نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف کے نام کھیلوں کی وزارت کے حوالے سے خط
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
کہتے ہیں کہ جس ملک میں کھیلوں کے میدان آباد ہوں وہاں کے ہسپتال ویران رہتے ہیں سابق وزیراعظم کی ناقص پالیسی کے باعث ڈیپارٹمنٹل کھیل ختم ہو کر رہ گئے تھے حالانکہ وہ تبدیلی کا نعرہ لیکر آئے تھے اور انہوں نے اسی تبدیلی سے میدان ویران کردئیے‘ اگر یقین نہیں آتا تو پشاور کے لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم کو دیکھ لیں‘ پی ایس بی پشاور کے جمنازیم کو دیکھ لیں‘ پی ایس بی کے ٹیبل ٹینس ہال کو دیکھ لیں جہاں اب ٹھیکیداری نظام چل رہا ہے |
|
محترم شہباز شریف وزیراعظم پاکستان! عنوان.. ڈیپارٹمینٹل کھیلوں کے حوالے سے کچھ گزارشات جناب عالی!
گزارش ہے کہ کھیلوں کے شعبے سے وابستگی کی وجہ سے چند مسائل کپتان کی حکومت نے پیدا کئے جس کی وجہ سے کھیلوں سے وابستہ افراد کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ ا خصوصا ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ کھلاڑیوں پر جنہیں ختم کرنے کیلئے سابق وزیراعظم عمران خان نے احکامات دئیے تھے جس کی بناء پر سینکڑوں کھلاڑیوں کا مستقبل نہ صرف تاریک ہوگیا بلکہ اب کھیلوں کی جانب غریب عوام کی توجہ بھی کم ہونی شروع ہوگئی ہیں.ا س خط کے ذریعے کچھ گزارشات آپ کی خدمت میں عرض ہے تاکہ کھیلوں کی وفاقی وزارت کی کارکردگی بھی بہتر ہو. یہاں اس بات کا ذکر نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی کہ خیبر پختونخواہ میں کھیلوں کی وزارت جس کے وزیر صوبائی وزیراعلی خیبر پختونخواہ ہیں نے بہت حد تک کھیلوں کے فروغ کیلئے اقدامات اٹھائے ہیں جو لائق تحسین ہیں ان میں نئے گراؤنڈز کی تعمیر سے لیکر کھلاڑیوں کے ماہانہ وظیفے تک شامل ہیں. صوبائی حکومت نے کچھ پراجیکٹ بھی شروع کئے جس کا بنیادی مقصد کھیلوں کی سہولیات کی فراہمی تھی اور یہ وزیراعلی خیبر پختونخواہ کی اچھی کاوش تھی تاہم بعض بیورو کریٹس جو صوبے سے ڈیپوٹیشن پر وفاق میں گئے تھے کی مداخلت کی وجہ سے اس منصوبے کو نقصان پہنچا کیونکہ اس میں ذاتی پسند ناپسند کے فیصلے کئے گئے.ان تمام بیورو کریٹس کے خلاف کاروائی بھی وقتم کی ضرورت ہے.تاہم مجموعی طور پر وزیراعلی خیبر پختونخواہ کی کارکردگی کھیلوں کی وزارت کے حوالے سے بہترین رہی. جناب شہباز شریف صاحب! وفاق میں آنیوالے تبدیلی والی سرکار نے ڈیپارٹمنٹل کھیلوں سے وابستہ تمام کھلاڑیوں سمیت ڈیپارٹمنٹ کو ختم کرنے کیلئے احکامات دئیے تھے اور ان کے احکامات پر مختلف ڈیپارٹمنٹ سے کرکٹ تو مکمل طور پر ختم ہوگئی جبکہ بعض شعبوں میں نئے کھلاڑیوں کو لینے کا سلسلہ بھی بند کردیا گیا جو کہ کھیلوں سے وابستہ افراد کیساتھ زیادتی ہے کیونکہ یہ واحد شعبہ ہے جس کے ذریعے عام لوگوں کو نہ صرف روزگار ملتا بلکہ اس کے باعث وہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کرتے اور قوم کا سرمایہ افتخار بن جاتے.