سپاس عقیدت DSP(ر) راجہ عمرخان آف راجپوٹھی

کامیابی اورخوش بختی یہ ہوتی ہے کہ ’’انسان مربھی جائے تو اُسکے نامہ اعمال میں نیکیاں لکھی جاتی رہیں‘‘۔اور پھرزندگی میں اگرنماز و روزہ سے واسطہ ہو۔قرآن اور صاحب قرآن سے رشتہ مضبوط رہا ہو تو یقین کیجئے ۔مرنے کے بعد ایسال چواب کیلئے قرآن خوانی ہویا ختم پڑھاکر کھانا کھلانے سے لیکر ایسال چواب کیلئے کئے گئے دیگراعمال سب فائدہ دینگے ۔یوں تو ہمارے سماج کی روایت ہے کہ جب کوئی دارِفانی سے رخصت ہوجائے تو وقتی ضرورت یا جذبات کے زیراثراظہار افسوس کیا جاتا ہے ۔علامتی طورپردعاکی جاتی ہے ۔اور پھر سماجی روایت کیمطابق چالیسیویں پرختم دعا درودپربات ختم ہوجاتی ہے ۔ بعدمیں زیادہ سے زیادہ ناگزیرمواقع پرمرحوم کا تذکرہ ہوجائے تو الگ بات ۔لیکن ترجیحی طور پر ایسا کچھ نہیں ہوتا۔کچھ گھرانوں میں چندسال تک دعائے مغفرت کا سلسلہ بھی چلتا ہے اور پھروقت کیساتھ ساتھ سب بھول بسرجاتی ہیں ۔کم ازکم ہم اپنی زندگی میں ایسے لاتعداد سبق سیکھے ہوئے ہیں ۔بہرحال آج یہاں میں جس ہستی کا ذکر کررہا ہوں ۔اُنھیں میں جانتاہوں ۔کئی بار واسطہ رہا ۔ایک بزرگ کے اوصاف اُنکی شخصیت میں بدرجہ اُتم موجود تھے ۔راجہ عمرخان سے میری ملاقات چند سال پہلے ہوئی جب سٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں شہدائے وطن کے حوالے سے تقریب کاانعقاد مقصودتھا۔محکمہ سروسزاینڈجنرل ایڈمنسٹریشن سے معمول کی کاغذی کارروائی کے بعداجازت ملی تو سٹیٹ گیسٹ ہاؤس کے انچارج جناب راجہ عمرخان صاحب سے ملا۔چہرے پرمسکراہٹ تھی اور جب بتایا کہ تقریب کے انعقادکی منظوری لی ہے۔تواُنھوں نے اپنے تعاون کا یقین دلایا ۔تقریب کے انتظامی اُمور پربھی صلاح مشورہ بھی ہوا۔اگرچہ ملاقات پہلی تھی ۔مگراجنبیت کا احساس نہیں ہورہا تھااُن کا رویہ متاثرکن تھا۔بعدمیں بھی تقریبات کا سلسلہ چلتا رہا اور راجہ عمرخان صاحب نے ہربار ممکنہ حدتک مہمانوں کی آمد اور مابعد کھانے ،پینے کے انتظامات میں اپنے ماتحت اہلکاروں کی خدمات بھی شامل رکھیں۔بلکہ تقریبات میں شریک بھی رہتے ۔۔۔۔۔۔اور پھروہ وقت آیا کہ جب راجہ عمرخان صاحب کی وفات کی اطلاع پر ایک لمحہ کیلئے عجیب کیفیت محسوس ہوئی ۔جسکا اظہار لفظوں میں نہیں ہوسکتا۔لیکن بے اختیار دعائیہ کلمات زبان سے ادا ہونے لگے ۔بہرحال مرحوم راجہ عمرخان صاحب کی وفات پرہرطبقہ زندگی کے لوگوں کی جانب سے اظہار تعزیت و تسلیت کا سلسلہ جاری رہا۔اور اسی سلسلے کاحتمی مرحلہ تعزیتی ریفرنس تھا ۔جسکے عنوان پر زیرنظر تحریرلکھی جارہی ہے ۔ھالیہ دنوں راجپوٹھی حلقہ کھاوڑہ میں مرحوم راجہ عمرخان کی یاد میں مرحوم کے گھرانے ،قبیلہ ،وعلاقہ سمیت معاشرے و سماج کی ممتاز شخصیات کی شرکت سے تعزیتی ریفرنس ہوا۔مرحوم راجہ عمرکان ساحب کے ہم عصروں کے علاوہ جن لوگوں سے بھی کوئی واسطہ رہا ۔اُنھوں نے خراج عقیدت پیش کیا ۔دعائیہ تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا ۔جسکے بعد نعت رسول مقبول ؐ پڑھی گئی ۔اور پھرعلاقہ میں تعمیروترقی سمیت دیگر حوالوں سے مرحوم کی خدمات وکردار کے حوالے سے اظہار خیال کاسلسلہ چلا۔