#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالزُخرف ، اٰیت 26 تا 32
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
واذ
قال ابرٰھیم
لابیه وقومهٖ اننی
برآء مما تعبدون 26 الّا
الذی فطرنی فانهٗ سیھدین
27 وجعلھا کلمة باقیة فی عقبهٖ
لعلھم یرجعون 28 بل متعت ھٰؤلاء و
اٰباءھم حتٰی جاءھم الحق ورسول مبین
29 ولما جاءھم الحق قالوا ھٰذا سحر وانابهٖ
کٰفرون 30 وقالوا لولا نزل ھٰذالقراٰن علٰی رجل من
القریتین عظیم 31 اھم یقسمون رحمت ربک نحن
قسمنا بینھم معیشتھم فی الحیٰوة الدنیا ورفعنا بعضہم
فوق بعض درجٰت لیتخذ بعضھم بعضا سخریا ورحمت ربک
خیر مما یجمعون 32
اے ہمارے رسُول ! عہدِ حاضر کے مُنکرینِ قُرآن جو ابراہیم کی اَولاد ہیں
اور ابراہیم کے بارے میں جانتے ہیں ، آپ اِن سے پُوچھیں کہ تُم جو اپنی
آبائی تقلید کے دعوے دار ہو تو بتاؤ کہ ابراہیم نے بھی تُمہاری طرح اپنے
آباء کی تقلید کی تھی یا پھر اپنے آباء سے یہ سچی اور کھری بات کہی تھی کہ
تُم جن چیزوں کی پُوجا کرتے ہو میں تُمہاری اُن چیزوں سے اور تُمہاری اُس
پُوجا سے سخت بیزار ہوں اور میں اپنے اُس اللہ کی حاکمیت کا محکوم رہنا
چاہتا ہوں جس نے مُجھے پیدا کیا ہے اور جس نے مُجھے راہِ حق کی ہدایت دی ہے
اور ابراہیم کی تاریخ تو یہ ہے کہ وہ خود بھی تقلید کی راہ کے بجاۓ توحید
کی روشن راہ پر چلتا رہا ہے اور اپنی اولاد کو بھی اُس نے مرتے دَم تک اسی
روشن راہ پر چلنے کی تعلیم دی ہے لیکن ہم نے ابراہیم کی اولاد کو جو وسائلِ
حیات دیۓ تھے اُس نے ابراہیم کے بعد اُن وسائلِ حیات کی دل فریب لذتوں میں
ڈوب کر ابراہیم کے اُس روشن راستے کو ترک کردیا اور اَب جو اُن کے پاس
ہمارا وہی قانُونِ حق آیا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ یہ ایک جادو بھرا جھوٹ ہے
جس کو ہم ماننے کے لیۓ آمادہ نہیں ہیں اور یہ لوگ اپنے اِس انکار کے حق میں
یہ ناحق دلیل دیتے ہیں کہ اگر یہ وحی جھوٹ نہیں ہے تو یہ ہماری بڑی آبادی
کے دو بڑے شہروں کے کسی بڑی جماعت کے بڑے سر دار پر کیوں نہیں نازل ہوئی
اور یہ وحی اُس انسان پر کیوں نازل ہوئی ہے جس کے پاس کوئی جماعت جَتھا ہی
نہیں ہے ، گویا یہ لوگ ہم سے یہ چاہتے ہیں کہ ہم اپنی نبوت و رسالت کا منصب
جس کو بھی دیں اپنی رضا سے نہ دیں بلکہ اُن کی مرضی سے دیں حالانکہ ہم نے
انسان کو جو وسائلِ حیات دیۓ ہیں وہ بھی اپنی مرضی سے دیۓ ہیں اور ایک
دُوسرے سے کم و بیش دیۓ ہیں اور اِس بنا پر کم و بیش دیۓ ہیں تاکہ مُختلف
انسان اپنی اپنی مُختلف خُدا داد صلاحیتوں کے مطابق اپنی اپنی مرضی کے
مُختلف کاموں کا انتخاب کریں اور اپنی مُختلف صلاحیتوں کے مُختلف فوائد ایک
دُوسرے کی ذات تک پُہنچائیں ، اگر ہم نے انسانی وسائلِ حیات کے حصول کے لیۓ
انسان کی اہلیت و صلاحیت کو معیار بنایا ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم
انسانی ہدایت کے لیۓ اپنی نبوت و رسالت کے منصب کو بھی اپنی اُس صلاحیت کا
