امریکہ عراق کو تختہ مشق بنانے
کے بعد بغداد کی سکھا شاہی پر قابض ہوگیا۔ امریکی اور برطانوی سورماوؤں نے
منصوبہ بندی سے عراق کے تعلیمی اداروں کالجوں اور یونیورسٹیوں پر ہولناک
بمباری کی۔صدام دور کے80 فیصد ادارے راکھ میں دب گئے۔یہود و ہنود نے
دانشوروں استادوں اور سائنس دانوں کو چن چن کر ہلاک کر ڈالا تاکہ عراق کو
اتنا اپاہج بنادیا جائے جو کئی عشروں تک دوبارہ مڈل ایسٹ کی شاہانہ عسکری
طاقت کا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے میں کامیابی کا ذائقہ نہ چکھ سکیں۔ لگتا
ہے کہ امریکہ کی ناجائز اولاد اور بغل بچے اسرائیل نے عراق طرز کے خونی
ایکشن کو دوبارہ فلسطینی سرزمین پر دہرانے کی ٹھان رکھی ہے۔ صہیونیوں نے
ارض فلسطین پر مقہور و بے سائباں فلسطینی جوانوں اور بچوں پر جن وحشت ناک
مظالم کا سلسلہ شروع کررکھا ہے تاریخ انسانی میں ایسی کوئی نظیر نہیں
ملتی۔بچے اور نوجوان ہر ملک کے روشن ستارے اور گرانقدر اثاثے ہوتے ہیں بچوں
کی اعلٰی تعلیم و تربیت قوموں کو گہری کھائیوں سے نکال کر اوج ثریا کی فلک
بوس چوٹیوں تک جانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہودیوں نے پہلے قبلہ اول
کے پرتش کاروں فلسطینیوں کو سماجی معاشی کاروباری اور تہذیبی طور پر تباہ و
برباد کردیا تھا اور اب یہی درندے معصوم بچوں کا گوشت نوچ رہے ہیں۔ صہیونی
قاتلوں کو پتہ تھا کہ کل کلاں یہی بچے مستقبل میں بندوق بھی اٹھا سکتے ہیں
۔ عالمی سطح پر اسرائیل کے خلاف احتجاج بھی کریں گے۔ لندن ٹائمز ان لائن کی
رپور کے مطابق القدس سے تعلق رکھنے والے12 ہزار بچے تعلیمی اداروں کی
بربادی اور صہیونیوں کی نسل کشی کے ڈر سے تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہوگئے۔
فلسطین کے 2ہزار ایجوکیشنل اداروں کو یہودی فورسز نے زمین بوس کردیا۔رپورٹ
کے مطابق فلسطین میں تعلیمی سرگرمیوں کو عارضی بنیادوں پر چلانے کے لئے
فوری طور پر1800 سکولوں کی ضرورت ناگزیر ہے۔ uno کی ونگ برائے اطفال نے
انکشاف کیا ہے کہ19 لاکھ فلسطینی بچے انتہائی کمسپرسی کی زندگی گزار رہے
ہیں انکی آزدی و حقوق کو اسرائیل نے سلب کررکھے ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے
کہ ان بچوں کو یہودیوں کی طرف سے تشدد زہنی ٹارچر قتل و غارت غربت بے
روزگاری جنسی تشدد اور تعلیمی سہولتوں کی عدم فراہمی گرفتاری شہر بدری ایسے
خونخوار مسائل کا سامنا ہے۔unisefe کے سروے نے بربریت کا چہرہ بے نقاب
کردیا۔دوسال قبل غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے فوجی آپریشنlead cast operation
کے دوران اسرائیلی فورسز نے100 فیصد سکول و دیگر تعلیمی ادارے تباہ کرڈالے
جن میں سے ابھی تک18٪ کی تعمیر نو ممکن ہوئی ہے۔82٪ کی تعمیر کے لئے فنڈز
