قانون‘ واکنگ ٹریک‘و پشاورکے اندر بنے بین الاقوامی کھلاڑی


قانون سب پر لاگو ہوگا اور اس پر کوئی کمپرومائز نہیں ہوگی یہ موجودہ حکومت کی تبدیلی کا بڑا نعرہ تھا لیکن اس پر عملدرآمد کتنا ہورہا ہے اس کا اندازہ صرف ا س بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کے زیر انتظام حیات آباد سپورٹس کمپلیکس میں آج سابق وزیراعظم عمران خان کے جلسہ کو دیکھنے کیلئے سکرین لگایا گیا ہے فٹ بال گراؤنڈ‘ آرچری کے مقابلوں سمیت واکنگ ٹریک کے طور پر استعمال ہونیوالے اس گراؤنڈ پر ہونیوالے اس سیاسی گیدرنگ سے صوبائی حکومت اپنی سکورنگ تو کرلے گی لیکن اپنے ہی حکومت کے احکامات کی دھجیاں بھی اڑارہی ہیں کیونکہ اسی حکومت نے کچھ عرصہ قبل احکاما ت جاری کئے تھے کہ کسی بھی سکول اور کھیلوں کے میدان کو کسی بھی سیاسی سرگرمیوں کیلئے استعمال نہیں کیا جائیگااس وقت احکامات جاری کرتے ہوئے حکمران شائد اپوزیشن کے جلسوں سے ڈر رہے تھے لیکن اب چونکہ خود ان کے سر پر آن پڑی ہیں اس لئے اب انہیں اپنی ہی جاری کردہ احکامات یاد نہیں آرہے.

بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی‘ جلسہ بھی ہو جائے گا کوئی بات نہیں‘ لیکن ان کا یہ نعرہ قانون سب پر لاگو ہوگا اور سب کیلئے یکساں ہوگا یہ وہ کیسے لگائیں گے اس کا اندازہ کرسی پر بیٹھے وزیراعلی خیبر پختونخواہ جو کھیلوں کی وزارت کے انچارج بھی ہیں کو نہیں.جس طرح ان کے کپتان کو کرسی سے اترنے کے بعد آہستہ آہستہ اپنی غلطیاں نظر آنی شروع ہوگئی ہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہیں بھی اپنڑی غلطیوں کا احساس ہو جائیگا.ویسے آپس کی بات ہے کہ اسی وزیراعلی نے کھیلوں کی سہولیات کی فراہمی کیلئے نظامت کھیل میں ایک ہزار سہولیات منصوبے کا آغاز کیا‘ اسی فٹ بال گراؤنڈ میں جہاں پر آج جلسہ کو دکھانے کیلئے سکرین لگایا گیا ہے میں واکنگ ٹریک بنایا گیا‘ جس پر لاکھوں روپے لگائے گئے لیکن ماشاء اللہ اتنا غیر معیاری کام کیا گیا کہ واکنگ ٹریک تو لگ نہیں رہا تھا البتہ ٹاکیوں کا ٹریک لگ رہا تھا کیونکہ مختلف جگہوں سے تمام ٹریک ختم ہوگیا تھا جس کی نشاندہی بھی راقم نے کردی اور چھ ماہ بعد سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اپنے ہی زیر انتظام خوابیدہ انجنیئرنگ ونگ کو پتہ چلا اور تقریبا دو ہفتے پہلے نیا واکنگ ٹریک بنا دیا گیا.جو اب تقریبا استعمال کے قابل ہو چکا ہے اور آج سیاسی مقاصد کیلئے پورے پشاور شہر کے لوگوں کو جع کرکے یہاں پر لایا جائیگا تو امکان ہے کہ واکنگ ٹریک ایک مرتبہ پھر " ٹائی ٹائی فش " ہو جائیگا. نہ تو اس سے قبل کے غیر معیاری کام کا وزیراعلی خیبر پختونخواہ نے پوچھا اور نہ ہی امکان ہے کہ مستقبل میں " ٹائی ٹائی فش "ہونیوالے گراؤنڈ کا کوئی پرسان حال ہوگا کیونکہ غریب عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ لگ رہا ہے اس لئے نہ وزیراعلی‘ ان کی وزارت کے بیورو کریٹس اور افسران کو پروا ہے کیونکہ انکی تنخواہیں لگی ہوئی ہیں اور کھیلوں کے نام پر عوام کیساتھ کھیل رہے ہیں.

