قُرآن اور تاریخِ زمانہ و زمانہ پرستی !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالجاثیة ، اٰیت 21 تا 24 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ام حسب
الذین اجترحواالسیاٰت
ان نجعلھم کالذین اٰمنوا
وعملواالصٰلحٰت سواء محیاھم
ومماتھم ساء مایحکمون 21 وخلق
اللہ السمٰوٰت والارض بالحق ولتجزٰی
کل نفس بما کسبت وھم لایظلمون 22
افرءیت من اتخذ الٰھهٗ ھوٰه واضله اللہ علٰی
علم وختم علٰی سمعهٖ وقلبهٖ وجعل علٰی بصرهٖ
غشٰوة فمن یھدیه من بعداللہ افلا تذکرون 23 و
قالوا ماھی الا حیاتنا الدنیا نموت و نحیا وما یھلکنا
الا الدھر ومالھم بذٰلک من علم ان ھم الا یظنون 24
اہلِ زمین و اہلِ زمانہ کا یہ خیال کتنا غیر مَنطقی خیال ہے کہ ہماری زمین اور ہمارے زمانے میں جو اہلِ زمین و جو اہلِ زمانہ ہمارے اہلِ زمین و اہلِ زمانہ کو اپنے مَنفی اعمال سے رَنج دیں گے اور جو اہلِ زمین و اہلِ زمانہ اپنے مُثبت اعمال سے ہمارے اہلِ زمین و اہلِ زمانہ کو راحت دیں گے تو ہم اُن کو ایک ہی درجے کی موت و حیات دیں گے اور ایک ہی درجے کی جزا و سزا کا حق دار بنا دیں گے حالانکہ ہم نے اِس زمین و آسمان کے اِس عالَمِ خلق کو ایک ایسے عدل و توازن کے ساتھ تخلیق کیا ہے کہ اِس میں جو بھی مُثبت و مَنفی عمل ہوتا ہے اُس عمل کا ایک نتیجہِ عمل ہوتا ہے اور اِس کا جو نتیجہِ عمل ہوتا وہ ایک عادلانہ جزا و سزا کا متقاضی ہوتا ہے لیکن یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم لوگ چونکہ عقل و شعور کے مالک ہیں اِس لیۓ ہمیں وحی کی ضرورت نہیں ہے اور اِن لوگوں نے اپنی اسی گمراہی کے باعث علمِ وحی سے اپنے دل و دماغ اور اپنی سماعت و بصارت کے سارے راستے سربمُہر کر دیۓ ہیں اور اپنے اسی اندھے پن کی وجہ سے یہ بھی فرض کر لیا ہے کہ موت و حیات زمانے ہی کی ایک کروٹ ہے جس سے انسان پر زندگی اور موت آتی ہے اِس لیۓ ہماری اِس زندگی پر جو موت آۓ گی اُس کے بعد کوئی زندگی نہیں ہو گی لیکن اِن کا یہ گمان محض ایک بے دلیل گمان ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
خالقِ عالَم کا یہ عالَمِ خلق جمادات و نباتات اور حیوانات کے جن اَجسام سے عبارت ہے اور اُن اَجسام کے سب سے بلند ترین درجے پر جو انسان فائز ہے اُس انسان نے مُختلف زمانوں میں اپنے جس بلند ترین درجے سے گر کر عالَمِ پست و بالا کی جن پست ترین چیزوں کی جو پست ترین پرستش کی ہے اُس پرستش میں اُس کی چاند پرستی و سُورج پرستی ، ستارہ پرستی و سیارہ پرستی ، آب پرستی و آتش پرستی ، اَشجار پرستی و آثار پرستی ، پیر پرستی و پَری پرستی ، جن پرستی و انسان پرستی ، بیت پرستی و بُت پرستی ، اَجسام پرستی و اَصنام پرستی کے جو مراجعاتِ شرک شامل رہے ہیں اُن مراجعاتِ شرک کی تاریخی تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس عالَمِ پست و بالا کی شاید کوئی بھی ایسی پست و بالا چیز نہیں ہے جس کی انسان نے کبھی نہ کبھی پرستش نہیں کی ہے ، انسان کے اِن مراجعاتِ شرک کا انسانی کتابوں میں بھی ذکر ملتا ہے اور آسمانی کتابوں میں بھی ذکر ملتا ہے لیکن قُرآنِ کریم نے سُورتِ بالا کی اٰیتِ بالا میں انسان کی زمانہ پرستی کے جس شرک کا ذکر کیا ہے اُس شرک کا تعلق جمادات و نباتات اور حیوانات کے اُس محسوس مکانی دائرے کے ساتھ نہیں ہے جس محسوس مکانی دائرے پر زمانے کا ایک غیر محسوس پر تَو چھایا ہوا ہے بلکہ یہ زمانے کا وہ غیر محسوس زمانیت