انسان کی بصارت اور قُرآن کی بصیرت !!
(Babar Alyas , Chichawatni)
#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالجاثیة ، اٰیت 12 تا 20
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
اللہ
الذی سخر
لکم البحر لتجری
الفلک فیه بامرهٖ و
لتبتغوا من فضلهٖ ولعلکم
تشکرون 12 وسخرلکم مافی
السمٰوٰت وما فی الارض جمیعا منه
ان فی ذٰلک لاٰیٰت لقوم یتفکرون 13 قل
للذین اٰمنوا یغفرواللذین لایرجون ایام اللہ
لیجزی قوما بماکانوا یکسبون 14 من عمل صالحا
فلنفسهٖ ومن اساء فعلیھا ثم الٰی ربکم ترجمون 15 ولقد
اٰتینا بنی اسرائیل الکتٰب والحکم والنبوة ورزقنٰہم من الطیبٰت
وفضلنٰھم علی العٰلمین 16 واٰتینٰھم بینٰت من الامر فمااختلفوا الّا من
بعد ماجاء ھم العلم بغیا بینھم ان ربک یقضی بینھم یوم القیٰمة فیما کانوا
فیه یختلفون 17 ثم جعلنٰک علٰی شریعة من الامر فاتبعھا ولا تتبع اھواء
الذین لا
یعلمون 18 انہم لن یغنوا عنک من اللہ شیئا وان الظٰلمین بعضہم اولیاء بعض
واللہ
ولی المتقین 19 ھٰذابصائر للناس وھدی ورحمة لقوم یوقنون 20
اے ہمارے رسُول ! اہلِ عالَم کو یاد کرائیں اور یقین دلائیں کہ اللہ نے
تُمہارے گردا گرد پھیلے ہوۓ اِن بیکراں سمندروں کو تُمہارے ارادے اور عمل
کے تابع بنا دیا ہے تاکہ تُم اِن سمندروں میں کشتیاں چلا کر اپنے رزق کی
تلاش کے لیۓ زمین کے ایک مسکن سے زمین کے دُوسرے مقام تک آسانی کے ساتھ آجا
سکو اور اللہ نے تُمہارے سروں پر پھیلے ہوۓ خلا اور تُمہارے پیروں میں بچھی
ہوئی زمین کی تمام چیزوں کو بھی تُمہاری دسترس میں دے دیا ہے ، اگر تُم اِن
اَشیاۓ عالَم میں غور و فکر کرتے رہو گے تو تُم کو اپنی اِس سعی و عمل کے
اَنگنت راز اور راستے ملتے جائیں گے ، اسی طرح آپ اہلِ عالَم پر یہ اَمر
بھی کر دیں کہ تُم میں سے جن لوگوں کو اللہ کے اِن اَحکام و انعام کے بارے
میں اطمینان حاصل ہو چکا ہے تو وہ اللہ کی اِن نعمتوں کو ایک دُوسرے سے
چُھپانے کے بجاۓ ایک دُوسرے تک پُہنچانے کا اہتمام کریں اور اپنے ساتھ ہونے
والی اونچ نیچ کا بدلہ اللہ پر چھوڑ دیں کیونکہ تُم میں سے جو انسان جو بھی
مُثبت و مَنفی عمل کرے گا وہ اپنے اُس مُثبت و مَنفی کے عمل کے رَدِ عمل کا
بھی خود ہی سامنا کرے گا کیونکہ اِس عالَم کی ہر شئی اللہ کے قائم کیۓ ہوۓ
اُس مرکزِ انصاف کی طرف بڑھ رہی ہے جس مرکزِ انصاف میں سارے انسانوں کے
سارے اعمالِ نیک و بد کا فیصلے ہو رے ہیں ، اِس سے قبل ہم نے قومِ بنی
اسرائیل کو بھی اپنی اسی کتابِ حکمت و نبوت کی یہی پاکیزہ تعلیم اور یہی
پاکیزہ روزی دی تھی اور ہم نے اپنی اسی کتاب کے اسی علم کی بنیاد پر اُس
قوم کو اُس کی معاصر اقوام میں برتری دی تھی لیکن اُس قوم نے ہمارے اَحکام
میں وہ اختلافی امور پیدا کر دیۓ تھے جن امور کی جزا و سزا کے فیصلے ہم نے
جزا و سزا کے اُس دن پر اُٹھا رکھے ہیں جس دن ہر انسان کے ہر عمل کی جزا و
