زیورات پر زکوٰۃ کا حکم

عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَدِّهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ امْرَأَةً أَتَتِ النَّبِىَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِابْنَةٌ لَهَا وَفِي يَدِ ابْنَتِهَا مَسَكَتَانِ غَلِيظَتَانِ مِنْ ذَهَبٍ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ : ‏‏‏‏ "أَتُعْطِينَ زَكَاةَ هَذَا؟"قَالَتْ : ‏‏‏‏ لَا ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ : ‏‏‏‏ "أَيَسُرُّكِ أَنْ يُسَوِّرَكِ اللَّهُ بِهِمَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ سِوَارَيْنِ مِنْ النَارِ؟" فَخَلَعَتْهُمَا ، ‏‏‏‏‏‏فَأَلْقَتْهُمَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَتْ : ‏‏‏‏ هُمَا لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ. (رواه ابوداؤد وغيره من اصحاب السنن)معارف الحدیث - کتاب الزکوٰۃ - حدیث نمبر 833

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ ایک خاتون اپنی ایک لڑکی کو لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اور اس لڑکی کے ہاتھوں میں سونے کے موٹے اور بھاری کنگن تھے، آپ ﷺ نے اس سے فرمایا: تم ان کنگنوں کی زکاۃ ادا کرتی ہو؟ اس نے عرض کیا کہ: میں اس کی زکوٰۃ تو نہیں دیتی، آپ ﷺ نے فرمایا: تو کیا تمہارے لیے یہ بات خوشی کی ہو گی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں کنگنوں کی (زکوٰۃ نہ دینے کی) وجہ سے قیامت کے دن آگ کے کنگن پہنائے؟ اللہ کی اس بندی نے وہ دونوں کنگن ہاتھوں سے اتار کر رسول اللہ ﷺ کے سامنے ڈال دئیے اور عرض کیا کہ: اب یہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔ (سنن ابی داؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ)

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ : ‏‏‏‏ كُنْتُ أَلْبَسُ أَوْضَاحًا مِنْ ذَهَبٍ ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ : ‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَكَنْزٌ هُوَ؟ فَقَالَ : ‏‏‏‏ "مَا بَلَغَ أَنْ تُؤَدَّى زَكَاتُهُ ، ‏‏‏‏‏‏فَزُكِّيَ فَلَيْسَ بِكَنْزٍ". (رواه مالک وابوداؤد)معارف الحدیث - کتاب الزکوٰۃ - حدیث نمبر 834

حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ میں سونے کے " اوضاح " (ایک خاص زیور کا نام ہے) پہنتی تھی، میں نے ان کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! کیا یہ بھی اس " کنز " میں داخل ہے؟ (جس پر سورہ توبہ کی آیت وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ .... الاية میں دوزخ کی وعید آئی ہے؟) آپ ﷺ نے فرمایا: جو مال اتنا ہو جائے کہ اس کی زکاۃ ادا کرنے کا حکم ہو، پھر حکم کے مطابق اس کی زکاۃ ادا کر دی جائے وہ کنز نہیں ہے۔ (موطا امام مالک، سنن ابی داؤد)

تشریح
ان حدیثوں ہی کی بنیاد پر امام ابو حنیفہؒ سونے چاندی کے زیورات پر (اگر وہ بقدر نصاب ہوں) زکوٰۃ فرض ہونے کے قائل ہیں لیکن دوسرے ائمہ امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کے نزدیک زیورات پر زکوٰۃ صرف اس صورت میں فرض ہے جب وہ تجارت کے لیے ہوں، یا مال کو محفوظ کرنے کے لیے بنوائے گئے ہوں، لیکن جو زیورات صرف استعمال اور آرائش کے لیے ہوں، ان ائمہ کے نزدیک ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ اس مسئلہ میں صحابہ کرام ؓ کی رائے بھی مختلف رہی ہے۔ لیکن احادیث سے زیادہ تائید امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہی کے مسلک کی ہوتی ہے۔ اسی لیے بعض شافعی المسالک علماء محققین نے بھی اس مسئلہ میں حنفی مسلک کو ترجیح دی ہے۔ چنانچہ تفسیر کبیر میں امام رازیؒ نے یہی رویہ اختیار کیا ہے اور لکھا ہے کہ ظاہر نصوص اسی کی تائید کرتے ہیں۔ واللہ اعلم۔
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558690 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More