سابق وزیراعظم جنہیں کپتان بھی کہا جاتا ہے کی کپتانی میں ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ کھلاڑیوں کی حالت کیا رہی اس کا اندازہ آپ مختلف ڈیپارٹمنٹ کے کھیلوں سے وابستہ افراد سے بلوا کر پوچھ سکتے ہیں. ان کے سر پر لٹکتی تلوار نے انہیں ذہنی پریشانی سے دوچار کیا تھا, محترم وزیراعظم صاحب! جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ کھیلوں کے شعبے میں زیادہ تر غریب افراد ہی آتے ہیں ان میں ایسے بچے بھی شامل ہوتے ہیں جن کی پڑھائی کا رجحان کم ہوتا ہے تاہم وہ کھیلوں کے شعبے میں اپنا نام بنا لیتے ہیں کرکٹ کے شعبے سے لیکر سکواش‘ باکسنگ‘‘اتھلیٹکس‘ ہاکی سمیت کئی کھیلوں کے کئی لیجنڈ کھلاڑیوں کی تعلیم بنیادی تھی تاہم ان کے اپنے متعلقہ کھیلوں کے شعبوں میں مہارت کو دنیا مانتی ہے.سابقہ کپتان جو کھیل سے وابستہ رہے نے ایسی پالیسی بنائی جس کے باعث والدین نے اپنے بچوں کو کھیلوں کی دنیا سے دو ر کرنا شروع کردیا کیونکہ ان کے پاس واحد آپشن اپنے آپ کوکھیل کے شعبے میں لانے کا تھاجس کے باعث ان کا نام بھی بنتا‘ روزگار بھی ملتا مگر ڈیپارٹمنٹل سپورٹس کو ختم کرنے کیلئے سابقہ تبدیلی والی سرکار کی پالیسی ایسی رہی جو قابل مذمت ہی رہی -تاہم انا‘ خود پسندی‘ اور خوشامدیوں کے ٹولے میں بیٹھے "شہنشاہ اعظم" کو کھیلوں کی وزارت سے کوئی سروکار نہیں تھا‘ اسی وزیراعظم نے پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن سمیت خیبر پختونخواہ اولمپک ایسوسی ایشن میں اپنے بندوں کو لانے کیلئے ایسے ایسے اقدامات اٹھائے جو کہ اس کے شایان شان بھی نہیں تھے لیکن چاپلوس ساتھیوں کے غلط مشوروں کے باعث ڈیپارٹمنٹل کھیل کا بیڑہ سابق کپتان نے کردیا تھا. جناب شہباز شریف صاحب! ان کی حکومت میں بڑا مسئلہ سندھ کی خاتون وزیر کی تعیناتی کا تھا جنہوں نے صرف سندھ تک اپنے پراجیکٹ جاری رکھے‘ سندھ بھی پاکستان کا حصہ ہے لیکن یہ پراجیکٹ اگر پورے پاکستان کی سطح پر برابری کی بنیاد پر ہوتے تو ٹھیک تھا لیکن صرف اپنے حلقے تک سابق وفاقی وزیر کے پراجیکٹ جاری ہوئے‘ پاکستان سپورٹس بورڈ اینڈ کوچنگ سنٹر کا بیڑہ بھی انہی کی وزارت میں غرق ہوا‘ ایسے افراد کو اہم عہدوں پر لایا گیا جو صرف جی حضوری کو پسند کرتے رہیں اور اس جی حضوری کی نتیجے میں سیکورٹی انچارج کراچی میں پی ایس بی کا ڈائریکٹربنا تو پشاور میں سکواش کے ایک عام سے کوچ کو ڈائریکٹر کے عہدے پر پہنچایا گیا دوسری طرف اتنی لوٹ مار کی گئی کہ پاکستان سپورٹس بورڈ اینڈ کوچنگ سنٹر کے صرف پشاور سنٹر کے کئے جانیوالے آڈٹ میں سنگین خرد برد کی نشاندہی کی گئی ہیں پورے ملک میں پی ایس بی کے سنٹرز کا کیا حال ہوگا اس بارے میں مکمل انکوائری کی ضرورت ہے. رہی سہی کسر من پسند ڈی جی کی تعیناتی کے بعد ملازمین کیساتھ کئے جانیوالے ناروا سلوک‘ تبادلوں اور مسلسل جھگڑوں کی صورتحال رہی جس کا اندازہ آپ گذشتہ دو سالوں کا ریکارڈ منگوا کر بھی دیکھ سکتے ہیں.