مرزا شاہی۔ ہونٹوں پہ ہنسی، پاؤں میں چھالے

فرش پر آلتی پالتی مارے ، میرے سامنے مرزا شاہی بیٹھے تھے ، رمضان کا مہینہ تھا ،اتوار کا دن تھا اور تاریخ تھی ۷ اگست 2011۔ ان کا اصرار تھا کہ میں شربت ضرور پییوں ، ادھر میں انکاری تھا

” میرا روزہ ہے جناب “ میں ان سے کہتا ہوں

” بھئی ایک گلاس شربت پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا“ ۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے بولے

ایک اسی سالہ بوڑھے بیمار آدمی کی حس مزاح نے ابھی بھی دم نہیں توڑا ہے۔ اس ملاقات سے ایک ہفتہ قبل ایک روز علی الصبح وہ مجھے گلشن اقبال میں اپنے فلیٹ کے نیچے خاموشی سے اپنے رستے لڑکھڑاتے ہوئے جاتے نظر آئے تھے اور میں نے لپک کر ان کو روکا اور ایک تصویر کی درخواست کی تھی۔ ہاتھ میں سبزی کے تھیلے کو چھپاتے ہوئے بچوں کی سی معصومیت لیے اپنی بھاری آواز میں بولے تھے ” بس یہ تھیلا تصویر میں نہ آئے “۔۔ یہ تصویر فیس بک پر شامل کی گئی اور احباب کے پیغامات کا تانتا بندھ گیا کہ مرزا صاحب سے ملاقات کی جائے اور مزید احوال سے آگاہ کیا جائے۔ اس دنیا میں حیرت انگیز باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ہوا یوں کہ مرزا شاہی سے اپنی اس مختصر سی ملاقات کا ذکر میں نے اپنے دفتر میں کیا اور میرے ہی ساتھ کام کرنے والی ایک خاتون نے یہ بتا کر مجھے حیران کردیاکہ ڈھاکہ کی اصفہانی کالونی میں میں مرزا شاہی ان کے ہمسائے تھے۔ پھر وہ دیر گئے مجھے ان کے بارے میں دلچسپ باتیں بتاتی رہیں۔

اور اب اتوار کے دن، انہی کی بیٹھک کے فرش پر براجمان ،میں ان کو باور کروا رہا تھا کہ مرزا صاحب! لوگ آپ سے آ ج بھی محبت کرتے ہیں۔

image
۷ اگست 2011 ۔راقم ، مرزا شاہی کے ہمراہ

لیکن صاحبو! صرف محبت سے تو کام نہیں چلتا ، پرستار تو ہر حال میں محبت کرتے ہی رہیں گے، حکومتی سطح پر ایسا کوئی ادارہ۔۔۔۔۔۔ لیکن ذرا ٹھہرئے۔۔شاید میں بہک رہا ہوں۔ اگر ایسا کوئی ادارہ ہوتا تو لاہور میں لاکھوں پڑھنے والوں کو ان گنت خوبصورت کہانیوں کا تحفہ دینے والے صاحب طرز ادیب اے حمید2010  کی جان لیوا گرمیوں میں بیماری کی کیفیت میں ائیر کنڈشنر کے ہوتے ہوئے بھی اپنے کمرے میں گرمی سے نہ تڑپتے رہتے۔ محض اس لیے کہ بجلی کا بل دینے کے لیے ان کے پاس پیسے نہ تھے۔حمید اختر ان ہی دنوں اے حمید سے مل کر آئے تھے اور سخت افسردہ اور ملول تھے ۔ ادیبوں اور فنکاروں کی زبوں حالی کی بہتیری دردناک مثالیں اور بھی موجود ہیں ۔ مزاحیہ اداکار فرید خان ، اداکار لہری، اداکارہ شہزادی، تاج نیازی کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔

