان کے دل میں تقدیر کا اعتقاد راسخ کیا تھا ابلیس نے اسی طرح انسان کے دل میں تقلید کا عمل بھی جاری کیا تھا تاکہ انسان تقدیر کے عقیدے کی تقلیدی طور پر پیروی کرتا رہے اور تقدیر کا یہ عقیدہ ایک دائمی عقیدے کے طور پر نوعِ انسانی میں جاری و ساری ہو جاۓ تاہم تقدیر کے اِس اعتقاد کا یہ صرف ایک پہلو ہے جس پہلو کا ہم نے تفہیمی سہولت کے لیۓ پہلے ذکر کیا ہے تاکہ پہلی بات کی تفہیم کے بعد یہ دُوسری بات بھی قابلِ فہم ہو جاۓ کہ تقدیر کا یہ اعتقاد اللہ تعالٰی کے اِس عالَمِ خلق میں نظریہِ نبوت و علمِ نبوت کی بھی نفی کرتا ہے کیونکہ جب انسان کا ہر اَچھا اور ہر بُرا عمل اللہ تعالٰی کی مرضی سے ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے ایک ہی حُکم پر بذاتِ خود ہی آدم و ابلیس سے ایک مُختلف و مُتضاد عمل کراتا ہے تو خالق اور مخلوق کے درمیان اُن درمیانی مُعلّمین کی آخر ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے جن کو رسُول اور نبی کہا جاتا ہے ، یہ درست ہے کہ آدم و ابلیس کی تخلیق آدم و ابلیس کی تقدیر تھی لیکن آدم و ابلیس کی تخلیق کے بعد آدم و ابلیس نے جو عمل کیا تھا وہ اپنے اپنے ایک آزاد ارادے کے ساتھ کیا تھا اور اپنے اپنے ایک آزاد اختیار کے تحت کیا تھا جس کے لیۓ وہ دونوں مَدح و مُذمت کے مُستحق ہوۓ تھے ، اِس کلام کا نتیجہِ کلام یہ ہے کہ تقدیر کا اعتقاد اور تقلید کا عمل دونوں ہی نبوت و علمِ نبوت دونوں کی نفی کرتے ہیں !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 455140 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More