زمانہ قدیم سے ہم اس لائن سے اگاہ ہیں لیکن کبھی غوروفکر توکیا ہی نہیں ہم
نے!کبھی ہم تدبر میں لاے ہی نہیں کہ یہ پیوستگی کی ہمیں کیونکر تلقین کی گی
ہے؟--ڈاکٹر محمد علامہ محمد اقبال جو نہایت تدبروتفکرکے حامی تھے،اسی بات
کی طرف ہماری توجہ مبزول کروا گیےہیں-
دیکھیں یکجھتی ہی میں برکت ہے-متحدہوناہی طاقت ہے۔ جب ہمیں ہزاروں مثالوں
سے نوید ملی ہے شجر سے وابستگی ہی وجود کے قیام کئیلے لازم و ملزوم تو اخر
کار کیوں ہم پر موسم خزاں کا دور دورہ طاری ہے؟؟تفکر کرنا ہمارا مقصد
ہے!!اہ---جب میں سوچتا ہوں تو لرزاہٹ سی طاری ہو جاتی ہے کہ ہم اپنے مقصد
سے اشناء نہیں!!
دیکھیں اقبال رح جو کہ تفکری سوچ کے مالک تھے اور ہمیشہ ہمیں تفکروتدبر سے
روشناس کراتے رہے، تو ہم اج خود سے سوال کرنے کے حامل تو ہیں نا؟؟؟جتنے بھی
ہمارے سکالرز،شعراء اے انھوں نے بھی متحد ہونے کی تلقین کی-
ارشاد باری تعالی ہے
"وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ إِذْکُنْتُمْ أَعْدَائً
فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖ
إِخْوَانًا۔‘‘ (آلِ عمران: ۱۰۳)
ترجمہ: ’’اور اس کے اس احسان کو یاد کرو جو اُس نے تم پر کیا ہے جب کہ تم
آپس میں ایک دُوسرے کے سخت دُشمن تھے، پھر اُس نے تمہارے دلوں میں اُلفت
پیدا کردی، تم اُس کے فضل سے آپس میں بھائی بھائی ہوگئے۔‘
حضور (صلہ۔۔) جن کی حیات طیبہ ہمارے لئیے عملی نمونہ ہے وہ بھی مسلمانوں کو
ہمیشہ جسدواحد کی ہدایت کرتے رہے۔اخر کار ہمیں حضور صلہ کی زندگی پر عمل
پیرا تو ہونا چاہے۔
معاشرتی پہلو بھی یہاں قابل زکر ہیں ،بھائ بھائ ایک دوسرے سے متنشر
ہے-مسلمانوں کے درمیان کوئ عملی مساوات نظر نہیں اتی۔معاشرے میں رہنے والے
افراد پر موسم خزاں طاری ہے۔ہر فرد شجر سے جدا ہے اور اپنی انفرادی طور پر
پہچان بنانے پر کوشاں ہے۔ازخم تسلیم ہے یہ بات کہ ہمیں معاشرتی پہلو سے کوئ
وابستگی اور روشناس نہیں کرایا جاتا لیکن ہمیں کوشش بھی تو کرنی چاہے تاکہ
ہم ان معاشرتی اقدار سے واقف ہو سکیں۔
عمدہ چال و چلن ہی ہماری پہچان ہے تو کیونکر ہم اس سے اشنا نہیں ہیں؟ کیوں
ہم پر اس شاخ کی طرح موسم خزاں طاری ہے جو درخت سے جدا ہو گئی ہے؟؟ معاشرتی
قدریں بھی اپ کو مجبور کر دیتی ہیں کہ معاشرتی پہلو سے دوری اختیار کر لی
جائے۔لیکن اس کا حل بھی کہ اپ زیور تعلیم سے اراستہ ہوں اور یہ وقت کی
رنجشیں (زنجیروں) کو توڑ ڈالیں-جب اپ اپنے علوم سے فیاض ہو کر دوسرں کو
مستفید کریں گے تو اس دن اپ اپنے معلم ہونے کا حق بجا لایں گے-
خلاصہ بحث مباحثہ خدارا" پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ" کو ہم اپنی
روزمرہ کی زندگی میں اپنا لیں۔متحد و یکجا ہو جائیں، اس سے ہمارا معاشرہ
،ملک و ملت ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا۔ہمیں اپنی معاشرتی اقدار اجاگر کرنے
کی ضرورت ہے۔ان اقدار سے مکمل روشناس ہونا ہمارا پہلا اور اولین فریضہ ہونا
چاہے۔
شجر سے وابستہ ہو جائیں تا کہ دنیا کی کوئ طاقت ہمیں اپنے مقصد سے نا روک
سکے۔حضرت محمد صلہ کی زندگی پر عمل پیرا ہو کر ہم تکمیل کی حدوں کو پار کر
سکتے ہیں۔دعا ہے کہ باری تعالی ہمیں صحیح معنوں میں یکجہت ہونے کی توفیق
عطاء فرماے۔
امین یا رب اللمین!!
ازبخود قلم: محمد رضا جعفری
|