راجہ عمرخان صاحب کو خراج عقیدت پیش کرنے اور دعائیہ کلمات و فاتحہ کے سلسلے میں منعقدہ تقریب سے معززوممتازشخصیات مفتی کفایت حسین نقوی سینئرممبراسلامی نظریاتی کونسل ،صاحبزادہ محمد سلیم چشتی سجادہ نشین چشت نگر،قاجی محمودالحسن اشرف بطور خاص شریک ہوئے ۔وکلاء برادری ،سماجی و سیاسی شخصیات نے بھی خطاب کیا۔دیگرشرکاء میں راجپوت قبیلہ کی معروف وممتازشخصیات بھی نمایاں تھیں ۔تاہم وہ سب میزبانوں کی صف میں آتے ہیں ۔اس لئے فرداََفرداََسب کا تذکرہ نہیں کرتے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔داعی اتحاد بین المسلمین مفتی کفایت حسین نقوی بتاتے ہیں چندسال پہلے جب کربلائے معلیٰ میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے روضہ مُبارک کے خادمین آزادکشمیرحکومت کے مہمان بنے تومیں سٹیٹ گیسٹ گیا تو دیکھا کہ راجہ عمرخان صاحب ،نواسہ رسول جگرگوشہ بتول سلام اﷲ کے بیٹے کے روضے کے خادمین کی خدمت گزاری کرنے میں بہت مستعدہیں ۔حالانکہ سٹیٹ گیسٹ ہاؤس مظفرآباد کے ملازمین موجد تھے ۔مگر راجہ عمرخان صاحب نواسہ رُسول ؐ کے روضہ کے خادمین سے نہایت عقیدت ومحبت کااظہار کررہے تھے ۔۔۔۔ راجہ عمرخان صاحب کا شماراُن لوگوں میں ہوتا ہے جن کی موت کے بعد بھی اعمال خیرکے ذرائع باقی رہتے ہیں ۔اور سب سے بڑاذریعہ راجہ عمرخان صاحب کابیٹا راجہ زاہد عمرہے ۔جوکہ اپنے والد بزرگوارمرحوم کی بہترین تعلیم و تربیت سے قابل فخر پولیس آفیسر کہلاتاہے ۔ اور نوجوانی سے ہی بارگاہ اﷲ رب العزت میں سجدہ کرنے کا معمول رکھتا ہے۔اور یہ بھی یاد رکھتا ہے کہ آخر موت نے آنا ہے اور اﷲ کے حضورپیش ہونا ہے ۔نیک اولادکا ہونا کتنا اہم ہے ۔یہ تب پتہ چلتا ہے ۔جب انسان دُنیا سے رخصت ہوجائے ۔جس طرح راجہ عمرخان صاحب سے واسطہ رہا ۔اسی طرح اُنکے فرزند راجہ زاہد عمرسے بھی واسطہ رہا۔اور میں نے محسوس کیا کہ بیٹے پرباپ کی تربیت کابہت گہرا اثرہے ۔راجہ عمرخان صاحب کیلئے منعقدہ دعائیہ تقریب میں قاضی محمودالحسن اشرف صاحب نے تجویز دی کہ مرحوم کے ایصال ثواب(صدقہ جاریہ) کیلئے قرآن پاک کی تعلیم دینے کیلئے مدرسہ قائم کیا جائے ۔اس موقع پر ریاست کی بزرگ شخصیت مفتی کفایت حسین نقوی نے کہا کہ نیک کام میں دیرنہیں ہونی چاہیے اور اپنی جیب سے دس ہزار روپے نکال کر مدرسہ کیلئے دے دئیے ۔مجھے قاضی صاحب کی تجویز اور مفتی صاحب کے ردعمل پرکوئی حیرانگی نہیں ہے ۔اﷲ سب پررحم فرمائے ۔بس اتنا کہنا ہے کہ اگراولاد نیک ہوتو وہ اپنے بزرگوں کی قبریں ٹھنڈی رکھنے کا وسیلہ بن جایا کرتی ہے ۔اس اعتبار سے راجہ عمرخان صاحب خوش قسمت انسان ہیں کہ اپنے پیچھے نیک اولاد چھوڑکرگئے ہیں ۔یقین ہے کہ مرحوم فراموش نہیں ہونگے ۔اور اۃنکی روح خوش ہوگی تو اﷲ دونوں طرف کرم فرماتا رہیگا ۔ایک طرف مرھوم کے حق میں نیک اعمال کا ثواب جائیگاتو روح خوش ہونے سے وہاں سے بھی اولاد کیلئے اﷲ کافضل و کرم ہوتا رہیگا۔میری دعاہے کہ اﷲ رب العزت مرحوم راجہ عمرخان صاحب کو اپنی جواررحمت میں اعلیٰ مقام عطافرمائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


 

Agha Safeer Kazmi
About the Author: Agha Safeer Kazmi Read More Articles by Agha Safeer Kazmi: 44 Articles with 48064 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.