|
|
ڈاکٹروں کا تعلق سیاست سے نہیں ہوتا ہے ان کا کام ہر
تعصب سے بآلاتر ہو کر اپنے مریضوں کا علاج کرنا ہوتا ہے یہ خیالات نوجوان
ڈاکٹر حسنین سعید کے ہیں جو لاہور کے ایک پرائیویٹ ہسپتال سے منسلک ہیں- |
|
انہوں نے اپنے سوشل میڈیا سے ایک پوسٹ شئير کی ہے جس میں
انہوں نے اپنی ایک نائٹ ڈيوٹی کا احوال بیان کیا ہے- ان کا کہنا تھا یہ وہی
رات تھی جس رات پاکستان کی قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی پروسیڈنگ
ہونی تھی- |
|
اپنی ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر حسنین ایمرجنسی وارڈ میں
متعین تھے جہاں رات گئے انہوں نے یہ چیک کیا کہ ایمرجنسی میں لائے گئے تمام
مریضوں کو ٹریٹمنٹ دے دی گئی ہے- اس صورت حال میں یا تو مریض کی حالت زيادہ
خراب ہو تو اس کا داخلہ کر لیا جاتا ہے یا پھر ابتدائی طبی امداد کے بعد
واپس گھر بھیج دیا جاتا ہے- |
|
|
|
اسی دوران ان کی نظر ایک نوجوان لڑکے پر پڑی جو کہ ایک
50 سالہ مریض کا بیٹا تھا جس کی حالت کو دیکھتے ہوئے اس کو نیورلوجی
ڈپارٹمنٹ میں داخلہ تجویز کر دیا گیا تھا- مگر اس آدمی کو اب تک ایمرجنسی
میں دیکھ کر ڈاکٹر حسنین کو حیرت ہوئی اور انہوں نے اس نوجوان سے پوچھا کہ
جب اس کے والد کا ایڈمیشن کا کہہ دیا گیا ہے تو وہ ان کو ایمرجنسی میں کیوں
لے کر بیٹھا ہے- |
|
ان کے اس سوال پر وہ نوجوان پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اس کا
کہنا تھا کہ وہ اپنے والد کا علاج تو کروانا چاہتا ہے مگر ہسپتال داخلے کی
فیس افورڈ کرنا اس کے لیے ممکن نہیں ہے- اس وجہ سے ہسپتال انتظامیہ نے اس
کو کہا ہے کہ وہ اپنے والد کو لے جا سکتا ہے مگر ان کی حالت ایسی نہیں ہے
کہ ان کو لے جایا جائے- |
|
جس پر ڈاکٹر حسنین نے اس نوجوان کو تسلی دی اور اس سے
کہا کہ وہ انصاف صحت کارڈ کی سہولت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جس کے ذریعے اس
کو حکومت کی طرف سے پرائیویٹ ہسپتال میں بھی علاج کی سہولت مفت مل سکتی ہے- |
|
نوجوان کے خاندان کا صحت کارڈ نہیں بنا ہوا تھا جس پر
ڈاکٹر نے اسے مشورہ دیا کہ وہ صبح صبح جا کر یہ کارڈ بنا لے تاکہ اس کے
والد کا علاج شروع کیا جا سکے- جس پر نوجوان نے ڈاکٹر حسنین سے دریافت کیا
کہ صحت کارڈ کل چل جائے گا نا؟ |
|
|
|
ڈاکٹر حسنین کا یہ کہنا تھا کہ انہوں نے پورے یقین کے
ساتھ اس کو کہا کہ وہ کل کارڈ لے آئے تو اس کے والد کا علاج شروع کروا دیا
جائے گا۔ اگلے دن صبح جب وہ نوجوان صحت کارڈ بنوا کر لایا تب تک سیاسی منظر
نامہ تبدیل ہو چکا تھا اور عمران خان کی جگہ شہباز شریف کے سر پر اقتدار کی
ہما بیٹھ گئی تھی اور عمران خان کی حکومت ختم ہو گئی تھی- |
|
شہباز شریف کی حکومت کا اعلان ہوتے ہی سب سے پہلے اسپتال
کی جانب سے صحت کارڈ سے علاج کی سہولیات کو منقطع کرنے کا فیصلہ کیا گیا
اور جب صبح وہ نوجوان صحت کارڈ بنوا کر ہسپتال کاؤنٹر پر پہنچا تو ہسپتال
انتظامیہ نے اس پر علاج کرنے سے انکار کر دیا- |
|
اب یہ تو اللہ ہی جانتا ہے کہ ہسپتال انتطامیہ نے یہ
فیصلہ کسی اعلان کے بعد کیا تھا یا پھر حکومت کی تبدیلی کے سبب ہونے والے
حالات کے سبب کیا تھا- مگر علاج سے انکار کے سبب اس نوجوان جیسے بہت سارے
لوگ اب علاج کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں- |
|
اپنی اس پوسٹ کے آخر میں ڈاکٹر حسنین کا یہ بھی کہنا تھا
ان کا تعلق سیاست سے نہیں ہے مگر انسانیت کے سبب وہ موجودہ حکمرانوں سے یہ
اپیل کرتے ہیں کہ صحت کارڈ کے حوالے سے ایسا کوئی فیصلہ نہ کریں جو دکھی
اور بیمار لوگوں کی تکلیف کا سبب ہو- |