مرزا شاہی کو اپنی تاریخ پیدائش خوب یاد ہے۔ ۱۱ اکتوبر 1931  کے روز وہ کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ وہ ان ایرانی النسل افراد میں سے ہیں جن کے آباؤ اجداد ایران سے برما اور مشرق بعید کے دیگر ممالک میں منتقل ہوگئے تھے۔ کلکتہ ہی سے سینئر کیمبرج کیا۔ ریڈیو کلکتہ سے غزلیں گاتے تھے۔ ’ لگتا نہیں ہے جی میرا اجڑے دیار میں ‘ ان کی پسندیدہ غزل تھی جسے وہ کلکتہ ریڈیو سے گایا کرتے تھے۔ حالات نے کروٹ لی اور مرزا شاہی اپنے اہل خانہ کے ساتھ ڈھاکہ آگئے۔ تلاش معاش شروع ہوئی اور بات بنی عالمی ادارہ صحت میں۔نوکری ان کو راس آئی اور وقت اپنی رفتار سے آگے بڑھتا رہا ۔کبھی وہ ریلوے اسٹیشن کی طرف جانکلتے تھے۔ پلیٹ فارم پر جاپہنچتے، بقول انتظار حسین، آتی جاتی گاڑیوں کے ڈبوں پر نظر دوڑائی، رنگ رنگ کے چہروں کی دید کی، اترتی چڑھتی سواریوں کی رنگا رنگی دیکھی، اچھے چہرے دیکھے، ٹک دیکھ لیا، دل شاد کیا، خوش وقت ہوئے اور چل نکلے۔

لیکن کچھ لوگوں ایسے بھی تو ہوتے ہیں جن کو مصائب و آلام تاحیات اپنی تاک میں رکھتے ہیں۔ مرزا شاہی بھی حالات کی ستم ظریفی کا شکار رہنے والوں میں سے ایک ہیں۔مشرقی پاکستان کے حالات تیزی سے خراب ہونا شروع ہوئے اور ایک روز یوں ہوا کہ مرزا شاہی، اپنے ہی گھر کے سامنے ایک قطار میں کھڑے مکتی باہنی کی جانب سے اپنی ’مکتی‘ کا انتظار کررہے تھے۔لیکن آگے ایک طویل زندگی ان کی منتظر تھی، عین وقت پر ان کے ساتھ دفتر میں کام کرنے والا ایک بنگالی دوست کہیں سے نمودار ہوا اور مکتی باہنی والوں سے ان کی گلو خلاصی کروائی۔ جان بچی اور مرزا صاحب نے ایک مرتبہ پھر ہجرت کا کرب اٹھایا، اس مرتبہ کلکتہ ہی ان کی منزل تھی۔ اپنی چھوٹی بچی کو نیند کی دوا کھلا کر وہ کالونی سے نکلے تھے کہ رستے میں اس معصوم کی ’ اردو ‘ کہیں کسی مصیبت کا شاخسانہ نہ بن جائے۔ کلکتہ میں اپنی چھوٹی سگی خالہ کے چھوٹے سے مکان میں پڑاؤ ڈالا۔ گلی تنگ تھی لیکن دل ابتدا میں کشادہ پائے۔ رفتہ رفتہ حالات سخت ہوتے چلے گئے ۔پیٹ کی خاطر سبزی کا ٹھیلہ تک لگانا پڑا ۔ ایک دن عجب افتاد آن پڑی، شام کو تھکے ہارے گھر پہنچے تو خالہ نے سخت مجبوری کے عالم میں بہت پیار سے کہا کہ بیٹا اب تمہارا اس گھر میں رہنا ہمارے لیے مصیبت کا سبب بن جائے گااور کہیں خفیہ والوں کو علم ہوگیا تو ہم سب دھر لیے جائیں گے۔ سر چھپانے کا یہ سہارا بھی چھن گیا۔

مرزا شاہی اس گلی سے یوں اٹھے جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے۔

مایوسی کے عالم میں یا د آیا کہ قریبی واقع ایک چھوٹے سے شہر ہگلی میں سجاد نامی ایک شخص ہیں جن کو مرزا صاحب کے دادا نے پالا تھا۔سو وہاں کا رخ کیا، کچھ مالی معاونت سجاد صاحب سے پائی اور نیپال جانکلے۔ نیپال میں ایک برس تک قیام کیا ۔ بلاآخر کراچی میں ان کے خاندان والوںنے مدد کی اور یوں مرزا شاہی اہل خانہ سمیت لاہو ر میں براجے۔