کھیلوں کی وزارت میں کھیل کر لوگ کتنے سیانے جاتے ہیں کہ ایبٹ آباد جیسے شہر میں کنال کنال کے پلاٹ لیکر بنگلے بنارہے ہیں لیکن مجال ہے کہ نیب‘ انٹی کرپشن سمیت کسی کی نظر پڑی ہو‘ یہ کریڈٹ بھی وزیراعلی خیبر پختونخواہ کو ہی جاتا ہے کہ یہاں تجربے پر تجربے ہورہے ہیں لیکن کوئی تجربہ کامیاب ہوتا نظر نہیں آرہا‘ دنیا بھر میں یہ قانون ہے کہ اگر کوئی بین الاقوامی سطح پر پہچانا جاتا ہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ کھلاڑی باہر کسی بین الاقوامی مقابلے میں حصہ لے اور اسی بنیاد پر وہ پاکستان کلر تک پہنچ سکتا ہے لیکن اس سے قبل کھلاڑی کو کلب لیول سمیت انٹر سٹی‘ ڈسٹرکٹ‘ ریجنل‘ صوبائی اور پھر قومی مقابلوں میں حصہ لینا ہوتا ہے جس کے بعد لوگ بین الاقوامی سطح تک پہنچ جاتے ہیں اور متعلقہ کھلاڑی کی پہنچان ہوتی ہیں لیکن خیبر پختونخواہ کی وزارت ایسی وزارت ہے کہ نہ تو کلب لیول پر کوئی کھیلا ہو‘ نہ ہی انٹرسٹی‘ ڈسٹرکٹ‘ ریجنل اور صوبائی سطح کے مقابلوں میں کوئی پوزیشن حاصل کی لیکن وہ بین الاقوامی سطح پر کھلاڑی بن گیا‘ اور مزے کی بات یہی ہے کہ پاکستان سے گئے گزرے ملک کی ٹیم آئی‘ ٹیم کھیلی یا نہیں کھیلی یہ الگ بات ہے لیکن انٹرنیشنل کھلاڑی ہونے کا اعزاز مل گیا اور پھراسی بنیاد پر نوکریاں بھی بانٹی گئی.ایسی کہانی طلسم ہوشربا میں پڑی تھی لیکن برا ہو گوگل کی انگریزی ٹرانسلیشن کا‘ جس کے ذریعے بہت سارے انگریزی کے صحافی بھی بن گئے نامعلوم تصویر بھی شائع ہوگئی اور پھر... خیر یہ سب کچھ پاپی پیٹ کا کمال ہے..

پاپی پیٹ پر یاد آیا کہ یہ کم بخت بھرتا بھی نہیں‘ پشتون معاشرے میں کہا جاتا ہے کہ جن کی پیٹ خالی ہو انہیں بھرا تو جاسکتا ہے لیکن جن کی آنکھیں بھوکی ہوں انہیں کون پورا کرسکتا ہے.وفاق کے زیر انتظام پاکستان سپورٹس بورڈ اینڈ کوچنگ سنٹر ایک ادارہ ہے جس کا ایک سنٹر پشاور میں بھی ہے حالانکہ اٹھارھویں ترمیم کے بعد اس کی کوئی قانونی حیثیت بھی نہیں لیکن چونکہ ریٹائرڈ افسران کو کہیں کہیں پر ایڈجسٹ کرنا بھی پڑتا ہے اس لئے اتنا بڑا ادار ہ سفید ہاتھی بن کر پورے ملک کے عوام پر مسلط ہے‘اسی ادارے کا حال ہی میں ایک آڈٹ کیا گیا جس کے دوران یہ پتہ چلا کہ کم و بیش تین سال سے زائد کا عرصہ ہوا ہے ہاسٹل کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں اور کم و بیش تین کروڑ روپے کی لاگت کا آڈٹ پیرا آیا ہے جس میں ضم اضلاع خیبر پختونخواہ کی زیر استعمال سامان کا ہاسٹل میں رکھنے کا کرایہ سمیت بہت ساری چیزیں نہ ہونے کی بات کی گئی ہیں اسی بناء پر اب ملازمین کی چھٹیوں کی درخواستیں آنا شروع ہوگئی ہیں تاکہ کم و بیش ایک سال سکرین سے غائب رہ کر حالات کا جائزہ لیا جائے کہ اگر سرکار کا ہاتھ ہولا ہے تو سال بعد آکر دوبارہ جوائننگ سے کسی کو یاد بھی نہیں ہوگا کہ کہاں پر گڑ بڑ ہوئی ہے اور اگر سرکار کا ہاتھ سخت ہوا تو پھر بیرون ملک مزدوری بھی تو ہو سکتی ہیں.اس عمل میں کھیلوں کی وزات سے وابستہ ایک لکھاری کا کردار بھی اہم ہے کیونکہ رشتہ داریاں بھی نبھانی پڑتی ہے اور اس میں بہت سارو ں کے کام نکل جاتے ہیں.اس سارے عمل پر رحمان بابا کا ایک شعر یا د آرہا ہے "کوھی مہ کنہ دبل سڑی پہ لار کے... چرے ستا بہ ھم دا کوھی پہ غاڑہ لار شی..

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 589 Articles with 419489 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More