سزا ظاہر ہو جاۓ گی اور ہم نے یہ فیصلہ اِس لیۓ کیا ہے تاکہ ہر انسان کو
اُس کے عملِ خیر و شر کا ایک مناسبِ عمل صلہ دیا جاۓ لیکن آپ کو ہم نے اپنی
اِس کتاب میں ماضی کے اُن جُز وقتی قوانین کے بعد اپنا جو یہ ہمہ وقتی
قانون دے دیا ہے آپ اسی قانون پر کار بند رہیں اور انسانوں کے بناۓ ہوۓ اُن
فرسودہ قوانین پر کوئی توجہ نہ دیں جن قوانین کے بنانے والے بذاتِ خود بھی
اُن قوانین کی تفہیم سے محروم ہیں اور آپ یہ بات بھی یاد رکھیں کہ زمین کے
ظالم لوگ اللہ کے عادلانہ قانون پر متفق ہونے کے بجاۓ ہمیشہ اپنے ظالمانہ
قانون پر ہی متفق ہوتے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم نے 38 مقامات پر ارض و سما و بحر و بر اور لیل و نہار و شمس و
قمر کی تسخیر کا جن مُختلف صیغوں اور جن مُختلف ضمیروں کے ساتھ ذکر کیا ہے
اُن 38 مقامات میں سے 16 مقامات وہ ہیں جن میں قُرآنِ کریم نے فعل ماضی
معروف کے صیغہ { سَخر } کے ساتھ اُن مظاہرِ قُدرت کی تسخیر کا ذکر کیا ہے
جن مظاہرِ قُدرت کا قُدرت نے انسان کے لیۓ انسان کے ذریعے تسخیر کرنے کا
یومِ ازل ہی سے فیصلہ کیا ہوا ہے ، اِس اَمر کی دلیل یہ ہے کہ مُحوّلہ بالا
16 مقامات میں سے 5 مقامات تو وہ ہیں جن میں قُرآنِ کریم نے اُن مظاہرِ
قُدرت کی تسخیر کا اللہ تعالٰی کی تخلیق کے حوالے کے ساتھ ذکر کیا ہے اور
11 مقامات وہ ہیں جن میں قُرآن نے اُن مظاہرِ قُدرت کا انسان کے زیرِ
استعمال آنے کے حوالے سے ذکر کیا ہے ، تسخیر کے اِس ذکر کا پہلا مقصد اللہ
تعالٰی کی طرف سے انسان کو یہ باور کرانا ہے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے اِس
عالَمِ خلق کے یہ سارے مظاہرِ خلق تخلیق کر کے اپنے حُکم سے اپنے لیۓ اِس
طرح مُسخر کر دیۓ ہیں کہ اُس کے اِس عالَمِ خلق کا ہر ایک مظہر اپنے لَمحہِ
تخلیق سے لے کر اپنے لَحظہِ فنا تک اللہ تعالٰی کی حاکمیت میں رہتے ہوۓ
اللہ تعالٰی کے حُکمِ ذات سے ہی اپنی اپنی مقرر کی گئی اور اپنی اپنی تفویظ
کی گئی حرکت و عمل میں مصروف ہے ، تسخیر کے اِس ذکر کا دُوسرا مقصد اللہ
تعالٰی کی طرف سے انسان کے علم میں یہ بات لانا مطلوب ہے کہ اللہ تعالٰی نے
اپنے عالَمِ خلق میں جتنے بھی مظاہرِ خلق تخلیق اور تسخیر کیۓ ہیں وہ سارے
کے سارے انسان کی اُس علمی و عملی تسخیر کے لیۓ تخلیق کیۓ ہیں جس علمی عملی
تسخیر کے علمِ لازم کو انسان نے حاصل کرنا ہے اور اُس علمِ تسخیر کے حصول
کے بعد انسان نے خود کو اُس عمل کے لیۓ تیار کرنا ہے جس علم و عمل کا نتیجہ
اِس عالَم کی عملی تسخیر پر ہی مُنتج ہوتا ہے ، تسخیر کے اِس ذکر کا تیسرا
مقصد اللہ تعالٰی کی طرف سے انسان کو اِس اَمر کا یقین دلانا ہے کہ قُدرت
نے یہ جو مظاہرِ قُدرت انسانی تسخیر کے لیۓ تخلیق کیۓ ہیں اُن تمام مظاہرِ
قُدرت کو انسان نے جلد یا بدیر مُسخر کرنا ہی کرنا ہے کیونکہ جب تک انسان
اِن مظاہرِ قُدرت کو اپنی خُداد علمی و عملی قُوت سے مُسخر نہیں کرے گا تب
