خوشی اور غم کا انسان سے کافی
پرانا رشتہ ہے انسان کبھی بھی ایک حال پر نہیں رہتا کبھی تو کامیابی اس کے
قدم چومتی ہے اور کبھی حالات اسے ناکامیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں پھینک
دیتے ہیں لیکن عقل مند شخص وہی ہے جو اپنے لیے ناکامیوں میں بھی کامیابی
تلاش کرے۔ بے وقوف شخص بھی کامیابی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے کچھ اسی طرح کا
واقعہ دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے ساتھ پیش آیا۔ دوسری جنگ عظیم
(1939-1945) میں امریکہ براہ راست شریک نہیں تھا لیکن وہ جاپان مخالف
طاقتوں کو اسلحہ فراہم کرتا تھا ۷دسمبر ۱۶۹۱ءکو جاپان نے ایک خفیہ منصوبہ
بنایا اورامریکی بندرگاہ پرل ہاربر پر حملہ کر کے امریکہ کے بحریہ اڈے کو
مکمل تباہ کر دیا۔ امریکہ کا جرم فقط یہ تھا کہ وہ جاپان مخالف طاقتوں کو
اسلحہ کے ذریعہ مدد کرتا تھا۔ امریکہ کی بحریہ طاقت ختم ہو گئی لیکن اس کی
فضائی طاقت بدستور محفوظ تھی۔ جاپان کے اس اقدام نے معاملہ کو اور بڑھا دیا
اور امریکہ براہ راست جنگ میں شریک ہو گیا اور اس نے برطانیہ اور روس کے
ساتھ مل کر وہ اتحاد قائم کیا جو تاریخ میں Allied power کے نام سے مشہور
ہے امریکہ میں اس وقت ایٹم بم کی پہلی کھیپ پایہ تکمیل کو پہنچنے والی تھی۔
امریکہ نے جاپان کو غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کا کہا۔ جاپان کو امریکہ کی اس
نئی طاقت کا بالکل اندازہ نہ تھا اور اس نے امریکی پیش کش کو قبول نہ کیا۔
بالآخر اگست ۵۴۹۱ءکو امریکہ نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر
تاریخ کے پہلے ایٹم بم گرائے جس کے نتیجہ میں یہ دونوں شہر مکمل تباہ ہو
گئے اور ان کے ساتھ ہی جاپان کی فوجی طاقت ختم ہوگئی۔
بلاشبہ امریکی بحری اڈے پر حملہ جاپان کی عظیم الشان غلطی تھی لیکن جاپان
ایک زندہ دل قوم تھی اس نے ایک غلطی کے بعد دوسری غلطی نہیں کی اس نے جنگ
کے میدان میں امریکی بالادستی کو تسلیم کرلیا اور اپنی تمام تر توجہ تعلیم
و صنعت کے میدان کی طرف موڑ دی۔ ۰۳ سال بعد دنیا نے یہ ناقابل یقین حقیقت
دیکھی کہ جاپان پہلے سے زیادہ طاقتور بن کر ابھرا اور جاپانی قوم افسانوی
پرندے کی طرح اپنے ہی راکھ سے دوبارہ زدہ ہو کر اٹھی۔
جاپان کی اس ترقی کا راز حقیقت کا اعتراف ہے اس نے جنگ ہارنے کے بعد نہ ہی
جھوٹی اکڑ دکھائی اور نہ ہی بے فائدہ ماتم میں اپنا وقت برباد کیا بلکہ
ازسر نو جدوجہد کی۔ انہوں نے اپنے دشمن کے خلاف الفاظ کی بے مقصد جنگ میں
پڑنے سے اجتناب کیا اور اپنی ناکامی کا اعتراف کیا تو اسی ناکامی سے ہی ان
کو ترقی کی راہیں ملیں اور اسی ناکامی ہی نے ان کو تعلیم و صنعت کے میدان
میں کامیابی سے ہمکنار کیا۔
آج مسلمان اگر ناکام ہیں تو صرف اسی وجہ سے کہ تمہیں حقیقت کے اعتراف سے
بہت تکلیف ہوتی ہے۔ ہم سفر شروع کرنے سے پہلے ہی منزل کو پانا چاہتے ہیں۔
ہم افراد پر محنت کرنے کے بجائے بیلٹ باکس سے اسلامی نظام برآمد کرنا چاہتے
ہیں۔ ہم الفاظ کی جنگ سے دشمن کو نیست و نابود کرنا چاہتے ہیں اور یہ سب
چیزیں حقیقت کی دنیا میں نہیں چلتی دنیا اگر کسی چیز کو تسلیم کرتی ہے تو
وہ ہے فقظ مسلسل جدوجہد جو کہ ہم میں ناپید ہے جب تک ہم خود اپنی سوچ اور
اپنے کردار کو تبدیل نہیں کریں گے اس وقت تک ہمیں اللہ تعالیٰ سے اپنی قسمت
کا گلہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ فطرت کا اٹل قانون ہے فقظ دعوؤں سے منزل
نہیں ملتی۔ |