کہ کس طرح اثاثوں کی لوٹ مار سمیت‘ ملازمین کیساتھ زیادتیاں کی گئی اور ساتھ میں مختلف کھیلوں کو مسلسل اگنور کیا گیا اور ٹھیکیداری نظام کو فروغ دیا گیا. اور بیرون ملک کنٹر یکٹر کو مختلف منصوبے دئیے گئے جو ابھی تک مکمل نہیں کئے گئے جس میں پشاور کے لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم کا آسٹرو ٹرف بھی شامل ہیں‘ اسی طرح آٹھ کروڑ روپے سے شروع ہونیوالا ٹھیکہ جو اب بارہ کروڑ تک پہنچ چکا ہے میں پی ایس بی پشار کی ریہیبلٹیشن شامل ہیں.حالانکہ یہاں پر کام کرنے والے تمام اہلکار جن کی روزی روٹی سپورٹس کے شعبے سے وابستگی کی بناء پر ملتی ہیں انتہائی سپورٹس دشمن ہیں. جس کی داستانیں زد عام ہیں. جناب عالی! کہتے ہیں کہ جس ملک میں کھیلوں کے میدان آباد ہوں وہاں کے ہسپتال ویران رہتے ہیں سابق وزیراعظم کی ناقص پالیسی کے باعث ڈیپارٹمنٹل کھیل ختم ہو کر رہ گئے تھے حالانکہ وہ تبدیلی کا نعرہ لیکر آئے تھے اور انہوں نے اسی تبدیلی سے میدان ویران کردئیے‘ اگر یقین نہیں آتا تو پشاور کے لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم کو دیکھ لیں‘ پی ایس بی پشاور کے جمنازیم کو دیکھ لیں‘ پی ایس بی کے ٹیبل ٹینس ہال کو دیکھ لیں جہاں اب ٹھیکیداری نظام چل رہا ہے.ایسے سینکڑوں کام بین الصوبائی وزارت میں کئے گئے جوسپورٹس دشمنی کے زمرے میں آتے ہیں. اس بارے میں ان کو متعدد بار آگاہ بھی کیا گیا لیکن انہوں نے اس حوالے سے اپنے آپ کو "بہرہ‘ کانا اور گونگا"کردیا تھا شائد یہ ان کی کرسی کا نشہ تھا. جو الحمد اللہ ان سمیت متعدد سے نکل چکا ہے.کیونکہ کل من علیہا فان.. ویبقی ذوالجلال والکرام.. کیونکہ ہر چیز کو فنا ہونا ہے اور صرف اللہ کی ذات قائم و دائم رہے گی. محترم شہباز شریف صاحب! چونکہ آپ نے حال ہی میں اپنے عہدے کا حلف اٹھایا ہے اس لئے برائے مہربانی کھیلوں کی وفاقی وزارت ایسے شخص کو دی جائے جو کھیلوں کے فروغ سمیت پی ایس بی کی حالت زار کو ٹھیک کرے اور ڈیپارٹمنٹل سپورٹس سمیت سپورٹس دشمن پالیسی کو ختم کرے یا پھر اس وزارت کو جو اٹھارھویں ترمیم کے بعد ختم ہو چکی ہیں کو مکمل طور پر صوبوں کے حوالے کی جائے تاکہ اس کاانتظام و انصرام صوبے سنھبال سکے اور غیر ضروری طور پر تعینات تمام افراد کو جو تنخواہیں تو لیتے ہیں مگر کچھ نہیں کرتے انہیں گھر بھیج دیا جائے تاکہ قومی خزانے پر بوجھ تو کم ہو.امید ہے کہ آپ ان گزارشات پرعملدرآمد کرینگے. اور اپنی ٹیم میں ایسے شخص کو وزارت دینگے جو کھیلوں اور کھلاڑیوں کی سرپرستی کرنے سمیت کھیلوں کے فروغ کیلئے اقدام اٹھائے..
شکریہ مسرت اللہ جان سپورٹس رپورٹر
|