تک انسان زمین کے اسی جہنمی دائرے میں قید رہے گا اور انسان جس وقت تک زمین
کے اِس جہنمی خول میں قید رہے گا اُس وقت تک وہ ارتقاۓ حیات کی اُس منزلِ
مُراد تک نہیں پُنہچ سکے گا جس منزلِ مُراد تک انسان کا پُہنچنا خُدا کو
مطلوب ہے اور جس منزلِ مُراد تک پُہنچانے کے لیۓ اللہ تعالٰی نے انسان کو
اپنے اِس عالَمِ خلق میں تخلیق کیا ہے ، قُرآنِ کریم اِس عالَمِ علم و عمل
کی وہ واحد آفاقی کتاب ہے جو کتاب انسان کو زمین کی اِس پاتال سے نکال کر
عروج و اقبال کے اُس راستے پر گامزن کرنا چاہتی ہے جو راستہ انسان کو اِس
عالَم کا فاتحِ عالَم بنانے کا راستہ ہے اور قُرآنِ کریم اپنی اِن اٰیات کے
اِس ابتدائے کلام کے بعد کی اٰیات میں اِس اَمر کی بھی نشان دہی کرتا ہے کہ
اِس سے قبل اِس کتاب نے تسخیرِ عالَم کی یہی تعلیم پہلی اُن پہلی اقوام کو
بھی دی تھی جن پہلی اقوام میں قومِ بنی اسرائیل ماضی قریب کی ایک قابلِ ذکر
قوم ہے لیکن اُن اقوام نے خُدا کی اِس تعلیم سے رُوگردانی کی تھی اور اُس
رُو گردانی کے باعث اُن اقوام کی بڑی اکثریت زمین سے مٹا دی گئی تھی اور
اُن میں سے ہر قوم کی ایک چھوٹی اور حقیر سی نسل ہی زمین پر باقی رہنے دی
تھی تاکہ انسان کی ساری نسل ہی فنا نہ ہو جاۓ اور اُس کے فنا ہونے کے بعد
قُدرت کا وہ مقصدِ ارتقاء انسانی فکر و خیال سے اتنا دُور نہ چلاجاۓ کہ
انسان رجعتِ قہقری کا شکار ہو جاۓ لیکن انسان فطرت کی اِس رُو رعایت کے
باوجُود بھی تسخیرِ عالَم کے اُس مقصد سے آج بھی اتنا ہی دُور ہے جتنا آج
سے ہزاروں برس پہلے دُور تھا اِس لیۓ عہدِ حاضر کے انسان کو عہدِ حاضر کی
اِس کتاب میں اِس بات کی بھی تعلیم دی گئی ہے کہ ارتقاۓ عالَم کا جو علم
قُدرت کی طرف سے انسانی فکر و عمل کے لیۓ انسان کو ایک رزق کے طور پر دیا
گیا ہے اُس علمی رزق کو انسان ایک دُوسرے سے چُھپانے کے بجاۓ ایک دُوسرے تک
پُہنچانے کا اہتمام کرے تاکہ انسان کی منزلِ مُراد انسان سے مُسلسل دُور
ہونے کے بجاۓ انسان سے مُسلسل قریب ہوتی چلی جاۓ لیکن سُوۓ اتفاق یہ ہے کہ
علم و سائنس کے اِس معجزاتی دور میں بھی دُنیا کی بیشتر اقوام تسخیرِ عالَم
کے اِس عمل سے بہت دُور ہیں اور جہاں تک اِس کتاب کی حامل اُمت کا تعلق ہے
تو وہ ابھی تک اپنے جنسی اعضاء دھونے سے ہی فارغ نہیں ہوئی ہے اِس لیۓ یہ
اُمت آج جہنم کے اُس مقام پر کھڑی ہے جو عالَمِ دُنیا کا آخری اور وادیِ
جہنم کا پہلا کنارا ہے اور کوئی لَمحہ جاتا ہے کہ یہ اُمت جہنم کے اُس گڑھے
میں گر کر اپنے آخری اَنجام کو پُہنچ جاۓ ، اَب انسان کے ایک طرف تو انسانی
بصارت کا فتُور ہے جو انسان کو ایک دائمی رَنج کی طرف لیجاتا ہے اور دُوسری
طرف قُرآنی بصیرت کا یہ نُور ہے جو انسان کو ایک دائمی راحت کی طرف بلاتا
ہے اور یہ فیصلہ تو انسان نے بہر حال خود ہی کرنا ہے کہ اُس نے کس راستے پر
جانا ہے اور کس راستے پر نہیں جانا ہے !!
|
|