لاہور نے اوروں کی طرح ان کو بھی اپنے دامن میں پناہ دی۔ نیف ڈیک میں کسی طور نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ آٹھ برس دیکھتے ہی دیکھتے گزر گئے۔ پھر ’ امیر المومنین ‘ نے نیف ڈیک کو بند کرنے کا حکم صادر کیا، بے روزگاری کے عفریت نے ایک مرتبہ پھر مرزا صاحب کو آن دبوچا۔

اس بار شہر کراچی ان کی منزل تھا۔

image
اس معصوم سے انسان سے کون محبت نہ کرے گا؟

کراچی پہنچے تو روزگار کا بنیادی مسئلہ منہ پھاڑے کھڑا تھا۔اس مرتبہ قسمت نے بس اس حد تک ساتھ دیا کہ سائیٹ ایریا میں واقع رزاق اسٹیل مل میں چھوٹی موٹی نوکری مل گئی۔ اٹھارہ برس کی نوکری کے بعد ریٹائر ہوئے۔ یوں تو لاہور میں فلموں میں چھوٹے چھوٹے کردار کرتے رہے تھے لیکن کراچی آکر ٹی وی میں بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ معاملہ چھوٹے کرداروں سے آگے نہیں بڑھا۔ روٹی روزی چلتی رہی۔حال ہی جیو ٹی وی سے نادانیاں نامی ڈرامہ ایک طویل عرصہ تک نشر ہوکر بند ہوا ہے۔ اس ڈرامے میں مرزا شاہی نے چچا کمال کا کردار ادا کیا تھا۔

کراچی ہی میں انہوں نے اپنی چاروں بیٹیوں کی شادیاں کیں۔

مجھے تھکنے نہیں دیتا میری ضرورتوں کا پہاڑ
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے

” اب لوگ مجھے چچا کمال کے نام سے پکارتے ہیں ‘ ، اصلی نام تو شاید آپ جیسے چند لوگوں ہی کو یاد رہ گیا ہو“ ۔۔۔ وہ بولے۔

کراچی ٹی وی کے ذکر پر میں نے یادگار ڈرامے’ عید ٹرین‘ کا ذکر کیا اور مرزا شاہی جھٹ بولے:
” آپ نے میرا لوٹا تو نہیں دیکھا ؟ ‘ ( مذکورہ ڈرامے میں مرزا شاہی کاایک معروف ڈائیلاگ)
گفتگو کے اس موڑ پر مرزا صاحب سے راقم السطور کی بے تکلفی ا س نہج پر پہنچ چکی تھی کہ بلا تامل معین اختر کا جوابی ڈائیلاگ عرض کیا:
” کچل دوں گا تیرے لوٹے کو ۔۔۔مسئل دوں گا‘
اور وہ بچوں کی طرح کھکھلا کر ہنس پڑے تھے۔

دوران گفتگو جب کوئی بھولی ہوئی بات یاد آتی تو اپنے ماتھے پر ننھے بچوں کی طرح ہاتھ مار کر کہتے: ” افوہ! یہ تو میں بھول ہی گیا تھا “
ایک موقع پر میں نے ان سے ان کی بچپن کی تصاویر کی درخواست کی۔ جواب ملا: ” یہ بچپن آپ کے سامنے جو بیٹھا ہے “

”آپ کو معلوم ہے “ وہ گویا ہوئے۔ ” میں اب تک تقریبا دو ہزار ڈراموں میں کام کرچکا ہوں۔ ففٹی ففٹی پا نچ سال تک چلا تھا اور ہفتے میں اس کے دو پروگرامز نشر ہوتے تھے، اب آپ خود ہی اندازا لگا لیں “

