ایک تھا پاگل (برداشت کی حد)

اسلام علیکم دوستو! اُمید کرتا ہوں کہ آپ سب خیریت سے ہوں گے اور میں تو خیریت سے ہی ہوں بس آپ کی دعاؤں کا طلبگار ہوں ۔

عنوان : میرے آ ج کے اس آرٹیکل کا عنوان ہیــ" ایک تھا پاگل" تو آج میں آپ سے اپنا تجربہ شئیر کرنے والا ہوں کہ یہ جو پاگل لوگ ہوتے ہیں جو باولے گلیوں میں گھومتے پھرتے ہیں یہ کون لوگ ہوتے ہیں اور کہاں سے آتے ہیں اور یہ پاگل کیسے ہو جاتے ہیں اور اپنے آپ سے باتیں کیوں کرتے رہتے ہیں ؟
انتباہ! سب سے پہلے میں آپ کو بتاتا چلوں کہ یہ جو پاگل لوگ ہوتے ہیں آپ پلیز ان کو تنگ نہ کیا کریں ان کو تنگ کرنا بہت بُر ی بات ہے یہ بیچارے لوگ تو پہلے ہی حالات کے ہاتھوں تنگ ہوتے ہیں ۔

ہر شخص کی برداشت کی کوئی نہ کوئی حد ہوتی ہے اس حد سے زیادہ کوئی بھی شخص برداشت نہیں کر سکتا ہاں کسی شخص کی برداشت کی حد بہت زیادہ ہوتی ہے تو کسی کی کم ہوتی ہے اورہر کوئی اپنی برداشت کی حد تک ہی برداشت کر سکتا ہے اس سے زیادہ وہ برداشت نہیں کر سکتااور اگر کسی شخص کو اس کی برداشت کی حد سے زیادہ تنگ کیا جائے اس کو اس کی برداشت کی حد سے زیادہ اذیت دی جائے تو اس سے یہ چیز برداشت نہیں ہوتی اور وہ پاگل ہو جاتا ہے باولا ہو جاتا ہے خود سے باتیں کرنے لگتا ہے لوگوں کو مارنے لگتا ہے خود کی فکر ختم ہو جاتی ہے کچھ ہوش نہیں رہتااپنی حالت تک نظر نہیں آتی اُس کو ۔

یہ جو پاگل لوگ ہوتے ہیں یہ تو بیچارے رحم کے مستحق ہوتے ہیں شفقت کے مستحق ہوتے ہیں اس لیے پہلے آپ کو بتا چکا ہوں کہ ان کو ہر گز تنگ نہیں کرنا چاہیے بلکہ انکے ساتھ شفقت اور رحم سے پیش آنا چاہیے۔ اب میں آپ دوستوں کو ایک اور بات بتاتا چلوں اور وہ یہ کہ یہ جو پاگل ہوتے ہیں یہ ایک تو حالت کے ہاتھوں پہلے ہی تنگ ہو کر پاگل ہو چکے ہوتے ہیں دوسرا ہمارہ یہ جو معاشرہ ہے یہاں کے لو گ بھی ان شفقت سے پیش آنے کی بجائے ان کو تنگ کرتے ہیں اور ان کو مارتے ہیں ہماری ان حرکتوں کی وجہ سے یہ بیچارے لوگ اور تنگ ہوتے ہیں اور ان کی برداشت ختم ہوتی چلی جاتی ہے اور اپنے پاگل پن کی حد میں اور آگے چلے جاتے ہیں ۔

اب میں آپ سب دوستوں کو کچھ پاگل لوگوں کی حقیت بتاؤں گا کہ وہ کیسے پاگل ہوئے کیسے حالات تھے اُن کے اور میں نے اُن کو خد اپنی آنکھوں سے پاگل ہوتے دیکھا ہے ۔اب میں آپ سب دوستوں کو حقیقی سٹوری بتاؤں گا جس کا عنوان ہی "ایک تھا پاگل"تو چلیں ان کی کہانی میری تحریر ی پڑھیں۔
" ایک تھا پاگل"

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہمارے محلے میں ایک آدمی رہتا تھا جو کہ کافی غریب تھا اور اس گزارہ بہت مشکل سے ہو رہا تھا پھر ایک دن اس شخص کی شادی ہو گئی اور اس کے اخراجات میں بہت اضافہ ہو گیا تھا لیکن آمدن نہ ہونے کے برابر تھی اس کو کوئی کام بھی نہیں مل رہا تھا بس اس شخص کی والدہ جو لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھیں بس اسی کمائی میں ان گزر بسر تھا جتنی بھی تھوڑی بہت تھی ۔

