پیٹ میں ہونے والا درد اپنڈکس کا تھا مگر آپریشن کرنے والا کوئی نہیں تھا... اس سرجن کی کہانی جس نے اپنا آپریشن خود اپنے ہاتھوں سے کیا

image
 
عام طور پر جب بھی کسی انسان کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو وہ فوراً علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے لیکن اگر ڈاکٹر خود بیمار ہو جائے اور اس کے علاج کے لیے کوئی دوسرا ڈاکٹر موجود نہ ہو تو پھر اس کو اپنا علاج خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ علاج تک تو معاملہ سمجھ آتا ہے مگر کسی ڈاکٹر نے اپنا آپریشن خود کیا ہو آپ کو ہماری یہ بات دیوانے کی بڑک لگ رہی ہو گی جب کہ حقیقت میں واقعی ماضی میں ایک سرجن نے اپنی جان بچانے کے لیے ایسا ہی کیا-
 
یہ واقعہ 1960 کا ہے جب روس نے اپنی ایک 12 رکنی ٹیم انٹارکٹیکا کے سخت ترین موسمی حالات میں بھیجی اس ٹیم کا مقصد انٹارکٹیکا میں ایک بیس کیمپ کو قائم کرنے کے حوالے سے تحقیقات کرنی تھیں- یہ ایک سالہ ٹرپ تھا جس کے لیے انہوں نے 300 دن تک بحری جہاز پر سفر کیا اور یہاں تک پہنچے تھے اور ان کو واپس لینے کے لیے ایک سال سے پہلے کسی ٹیم کی آمد ممکن نہ تھی-
 
اس ٹیم کا ایک رکن ڈاکٹر لیونڈ روگوزو بھی تھا جس کو بطور ڈاکٹر اس ٹیم میں شامل کیا گیا تھا- ستائيس‎ سالہ ڈاکٹر کو ابتدا میں انٹارکٹیکا کے سخت ترین موسمی حالات کے سبب سستی اور تھکن کی شکایت کا سامنا کرنا پڑا جو کہ وقت کے ساتھ پیٹ کے دائيں جانب شدید درد اور الٹی میں تبدیل ہو گیا- ڈاکٹر کو اندازہ ہو گیا کہ اسکی یہ ساری علامات درحقیقت اپنڈکس کے درد کی نشاندہی کر رہی ہیں جس کا علاج سرجری کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے-
 
image
 
مگر سوال یہ تھا کہ یہ سرجری کون کرے گا کیوں کہ 12 افراد کی اس ٹیم میں لیونڈ ہی واحد ڈاکٹر تھا۔ اپنی جان کو بچانے کے لیے اس موقع پر لیونڈ نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی-
 
انہوں نے اپنی ٹیم میں سے دو افراد کو اپنے اسسٹنٹ کے طور پر منتخب کیا اور اپنا آپریشن خود کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ جس کے لیے انہوں نے اپنے سامنے آئینہ لگایا تاکہ وہ سرجری کو کرتے ہوئے دیکھ سکے-
 
عام طور پر سرجری سے قبل مکمل بے ہوشی کی جاتی ہے مگر جب مریض نے خود ہی اپنا آپریشن کرنا ہو تو پھرمکمل بے ہوشی ممکن نہیں ہوتی ہے- اس وجہ سے لیونڈ نے صرف سرجری کی جگہ کو سن کرنا بہتر سمجھا اور اس جگہ پر سن کرنے والا انجکشن لگا کر پہلے تو پیٹ کی اوپری تہہ کاٹی اور اس کے بعد نچلی تہہ بھی کاٹ لی جس کی وجہ سے شدید بلیڈنگ شروع ہو گئی-
 
اس کے بعد آئينے میں عکس دیکھ کر آپریشن کرنے میں سب سے بڑا مسئلہ دائیں اور بائيں کے فرق کا تھا اس کے ساتھ ساتھ شدید درد کے سبب لیونڈ کو بار بار آپریشن روک کر آرام کرنا پڑتا تھا- اس کے اسسٹنٹ اس کو اوزار پہنچا رہے تھے اور اس کے ساتھ لائٹ کا بھی انتظام کر رہے تھے-
 
image
 
کچھ دیر کے بعد سب سے اہم مرحلہ آنتوں میں سے اپنڈکس کے متاثرہ حصے کو نکال کر اس کو علیحدہ کرنا تھا جب ڈاکٹر سے اس حصے کو نکالا تو اسکی نچلی تہہ سیاہ ہو چکی تھی اور کسی بھی وقت پھٹ سکتی تھی مگر ڈاکٹر لیونڈ کے درست فیصلہ نے اس کی جان بچا لی-
 
اس کے بعد اپنے اسسٹنٹ کی مدد سے ٹانکے لگانے کا عمل بھی کم دشوار نہ تھا مگر اسکو بھی کامیابی سے مکمل کرنے کے بعد ڈاکٹر لیونڈ کامیاب ہو گیا اور اس طرح دو گھنٹوں کے اس آپریشن میں انہوں نے تاریخ رقم کر دی-

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE: