آخر سِتم کی کُچھ تو مُکافات چاہیے

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالجاثیة ، اٰیت 1 تا 11 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
حٰمٓ 1
تنزیل الکتٰب من
اللہ العزیز الحکیم 2
ان فی السمٰوٰت والارض
لاٰیٰت للمؤمنین 3 وفی خلقکم و
ما یبث من دابة اٰیٰت لقوم یوقنون 4 و
اختلاف الیل والنھار وما انزل اللہ من السماء
من رزق فاحیابه الارض بعد موتھا وتصریف الریٰح
اٰیٰت لقوم یعقلون 5 تلک اٰیٰت اللہ نتلوھا علیک بالحق فبایّ
حدیث بعد اللہ واٰیٰتهٖ یؤمنون 6 ویل لکل افاک اثیم 7 یسمع اٰیٰت
اللہ تتلٰی علیه ثم یصر مستکبرا کان لم یسمعھا فبشره بعذاب الیم 8 و
اذا علم من اٰیٰتنا شیئا اتخذھا ھزوا اولٰئک لھم عذاب مھین 9 من ورائہم
جھنم ولا یغنی عنہم ماکسبوا شیئا ولا مااتخذوا من دون اللہ اولیاء ولھم
عذاب عظیم 10 ھٰذا ھدی والذین کفروا باٰیٰت ربہم لھم عذاب من رجز الیم 11
عالَم میں اللہ کا تعارف کرانے والے محمد پر ہدایت و تعارف کی جو یہ کتاب نازل ہوئی ہے یہ کتاب اِس عالَم کے اُس غالب و مُقتدر عالِم کی طرف سے نازل ہوئی ہے جو اِس عالَم کو اپنی اعلٰی تدبیر و اعلٰی حکمت سے اَزل سے اَبد کی طرف چلا رہا ہے ، تُم زمین و آسمان کی جس سمت میں بھی دیکھو گے تمہیں اِن کی ہر ایک سمت میں اُس کی ذات پر ایمان لانے کی شمار دَر شمار نشانیاں نظر آئیں گی لیکن یہ نشانیاں تو اُن ہی لوگوں کی رہنمائی کرتی ہیں جن کے ایمان کے چشمے اُن کی رُوحوں میں بہتے رہتے ہیں ، یقین جانو کہ تُمہاری تَخلیقِ ذات ، تُمہارے لیۓ حیواناتِ زمین کی تَخلیق و خدمات اور اُس کے اِس عالَمِ کرشمات میں اور جو کُچھ بھی تمہیں نظر آرہا ہے اُس میں اُس کی ذات کا اثبات ہی اثبات ہے لیکن اُس کی ذات اور اُس کے اِس اثبات پر تو وہی لوگ ایمان لاتے ہیں جن کے یقین کے سَوتے خُشک نہیں ہوۓ ہوتے ، شب و روز کی یہ آمد و شُد ، ہواؤں کی یہ گردشِ پیہم ، بادلوں کا یہ پھیلنا اور سمٹنا اور بارشوں کا زمین پر برسنا زمین کی وہ روزی ہے جس روزی سے بار بار مرنے والی اِس زمین کو ہم بار بار زندہ کرتے رہتے ہیں تاکہ اِس زمین پر تُمہاری زندگی قائم رہے ، تُم اِک ذرا سوچو اور پھر یہ خُدا لگتی کہو کہ اللہ کی جو باتیں اللہ کے رسُول کی طرف سے تمہیں سنائی جارہی ہیں اگر تُمہارے اہلِ فکر و نظر اللہ کی اِن باتوں پر ایمان نہیں لائیں گے تو پھر تُم خود ہی بتاؤ کہ اللہ کی اِن باتوں کے بعد اور کون سی بات ہے جس بات پر وہ ایمان لائیں گے ، یاد رکھو کہ زمان و مکان کی اِس گھٹا ٹوپ گھاٹی سے وہی لوگ گزر پائیں گے جو اِس کتابِ ہدایت پر ایمان لائیں گے اور جو لوگ اِس کتاب پر ایمان نہیں لائیں گے وہ زمان و مکان کی اِن ہی تاریک راہوں میں ماردیۓ جائیں گے ، اَمرِ واقعہ یہ ہے کہ اِس تنزیل کے یہ مُنکر اِس تنزیل کی حقیقت کو تو سمجھتے ہیں لیکن وہ اپنے غرُورِ نفس کے مُجرمانہ انکار کے باعث اپنے مُتکبرانہ انکار پر ڈٹے ہوۓ ہیں اور اُن کے اِس انکار کا نتیجہ یہ ہے کہ جب اِن کے سامنے اللہ کے یہ اَزلی و اَبدی اَحکامِ نازلہ پیش کیۓ جاتے ہیں تو وہ اِن اَحکامِ نازلہ کے ساتھ تمسخر و استہزا کرتے ہیں کیونکہ یہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ اِس وقت یہ لوگ اِن اَحکامِ نازلہ کے ساتھ جو اہانت آمیز سلُوک کر رہے ہیں وہی اہانت آمیز سلُوک اِن کے ساتھ بھی ہونا ہے ، کاش کہ یہ لوگ اِس حقیقت کو جان سکتے کہ جہنم کے جو شُعلے اِن کی طرف لپک رہے ہیں یہ لوگ جلد یا بدیر اُن شُعلوں کی زد میں آنے والے ہیں اِس لیۓ اِن کی حیات کا یہی ایک حاضر لَمحہ ہے جس حاضر لَمحے میں یہ اِن شُعلوں سے بچ جائیں تو بچ جائیں بصورتِ دیگر جب رجوعِ حق کا یہ لَمحہ گزر جاۓ گا اور جہنم کی جلادینے والی وہ آگ اِن کے قریب پُنہچ جاۓ گی تو اُس وقت اِن کی کوئی دولت یا دوستی اِن کے کسی کام نہیں آۓ گی اِس لیۓ اِن لوگوں کو زندگی کے اسی ایک لَمحے میں حق کا یہ سیدھا راستہ دیکھنا ہو گا اور حق کے اِس سیدھے راستے پر چلنا ہو گا !
مطابِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
ترتیبِ کلام کے اعتبار سے اِس سُورت کا پہلا مضمون تنزیل ، دُوسرا مضمون تَخلیق تیسرا مضمون تحقیق ، چوتھا مضمون یقین علی الآخرت اور پانچواں مضمون ایمان بالتوحید ہے اور یہی آخری مضمون اِس سُورت کا مرکزی مضمون ہے ، قُرآنِ کریم جب اپنے اِس مرکزی و مقصدی مضمون توحید کا ذکر کرتا ہے تو انسان کے دل میں خود بخود ہی یہ خیال بھی در آتا ہے کہ توحید سے قُرآن کی علمی و فکری مُراد اُس خالقِ عالَم کی توحید ہے جس خالقِ عالَم نے اِس عالَم کو تخلیق کیا ہے اِس لیۓ قُرآن سب سے پہلے تو انسان سے اُس خالقِ عالَم کی ہستی کو تسلیم کراتا ہے اور اِس کے بعد اُس خالقِ عالَم کی اُس توحید کی تعلیم دیتا ہے جو توحید انسان پر سب سے پہلے یہ بات ثابت کرتی ہے کہ انسان جس عالَمِ ہست و بُود میں ایک زندہ ہستی کی صورت میں زندہ و موجُود ہے وہ عالَمِ ہست و بُود کوئی بے خُدا عالَم نہیں ہے بلکہ ایک ایسا باخُدا عالَم ہے جس عالَم کو ایک زندہ و موجُود خُدا اپنے ایک طے شُدہ مقصد کے تحت اپنی ایک طے شُدہ منزل سے ایک طے شُدہ منزل کی طرف بڑھا رہا ہے اور اِس کے بعد قُرآن یہ کہتا ہے کہ اُس خالقِ عالَم نے اپنے اِس عالَمِ خلق کو بذاتِ خود تخلیق کیا ہے اور اُس کی اِس تخلیق میں کوئی اور ہستی اُس کے ساتھ شریکِ تَخلیق نہیں ہے ، قُرآن کے اِس دعوے کا جو منطقی نتیجہ برآمد ہوتا ہے وہ نتیجہ یہ ہے کہ اِس عالَم کا خالق ایک ہے اور اِس عالَم میں اُس خالقِ عالَم کا نظامِ اطاعت بھی ایک ہی ہونا چاہیے ، یہی وہ نُکتہِ واحدہ ہے جس نُکتہِ واحدہ پر ایمان لانا انسان کی اُس نجات کا باعث ہوتا ہے جو نجات انسان کو اِس رَنج بھری زندگی سے نکال کر اُس راحت بھری زندگی میں داخل کردیتی ہے جس سے مُراد وہ جنت ہے جو حیاتِ آخرت کے ساتھ جُڑی ہوئی ہے اور یہی وہ نُکتہِ مُوحدہ ہے جس نُکتہِ واحدہ پر ایمان نہ لانا انسان کی اُس عدمِ نجات کا باعث ہوتا جو عدمِ نجات انسان کو اِس چھوٹی رَنج بھری زندگی سے نکال کر اُس بڑی رَنج بھری زندگی میں دھکیل دیتی ہے جس سے مُراد وہ جہنم ہے جو جہنم بھی آخرت کے ساتھ جُڑی ہوئی ہے ، قُرآن کے اِن علمی و فکری مضامین کا محور چونکہ اللہ کی ذاتِ عالی ہے اِس لیۓ قُرآن سب سے پہلے تو اللہ کی ذاتِ عالی کے موجُود ہونے کے حق میں وجُودِ ارض و سما ، وجُودِ سمندر و خلا ، اختلافِ لیل و نہار ، حرکاتِ بادل و برسات ، آبشار و گُلزار اور اَشجار و اَثمار جیسی اُن زندہ و موجُود حقیقتوں کو پیش کرتا ہے جو عالَم میں موجُود ہیں اور پھر قُرآن اِن زندہ و موجُود چیزوں کے وجُودِ موجُود سے اُس زندہ و موجُود ہستی کے وجُود پر استدلال کرتا ہے جو زندہ و موجُود ہستی اِن زندہ و موجُود اَشیاۓ عالَم کی خالق ہے ، خالقِ عالَم کی تخلیق اور خالقِ عالَم کی توحید کی اِس تعلیم کے بعد قُرآن عالَمِ دُنیا کے بعد جب عالَمِ آخرت کی بات کرتا ہے تو عالَمِ آخرت کے بارے میں مِن جُملہ اُن دلائل کے جو اِس سے پہلے گزرچکے ہیں اور مِن جُملہ اُن دلائل کے جو اِس کے بعد آئیں گے اِس مضمون کے اِس مقام پر یہ مُنفرد استدلال بھی کرتا ہے اللہ تعالٰی کا اپنے اِس عالَم کو آغاز سے اَنجام تک اور افتتاح سے اختتام تک پُہنچانے کا منصوبہ اپنی جگہ پر ایک اٹل حقیقت ہے لیکن یہ محض ایک خدائی منصوبہ ہی نہیں ہے جس پر خُدا نے عمل کرنا ہے بلکہ یہ خُدائی منصوبہ انسانی فطرت کا یہ تقاضا بھی ہے کہ مفاد پرستی کے اِس عالَمِ موجُود کے بعد کوئی ایسا عالَم بھی لازمًا آنا چاہیے جس عالَم میں ہر ظالم کو ہر مظلوم پر ظلم و جبر کرنے کی سزا بھی ملے اور ہر مظلوم کو اُس ظالم کا ظلم و ستم سہنے کی جزا بھی دی جاۓ کیونکہ اللہ کی اِس زمین پر قانون و اہلِ قانون کی ہر طبع آرائی کے بعد بھی اور قانون و اہلِ قانون کی ہر قانون آزمائی کے با وجُود بھی زمین پر ہر انسان کو ہر انسان کے ساتھ کوئی نہ کوئی شکایت ہمیشہ سے موجُود رہی ہے اِس لیۓ ہر انسان کی فطرت کی یہ آواز بھی ہمیشہ سے موجُود رہی ہے کہ انسان پر کوئی دن تو ایسا ضرور آنا چاہیے جب ہر انسان کو یَکساں اور بے لاگ انصاف ملے لہٰذا عمل کی اِس دُنیا کے بعد عدل کی اُس دُنیا کا آنا بھی لازم ہے جس دُنیا میں انسان کو اُس کی خواہش کے مطابق وہ عدل و انصاف ملے جو عدل و انصاف انسانی رُوح کا ایک فطری مطالبہ ہے اور اِسی لیۓ اُس عالَمِ آخرت کا برپا ہونا بھی ایک فطری اَمر ہے جو انسانی رُوح و نفس کا ایک فطری مطالبہ ہے ، عالَمِ آخرت پر ایمان و یقین رکھنا اور اُس کا انتظار کرنا انسان کا ایک حق بھی ہے اور انسان کی ایک مجبور بھی ہے اِس لیۓ جو ہستی اِس عالَم و مخلوقِ عالَم کی خالق ہے وہ ہستی اِس عالَم و مخلوقِ عالَم کو وہ انصاف دلانے کا اہتمام بھی کرے گی جو انسان کی فطرت کا تقاضا بھی ہے اور اُس خالقِ عالَم کا اپنی مخلوق کے ساتھ کیا گیا ایک وعدہ بھی ہے تاہم انسان پر یہ اَمر لازم نہیں ہے کہ وہ اُس دن کے آنے سے پہلے خود کُچھ بھی نہ کرے بلکہ اُس پر یہ اَمر لازم ہے کہ وہ جب تک زمین پر زندہ رہے تب تک بذاتِ خود بھی زمین پر اپنی بساط کے مطابق اُس عدلِ اجتماعی کا اہتمام کرتا رہے جس عدلِ اجتماعی کی قُرآن بار بار اُس کو تاکید کرتا ہے اور اٰیاتِ بالا میں اِس عدلِ اجتماعی کے اہتمام کے لیۓ جو شرائطِ عمل بتائی گئی ہیں اُن شرائط میں پہلی شرط اللہ تعالٰی کی یہ تنزیل ہے جس کی کامل تفہیم سے عدلِ اجتماعی کا یہ فریضہ اَنجام دیا جا سکتا ہے ، دُوسری شرط اِس تنزیل کا وہ مطلوبہ علم ہے جو انسان کو عدلِ اجتماعی کا اہل بناتا ہے ، تسیری شرط انسان کا وہ ایمان و یقین ہے جس ایمان و یقین کے تحت انسان یہ فریضہ انجام دے سکتا ہے ، چوتھی چیز اِس تنزیل کے بارے میں وہ علم و تحقیق ہے جو صرف تنزیل کی اٰیات میں ہے اور اِن اٰیات سے باہر کہیں پر بھی نہیں ہے اور آخری شرط انسان کا یومِ آخرت کے حساب و احتساب پر کامل ایمان ہے تاکہ انسان آخرت کے اُس احساسِ جواب دہی کے مطابق اپنے نزاع کے فیصلے کیا کرے ، اگر انسان اِن قُرآنی شرائط کے مطابق فیصلے کرے گا تو اُس کی آخرت کی جوب دہی آسان ہو جاۓ گی کیونکہ قُرآن کے اِس مضمون کا مَنشا انسان کو دُنیا و آخرت کی مُشکلات سے بچانا ہے اور اللہ تعالٰی نے اسی عظیم مقصد کے تحت سیدنا محمد علیہ السلام پر وہ کتابِ حق نازل کی ہے جس کتابِ حق کا اِس سُورت کے آغاز میں ذکر کیا گیا ہے اور جس کتابِ حق کا مقصد نزول عدلِ اجتماعی ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 462660 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More