ریٹائرمنٹ کے بعد مرزا شاہی ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہوگئے کہ بیٹھے بیٹھے بے ہوش ہوجاتے تھے اور ہوش میں آنے کے بعد کسی کو نہیں پہچانتے تھے۔ ان کے دماغ میں خون کا ایک شرارتی لوتھڑا اٹکھیلیاں کرتا پھرتاہے، کبھی جو تھک کر بیٹھتا ہے تو مرزا صاحب صاحب فراش ہوجاتے ہیں۔ ایسی شرارتی چیزوں کو سزا دینے کے لیے پہلے جراحی کرنی پڑتی تھی، اب اس کو قابو کرنے کی دوائی دستیاب ہے سو وہ مرزا شاہی کو تاحیات کھانی پڑے گی۔ کچھ عرصے سے وہ گھٹنوں کے درد میں مبتلا ہوگئے ہیں جو انہیں بے طرح سے ستاتا رہتا ہے ، ڈاکٹر ان سے گھٹنوں کی تبدیلی کے سات لاکھ روپے مانگتے ہیں اور وہ مسکرا کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ان کا فلیٹ دوسری منزل پر ہے، سیڑھیاں چڑھنا ان کے لیے اب ایک امتحان سے کم نہیں رہا ہے!

” چند ٹی وی چینل کے لوگوں نے تو یہ غضب کیا کہ مجھے پیسے نہیں دیے، بس وعدہ کرتے رہے۔“ وہ کہہ رہے تھے۔
آج کل کام کررہے ہیں آپ ؟ ۔۔میں ان سے سوال کرتا ہوں
” جی ہاں! ہیلتھ ٹی وی کے ایک ڈرامے میں آرہا ہوں۔“

اور میں سوچنے لگا کہ ہیلتھ ٹی وی والے ان کو کیا معاوضہ دیتے ہوں گے اور کیا وقت پر بھی دیتے ہوں گے؟

”اچھا یہ بتائیے کہ کھانے میں کیا پسند کرتے ہیں آپ “ ؟ ۔۔ یہ سوال پوچھ کر گویا میں نے اپنا ہی دھیان ہٹانے کی کوشش کی تھی!

اس سوال پر پہلے تو وہ ذرا ٹھٹکے ،پھر مسکرا کر بولے : ” دال چاول اور کریلے ’ کا ‘ بھاجی “ ۔۔ یاد رہے کہ روز مرہ کی زندگی میں مرزا صاحب کا لب و لہجہ ان کے بنگالی ہونے کی غمازی کرتا ہے۔

میں ان سے سوال کرتا ہوں: ” مرزا صاحب! آپ کراچی آئے اور اب اس شہر میں آپ کو لگ بھگ تیس برس ہوچلے ہیں، آپ ایسے لوگوں کو ہنساتے ہیں جو ہنسی کے لیے ترسے ہوئے ہوتے ہیں۔یہ الگ بات کہ ان ہنسنے والوں کی ہنسی میں آپ کے دل کے داغوں کی روشنی ہوتی ہے۔ ذرا کوئی تین ایسے نام لیجیے جن کو آ پ صحیح معنوں میں اپنا دوست کہہ سکتے ہوں۔“

اس سوال پر وہ ایک لحظے کے لیے خاموش ہوئے، پھر بولے: ایسا تو ایک ہی تھا ۔۔ معین اختر ۔۔ وہ ایک ایسا شخص تھا جو خبر گیری کرتا تھا۔ مجھے فون کرکے کہتا تھا ، مرزا بھائی! پیسوں کی ضرورت ہو، ڈاکٹر کی یا پھر دوائی کی، بس مجھے بتائیے گا۔۔۔ وہ چلا گیا اور میں گھٹنوں کی تکلیف کی وجہ سے اس کے جنازے میں بھی نہ جاسکا۔۔۔ اب دیکھئے ہم کب جائیں گے “

میں بھاری دل سے مرزا شاہی کے فلیٹ کی سیڑھیاں اترتے وقت اپنے آگے پھیلتے ہوئے اندھیرے میں ایک انسان کی بے بسی کا دکھ اپنے دل میں لیے چلا تھا!
Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 300389 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.