معیار نہ بنائیں جس معیاری صلاحیت کے مطابق ہم اپنے کسی نبی اور اپنے کسی
رسُول کی شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم نے اٰیاتِ بالا کے اِس مضمون میں عہدِ نبوی کے اُن مُنکرینِ
قُرآن کی سلفی و آبائی تقلید کا تاریخی پس منظر بیان کیا ہے جو مُنکرینِ
قُرآن نسلی و نسبی اعتبار سے تو اگرچہ ابراہیم علیہ السلام کی اولاد تھے
لیکن ابراہیم علیہ السلام کی اُسی اولاد میں پیدا ہونے والے نبی محمد علیہ
السلام پر نازل ہونے والی قُرآنی وحی کا اِس بنا پر انکار کررہے تھے کہ ہم
قُرآنی وحی کے قُرآنی اَحکام کے بجاۓ اپنے آباء و اجداد اور اپنے اَسلاف کے
اُس تاریخی عمل کی تقلید کررہے ہیں جس تاریخی عمل کا ہم نسل دَر نسل
مُشاہدہ کرتے ہوۓ آۓ ہیں اور ہم اپنے اُس مُشاہداتی و تجرباتی علم کے مطابق
اپنے اُس سلفی و آبائی عمل ہی کو سچ سمجھتے ہیں جس کے ہم اِس نبی کے آنے سے
پہلے ہی عامل ہیں اِس لیۓ ہم اُس کلام کو جھوٹ سمجھتے ہیں جو کلام ہمیں
محمد سنارہے ہیں اور اُس کلام کے اُن اَحکامِ وحی کو بھی ہم جھوٹ سمجھتے
ہیں جن اَحکامِ وحی کی ہمیں محمد دعوت دے رہے ہیں ، اٰیاتِ بالا میں
مُنکرینِ قُرآن کی اُس جماعت کے اِس دعوے کے جواب میں پہلے تو اللہ تعالٰی
کی طرف سے اُس جماعت کو یہ اَمر یاد دلایا گیا ہے کہ تُم اپنے جن آباء و
اَجداد کی تقلید کا دعوٰی کر رہے ہو تُمہارے اُن آباء و اَجداد کی صف میں
سب سے بڑی ذاتِ گرامی تُمہارے جَدِ اَمجد ابراہیم علیہ السلام کی وہی ذاتِ
گرامی ہے جن کو تُم اپنی نسلی و نسبی تاریخ کے حوالے سے بھی جانتے ہو اور
مکے کے اِس گھر کے معمار کے طور پر بھی جانتے ہو جس گھر کا تُم طواف کرتے
ہو اور اُس ابراہیم علیہ السلام کی سیرت یہ ہے کہ اُس نے کبھی بھی اُن بتوں
کی پرستش نہیں کی ہے جن بتوں کی تُم پرستش کرتے ہو اِس لیۓ تُمہاری یہ بُت
گری و بُت پرستی ابراہیم علیہ السلام کے اُس عملِ توحید کے خلاف ہے جس عملِ
توحید کی ابراہیم علیہ السلام نے عُمر بھر دعوت دی ہے اور تُمہارے آباء و
اجداد اور تُمہارے اَسلاف کی اُس سب سے بڑی ہستی کے حوالے سے ایک دُوسری
حقیقت یہ ہے کہ اُس ہستی نے اپنے زمانے میں اپنے آباء و اجداد اور اپنے
اَسلاف کی اُس بُت گری و بُت پرستی کے اُس رائج تقلیدی نظام کے خلاف سب سے
پہلے بغاوت کی تھی جس بُت گری و بُت پرستی کے تُم لوگ اِس وقت عامل بنے ہوۓ
ہو اِس لیۓ تاریخی اعتبار سے توحید کا وہ اعتقادجھوٹ نہیں ہے جس اعتقاد کی
تُمہارے عہدِ ماضی میں ابراہیم علیہ السلام نے دعوت دی تھی اور جس اعتقاد
کی تُمہارے عہدِ حال میں محمد علیہ السلام تُم کو دعوت دے رہے ہیں جس سے
ثابت ہوتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اپنے اَسلاف کی اُس بُت پرسی کے مقلد
نہیں تھے جس بُت پرستی کے تُم مقلد ہو بلکہ ابراہیم علیہ السلام تو اللہ
تعالٰی کی اُس سچی کھری توحید کے ایک مُعلّم تھے جس سچی کھری توحید کی
