پاکستان میں سود کے خاتمہ کے لیےکوشش-تاریخ اور تجزیہ

بلا شبہ پاکستان اسلام کے نام اور کلمہ طیبہ کے اعلان و اقرار پر وجود میں آیا۔ملک میں اسلامی شریعت کے علاوہ کسی دوسرے قانون کی بالادستی نہ عقلاً قابل تسلیم ہے اور نہ شرعاً قابل قبول۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے پہلے1956 کے آئین اور 1962 میں تشکیل پائے جانے والے آئین‘ دونوں میں صاف اور غیر مبہم طور پر یہ بات درج تھی کہ حکومتِ پاکستان نظامِ معیشت سے سود کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے بھر پور کوشش کرے گی۔اس کے بعد 1973 کے آئین‘ جو کہ ہماری تاریخ کا متفقہ آئین اور دستور مانا جاتا ہے ‘ میں کہا گیا ہے’’حکومت جس قدر جلد ممکن ہوسکے ربا کو ختم کرے گی۔اور شریعت کورٹ کا فیصلہ اسی بات کی کڑی ہے

بلا شبہ پاکستان اسلام کے نام اور کلمہ طیبہ کے اعلان و اقرار پر وجود میں آیا۔ملک میں اسلامی شریعت کے علاوہ کسی دوسرے قانون کی بالادستی نہ عقلاً قابل تسلیم ہے اور نہ شرعاً قابل قبول۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے پہلے1956 کے آئین اور 1962 میں تشکیل پائے جانے والے آئین‘ دونوں میں صاف اور غیر مبہم طور پر یہ بات درج تھی کہ حکومتِ پاکستان نظامِ معیشت سے سود کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے بھر پور کوشش کرے گی۔اس کے بعد 1973 کے آئین‘ جو کہ ہماری تاریخ کا متفقہ آئین اور دستور مانا جاتا ہے ‘ میں کہا گیا ہے’’حکومت جس قدر جلد ممکن ہوسکے ربا کو ختم کرے گی۔‘‘

آئین1962 کے آرٹیکل 38 کی ذیلی دفعہ کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے ایک دستوری ادارہ قائم کیا گیا ۔چنانچہ 3دسمبر 1969ء کو اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی آئینی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے اپنی ایک رپورٹ میں اتفاقِ رائے سے اس امر کا اظہار کیا کہ ’’ربا اپنی ہر صورت میں حرام ہے اور شرح سود کی کمی بیشی سود کی حرمت پر اثر انداز نہیں ہوتی‘‘۔ مزید یہ کہ موجودہ بینکاری نظام کے تحت افراد ‘ اداروں اور حکومتوں کے درمیان قرضوں اور کاروباری لین دین میں اصل رقم پر جو اضافہ یا بڑھوتری لی یا دی جاتی ہے وہ ربا کی تعریف میں آتی ہے۔ سیونگ سرٹیفکیٹ میں جو اضافہ دیا جاتا ہے وہ بھی سود میں شامل ہے۔ پرویڈنٹ فنڈ اور پوسٹل بیمہ زندگی وغیرہ میں جو سود دیا جاتا ہے وہ بھی ربا میں شامل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ صوبوں ‘ مقامی اداروں اور سرکاری ملازمین کو دیے گئے قرضوں پر اضافہ بھی سود ہی کی ایک قسم ہے ‘ لہٰذا یہ تمام صورتیں حرام اور ممنوع ہیں۔