ہی نہیں ہیں۔پٹی پر یہودی سورماوؤں نے50 سے زائد فوجی چوکیاں بنارکھی ہیں
اور یہی فوجی چوکیاں تعلیم کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔القدس انٹرنیشنل کی
معلومات کے مطابق اسرائیل جگہ جگہ دیواریں قائم کرتا جارہا ہے جس سے1
لاکھ56 ہزار فلسطینی مغربی کنارے اور بیت المقدس شہر سے باہر ہوجائیں
گے۔پچھلے سال القدس میں بیت المقدس کا تعلیمی نظام کے عنوان سے سیمینار
منعقد ہوا ۔سیمینار میں بتایا گیا کہ نسلی دیوار کی تعمیر سے بیت المقدس
مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ اسرائیل اپنی حدود والے سکولوں کو
خاصی سہولیات مہیا کررہا ہے مگر مشرقی بیت المقدس کو مکمل نظرانداز کردیا
گیا ہے کیونکہ اس اداروں میں ارض فلسطین کے وارث تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ عربی
زبان کے میگزین فلسطین مجلہ میں اعداد و شمار شامل ہیں جنکی رو سے پچھلے
اسی سال میں 15 اساتذہ 422 طالبعلم اسرائیلی فوجیوں کی وحشت کا نشانہ بنکر
عالم بالا کو سدھار گئے۔ 890 فلسطینی طالبعلم زخمی ہوئے۔اسرائیل ہر صورت
میں فلسطین پر جہالت مسلط کرنا چاہتا ہے۔اسرائیلی فورسز نے سکولوں کے ساتھ
ساتھ مدرسوں لائبریوں دانش کدوں کو راکھ کردیا۔ فلسطینیوں کو ذہنی اپاہج
کرنے والے یہودیوں نے کونے کونے میں منشیات کے ڈھیر لگا دئیے ۔عبرانی زبان
کے اخبار یدعوت احرونوت نے رپورٹ شائع کی ہے کہ اسرائیل کے وزیرتعلیم گدعون
اعزرا نے فلسطینی بچوں کے نصاب میں ہولوکاسٹ کا مضمون شامل کرنے کا اعلان
کردیاہے۔اسرائیل کی بہیمت کا اندازہ لگائیے کہ بچوں کو ادویات خوراک سے
محروم کردیا فلسطینی بچوں اور عورتوں پر روزانہ جدید اسلحہ اور میزائلوں کے
تجربات کئے جاتے ہیں۔ تل ابیب کے حکمران فلسطینیوں کی نسلی کشی کررہا ہے۔
اسرائیل کو یاد رکھنا چاہیے کہ سکولوں کو زمین بوس کرنے قتل و غارت اور
دہشت گردی سے انکا یہ سپنا کبھی پورا نہ ہوگا کیونکہ یہی بچے زیور تعلیم سے
محروم تو کئے جاسکتے ہیں مگر یاد رہے کہ ایسے ظالمانہ ہتھکنڈوں سے یہی بچے
حریت پسند بنکر اپنی ماں دھرتی کی آزادی کے لئے بلا خوف کو خطر آتش نمرود
میں کود پڑیں گے۔کسی انسان کے دل و دماغ سے تعلیم کا بھوت تو اتارا جاسکتا
ہے مگر جس خون میں آزادی کی تڑپ مچل رہی ہو اسے دنیا کی کوئی طاقت ختم نہیں
کرسکتی۔ حسب سابق امت مسلمہ فلسطینیوں کی نسل کشی پر خاموش تماشائی بنی
ہوئی ہے۔ اگر امت مسلمہ کی حکومتی قیادت نیک نیتی سے فلسطین میں بہنے والی
خونی لکیروں پر غور و خوض کریں تو کانوں میں درد ناک صدائیں گونجنے لگتی
ہیں یہ آوازیں نسل کشی کی بھینٹ چڑھنے والے فلسطینی بچوں کی اوازیں ہیں جو
چلا چلا کر دعوت دیتے ہیں کہ مسلم حکمرانوں ہمیں صہیونیوں کی بربریت سے بچا
لو کیا بچوں کی آہوں پر لبیک کہنے والا ولی عہد موجود ہے؟ |