اب ان حالات کے پیش نظر اس کی بیوی ہر وقت اس کو تنگ کرتی رہتی تھی کہ کچھ کماؤ اور اپنا اور میرا خرچہ خد نکالا کرو۔ جبکہ اس کو تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے کوئی کام بھی نہیں مل رہا تھا اور پھر حالات کے ہاتھوں تنگ کر آ کر اس شخص نے گلیوں میں بازاروں میں اور لوگوں کی دکانوں میں صفحائی کا کام شروع کر دیا ۔ لیکن اس کا یہ کام اس کی بیوی کو پسند نا آیا اور وہ ہر وقت دن رات اس کو تنگ کرتی اور کہتی میں ایک چھوڑ کر چلی جاؤں گی تمہیں اور ہر بار وہ شخص اپنی بیوی کو کہتا کہ میں سب ٹھیک کر دوں گا بس یہ تم چھوڑ کر جانے والی بات نا کیا کرواور پھر آہستہ آہستہ ایسا ہوا کہ وہ شخص گلیوں میں صفحائی کرتے ہوئے اپنے آپ سے باتیں کرتا نظر آتا کیوں کہ اس کی برداشت کی حد ختم ہوتی چلی جا رہی تھی اور پھر اس نے خد سے زیادہ باتیں کرنی شروع کر دی کیونکہ اس حالات ٹھیک نہیں ہو رہے تھے اور پھر ایک دن ایسا آیا کہ اس کی بیوی اس کو چھوڑ کر چلی گئی اور جب اس کو یہ بات بتا چلی تو اس سے برداشت نہ ہوئی اور مکمل پاگل ہو گیا اور آج وہ گلیوں میں جھاڑو نہیں لگاتا بلکہ راہ چلتے لوگوں سے پیسے مانگتا ہے خود سے باتیں کرتا ہے دیواروں سے باتیں کرتا ہے اور سب کو کہتا پھرتا ہے کہ " چھوڑ گئی وہ مجھے" اب آپ مجھے کمینٹ کر کے بتائیں کہ ایسے لوگوں کو تنگ کرنا چائیے کہ جو پہلے ہی حالات کے ہاتھوں تنگ ہو کر پاگل ہو چکے ہوتے ہیں ۔

اب میں آپ سب دوستوں کو ایک اور پاگل شخص کی کہانی بتاؤں گا یہ دونوں کہانیاں پڑھنے کے بعد میری طرح آپ بھی پاگلوں سے شفقت سے پیش آئیں گے اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں گے ان پر رحم کرنے لگیں گے ۔

ہمارے محلے میں ایک اور شخص رہتا ہے اس کے بھی گھر کے حالات کچھ اتنے اچھے نہیں تھے لیکن اچھا گزر بسر ہو رہا ہے اس کا ایک بڑا بھائی تھا جو کہیں کام کرتا ہے اور اپنے گھر والوں کا کفیل ہے ۔ یہ چھوٹا بھائی ہے اور جچھ بہنیں بھی ہیں ان کی اور بڑا بھائی ان سب کی کفالت کرتا ہے اور ان کی والدہ حیات ہیں اور اپنے بڑے بیٹے کی زیر کفالت ہیں یہ چھوٹا بھائی اور پڑھا لکھا بھی نہیں ہے اس لیے اس کو کوئی کام پر بھی نہیں رکھتا کچھ ان حالات کی وجہ سے اور کچھ گھر والے اسکو کام نا کرنے اور پیسے نا کمانے کی وجہ سے اسکو تنگ کرتے رہتے تھے اس وجہ سے اس نے پہلے تو خود سے باتیں کرنا شروع کی اور پھر اپنے ہی گھر والوں کی بہت زیادہ باتیں سنانے اور تنگ کرنے کی وجہ سے اس کی برداشت کی حد ختم ہو گئی اور ایک دن وہ مکمل پاگل ہو گیا اور گلیوں محلوں میں جھاڑو لگا کر اپنا گزارہ کرنے لگا ۔ ابھی بھی وہ گلیوں میں جھاڑو لگاتا ہے اور اس کی اس حرکت کی وجہ سے اس کے گھر والے اس سے تنگ ہوتے ہیں اور اس حالت سے پریشان ہیں ۔ گندے کپڑے پہنتا ہے خود سے باتیں کرتا ہے بلا وجہ ہنستا رہتا ہے دن رات گلیوں میں پھرتا ہے ۔ اس کی یہ حالت اس کے اپنوں نے کی جو اس کو بے روزگاری کے تعنے مارتے تھے ۔

اب آپ سب مجھے کمینٹ کر کے بتائیں کہ کیا ان حالات سے تنگ آئے مجبور لوگوں کو تنگ کرنا جائز ہے کہ جو پہلے ہی اپنے حالات سے تنگ ہو کر پاگل ہو چکے ہوتے ہیں ان کی برداشت کی حد ختم ہو چکی ہوتی ہے وہ اور کتنا برداشت کریں انہوں نے اپنے گھر والوں کو بھی برداشت کرنا ہوتا ہے اور اپنے حالات کو بھی برداشت کرنا ہوتا ہے اب کیا وہ آپ کی حرکات کو بھی برداشت کریں ؟
 

Suleman Chughtai
About the Author: Suleman Chughtai Read More Articles by Suleman Chughtai: 5 Articles with 3746 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.