1980 کو وفاقی شرعی عدالت کا قیام عمل میں آیا لیکن اس کو معاشی معاملات پر فیصلہ کرنے کا اختیار 10 سال تک کے لیے روک دیا گیا جو کہ 1990 میں قدغن ختم ہو گیا اوراسی سال ایک پاکستانی شہری محمود الرحمن فیصل نے وفاقی شرعی عدالت میں ایک پٹیشن نمبر 30/1داخل کی اور عدالت سے استدعا کی کہ رائج الوقت سودی نظامِ معیشت کو غیر اسلامی قرار دے کر اس پر پابندی عائد کی جائے ۔وفاقی شرعی عدالت نے اس کیس اور اسی سے ملتے جلتے 114دیگر کیسز کی مشترک سماعت کی۔ دورانِ سماعت بینکرز ‘ اکانومسٹس ‘ حکومتی نمائندوں اور علماء کو تفصیلی طور پر سنا اور دقیق بحثیں کیں اور تحریر ی اور زبانی بیانات حاصل کیے اور اکتوبر 1991میں 157صفحات پر مشتمل سودی نظام کے خاتمہ کا اپنا تاریخی فیصلہ سنایا۔ وفاقی شرعی عدالت کے مذکورہ بالا فیصلے کو عوامی سطح پر زبر دست پذیرائی ملی اور یہ امید پیدا ہوگئی کہ شاید پاکستان کے قیام کے 45سال بعد اب ہمارا معاشی قبلہ درست ہوجائے گااور عوام کو سود جیسے استحصالی اور ظالمانہ ہتھکنڈے سے نجات مل جائے گی۔ لیکن اس فیصلے کے خلاف نواز شریف حکومت سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بینچ میں اپیل پر چلی گئی۔ یہ اپیل فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ بن گئی ۔ بالآخر 1999کے میں سپریم کورٹ نے سابقہ فیصلے کو برقرار رکھا اور حکومت کو ان قوانین کو تبدیل کرنے کےلیے ڈیڑھ سال کا وقت دے دیا۔ ڈیڑھ سال بعد حکومت نے مزید وقت مانگا تو ایک سال مزید اسے دے دیا گیا۔ جب عدالت کی دی ہوئی مہلت ختم ہونے کو آئی تو یونائیٹڈ بینک کی جانب سےپرویز مشرف کی حکومت نے نظر ثانی کی ایک درخواست عدالت میں داخل کروادی ۔اور پھرسپریم کورٹ کا اپیلیٹ بینچ بھی تبدیل کر دیا تاکہ اپنی مرضی کا فیصلہ کروایا جا سکے۔ چند دن کی مختصر سماعت کے بعد نظرثانی کے لیے تشکیل کردہ پی سی او زدہ بینچ نے انتہائی عجلت میں 24جون 2002ء کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے شریعت اپیلیٹ بینچ کا 23دسمبر 1999کا فیصلہ اور وفاقی شرعی عدالت کا 14نومبر 1991کا فیصلہ بیک جنبش قلم منسوخ کردیا اور مقدمے کو ازسرِ نوسماعت کے لیے دوبارہ وفاقی شرعی عدالت میں بھیجنے کے احکامات صادر کردیے۔ اس طرح اس عدالت نے سابقہ نصف صدی کی طویل کوششوں اور جاں گسل محنتوں کو صفر سے ضرب دے کر معاملہ وہاں پہنچا دیاجہاں سے شروع ہوا تھا۔

انسدادِ سود کی کوششوں کا دورِ ثانی2012سے شروع ہوتا ہے۔ جب 2002 سے زیر التوا کیس دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کرنے کی درخواست دی گئی جس کےبعد کئی سماعتیں ہوئیں اوراسکے بعد ق لیگ، پیپلزپارٹی ، ن لیگ اور تحریک انصاف سمیت سب حکومتیں اس کیس کی مدعی بن کر سودی نظام کو جاری رکھنے کی رٹ کی پیروی کرتی رہیں۔ اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ اعلان جنگ کرتی رہیں۔تب سے تقریباً 20 سال ہوگئے ہیں۔ اس دوران میں کتنے جج آئے اور گئے، کتنے بنچ بنے اور ٹوٹ گئے، لیکن کیس کا فیصلہ نہیں ہورہا تھا۔

آج ستائسویں شب رمضان المبارک، 28 اپریل 2022 کو پھر شرعی عدالت نے ملک سے سودی نظام کے خاتمہ کا دبنگ فیصلہ سنایا ہے۔ اور حکومت وقت کو 5 سالوں میں بلا سود معیشت اور بنکاری کا نظام نافذ کرنے کا حکم صادر کیا ہے۔اور اس وقت بھی ن لیگ کی حکومت ہے۔آج دیکھتے ہیں کہ 1991 کی طرح پھر سود جاری رکھنے کی اپیل کرکے ن لیگ اپنے حصہ میں ذلالت کی مستحق ٹھہرتی ہے یا اس فیصلہ پر عمل کرکے خدا کے ہاں سرخرو ٹھرتی ہے۔ ویسے اس کیس میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی مہلت 60 دن ہیں لیکن حکومت کے پاس 6 ماہ کی مہلت ہے۔ اور یاد رکھیں اللہ کی پکڑ کی کوئی مہلت نہیں۔
شریعت کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس جناب جسٹس محمد نور مسکان زئی اور ان کے ساتھی ججز جناب جسٹس خادم حسین اور جناب جسٹس ڈاکٹر سید انور شاہ پوری قوم کے شکریے کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اس مقدمے کی مسلسل سماعت کرکے اسے انجام تک پہنچا دیا۔

مذہبی سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس اہم مقدمے سے انتہائی لاپروائی برتی گئی لیکن جماعتِ اسلامی اور تنطیم اسلامی واحد استثنا ہیں۔ انہوں نے ابتدا سے آخر تک اس مقدمے کی بھرپور طریقے سے پیروی کی۔ جماعتِ اسلامی کا یہ پوری قوم پر احسانِ عظیم ہے اور اس کے علاوہ جن وکلاء، علماء اور اھل درد نے اس کیس کی پیروی کی، اللہ ان کو اجر عظیم سے نوازے۔بلا شبہ جو لوگ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کی بجائےاللہ کے بنائے ہوئے قوانین کو حمایت اور نافذ کرنے میں کوشاں ہیں۔ وہ اللہ کے خاص بندے ہی ہو سکتے ہیں۔

Tayyab Haneef
About the Author: Tayyab Haneef Read More Articles by Tayyab Haneef: 2 Articles with 1906 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.