تُمہارے زمانے میں محمد علیہ السلام تُم کو دعوت و تعلیم دے رہے ہیں ،
قُرآنِ کریم کی اِن ہی اٰیاتِ بالا کے اِن ہی اَحکامِ بالا سے یہ اَمر بھی
پایہِ ثبوت کو پُہنچ جاتا ہے کہ اللہ تعالٰی کے اَنبیاء و رُسل انسان کو جس
دینِ توحید کی دعوت دیتے تھے اُس دینِ توحید کی اتباع کا نام اطاعت تھا اور
اِس اطاعت سے مُراد ایک نہ جاننے والے انسان کا ایک جاننے والے انسان کے
پیچھے پیچھے اِس اعتقاد و اعتماد کے ساتھ اِس طرح چلنا ہوتا تھا جس طرح ایک
نہ دیکھنے والا انسان ایک دیکھنے والے انسان کے پیچھے پیچھے اِس اعتماد و
اعتماد کے ساتھ چلتا ہے کہ وہ ٹھوکر کھا گرنے سے محفوظ ہے یا پھر ایک جان
دار کا ایک اَن جان بچہ اپنے والدین کے پیچھے پیچھے اِس اعتقاد و اعتماد کے
ساتھ چل رہا ہوتاہے کہ میرا راہ بر اُس راستے کو اچھی طرح جانتا ہے جس
راستے پر اُس نے مُجھے اپنے ساتھ لے کر جانا ہے اور جس جگہ تک لے کر جانا
ہے لیکن اللہ تعالٰی کے اَنبیاء و رُسل انسان کو جس اطاعت کی تعلیم دیتے
تھے اُس اطاعت سے مُراد اُن کی مُطلق شخصی اطاعت نہیں ہوتی تھی بلکہ ایک
ایسی مُقید اطاعت ہوتی تھی جس مُقید اطاعت میں وہ بذات خود اللہ تعالٰی کے
جن اَحکام کی اطاعت کرتے تھے اپنی اُمت و اَفرادِ اُمت کو بھی اُن ہی
اَحکام کی اُس اطاعت کی تعلیم دیتے تھے جس اطاعت کا مقصد اللہ تعالٰی کے
اَحکام کی اطاعت ہوتا ہے اور اُس میں نبی و رسُول کی ذات صرف وہ ذریعہِ
مقصد ہوتی ہےجس ذریعہِ مقصد کی مدد سے انسان اللہ تعالٰی کے اُن اَحکامِ
نازلہ تک پُہنچتا ہے جن اَحکامِ نازلہ تک اُس کا پُہنچنا مقصود ہوتا ہے
لیکن اِس تعلیمی اطاعت کے برعکس تقلید کی اَصل قلادہ ہے جس سے مُراد بیل کی
گلے میں ڈالا جانے والا لکڑی کا وہ چوبی فریم ہوتا ہے جس چوبی فریم میں
کسان اُس بیل کی گردن پھنسا کر اُس بیل کو اُس ہَل میں جوتتا ہے جس ہَل سے
وہ اپنی زمین کو جوتنا چاہتا ہے لیکن شیطان نے ایک انسان کے ذریعے دُوسرے
انسان کی گردن کو اِس قلادے میں ڈالنے کا جو طریقہ وضع کیا ہوا ہے وہ کسان
کے اُس طریقے سے ایک بالکُل ہی مُختلف طریقہ ہے جس طریقے کے مطابق کسان
اپنے ہاتھ سے اپنے بیل کے گلے میں ایک قلادہ ڈالتا ہے کیونکہ انسان جس
انسان سے اپنی تقلید کراتا ہے وہ اُس آزاد انسان کو اپنی شخصی غلامی پر
اتنا مجبور کردیتا ہے کہ وہ مجبور انسان خود ہی اُس انسان کی تقلید کا
قلادہ اپنے گلے میں ڈال کر اُس کی تقلید شروع کر دیتا ہے جس نے دین کے نام
پر اُس انسان کو اپنی شخصی تقلید کا حُکم دیا ہوا ہوتا ہے اور شخصی غلامی
کا یہ بدترین طریقہ غلامی کے تمام طریقوں میں سب سے بدترین شیطانی طریقہ ہے
، خلاصہِ کلام یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی تعلیم اطاعتِ حق کی وہی
تعلیم اور تردیدِ تقلید کی وہی تعلیم تھی جو قُرآن کی وہ علمی و کتابی
تعلیم ہے جو سیدنا محمد علیہ السلام پر نازل ہوئی ہے !!
|