ہے جس کے ایک غیر محسوس حلقے سے ہماری یہ محسوس مکانیت گزر رہی ہے ، قُرآنِ کریم کے اِس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان نے اِس زمان و مکان کا تو ہر زمکان میں اقرار کیا ہے لیکن اُس خالقِ زمان و مکان کا ہر زمان و مکان میں انکار کیا ہے جس خالقِ زمان و مکان نے اِس زمان و مکان کو تخلیق کیا ہے ، اللہ تعالٰی جو اَزل سے اَبد تک پھیلے ہوۓ اِس زمانے کے ہر ایک لَمحے کا خالق ہے لیکن انسان کا ایک طرف تو اُس خالق کے خالق ہونے کا انکار کرنا اور دُوسری طرف اُس زمانے کے حلقے میں آنے والی ہر ایک زندہ چیز کے خالق ہونے کا انکار کرنا اور تیسری طرف اُس کے اُس زمانے کے حلقے میں آکر مر جانے والی ہر ایک چیز کے ہالک ہونے کا بھی انکار کرنا چوتھی طرف اُس کے تخلیق کیۓ ہوۓ اُس زمانے کے خالق و ہالک ہونے پر اصرار کرنا ایک پہلو سے تو انسان کا وہ مُجرد شرک کرنا ہے جس شرک کی کوئی معافی اور تلافی نہیں ہے لیکن دُوسرے پہلو سے خُدا کے بناۓ زمانے کو خُدا ماننا انسان کا اُس حسابِ آخرت سے بھی انکار کرنا ہے جس حسابِ آخرت کی ہر نبی نے اپنی اُمت کو تعلیم دی ہے اور زمانہ پرستی کے اِس اعتقاد کا بنیادی مقصد بھی حسابِ آخرت کے اُس نظریۓ کا انکار کرنا ہے جس کا ہر نبی نے پرچار کیا ہے کیونکہ جب انسان حسابِ آخرت سے خود کو آزاد کر دیتا ہے تو پھر وہ خود کو حسابِ آخرت سے آزاد جان کر ہر اُس کارِ شر کے لیۓ خود کو آزاد کردیتا ہے جس کارِ شر سے اللہ تعالٰی کی وحی اُس کو روکتی ہے اور اِس دلیل کے ساتھ روکتی ہے کہ اِس عالَم میں ہر مُثبت و مَنفی عمل کا ایک مُثبت و مَنفی نتیجہِ عمل ہے اور ہر مُثبت و مَنفی عمل کا جو نتیجہِ عمل ہے اُس کی ایک لازمی جزا اور سزا ہے لیکن جب کوئی انسان عمل کے نتیجہِ عمل اور سزاۓ عمل سے آزاد ہوجا تا ہے تو وہ ہر اُس دینی و اخلاقی جُرم کے لیۓ بھی آزاد ہو جاتا ہے جس جُرم کی ایک لازمی سزا ہوتی ہے اِس لیۓ حسابِ آخرت کا وہی لوگ انکار کرتے ہیں جو ایک دینی و انسانی معاشرے میں رہتے ہوۓ اُس دینی و انسانی معاشرے کی قانونی بندشوں سے اپنی جان چھڑانا چاہتے ہیں اور جو لوگ ایک دینی و انسانی معاشرے میں رہتے ہوۓ اُس دینی و انسانی معاشرے کی دینی و انسانی پابندیوں سے آزاد ہو جاتے ہیں تو پھر اُس دینی و انسانی معاشرے کے وہ قوانین بھی اُن کی سرکوبی کے لیۓ حرکت میں آجاتے ہیں جو قوانین ہر دینی و انسانی معاشرے نے اُن مُجرم لوگوں کی سرکوبی کے لیۓ اپنے قوانینِ لازم کے طور پر اختیار کیۓ ہوۓ ہوتے ہیں ، قُرآنِ کریم نے زمانہ پرستوں کا یہ قول انسان کو یہ بات سمجھانے کے لیۓ نقل کیا ہے کہ یہ عالَمِ خلق اپنا خالق آپ نہیں ہے اِس لیۓ اِس کے یہ زمان و مکان بھی اپنے خالق آپ نہیں ہیں بلکہ جس طرح اِس عالَمِ خلق کا خالق اللہ تعالٰی ہے اسی طرح اِس عالَم کے زمان و مکان کا خالق بھی اللہ تعالٰی ہی ہے ، قُرآنِ کریم نے اٰیتِ بالا میں جس زمانے کا ذکر کیا ہے اُس زما نےکا قُرآن نے { دھر } کے نام سے ذکر کیا ہے اور لفظِ دھر کا اطلاق چونکہ زمانے کے آغاز سے اَنجام تک کے سارے دورانیۓ پر ہوتا ہے اِس لیۓ اہلِ روایت نے اِس اٰیت کے ضمن میں یہ اچھوتی بانگی ہانکی ہے کہ اُن کی ایک حدیث قُدسی میں اللہ تعالٰی نے یہ ارشاد فرمایا ہوا ہے کہ دہر کو ہرگز بُرا نہ کہو کیونکہ حقیقت میں اللہ ہی دہر ہے ، اگر اِن کی اِس قُدسی حدیث کو درست مان لیا جاۓ تو پھر اللہ تعالٰی کی ذاتِ عالی کہاں کی بے مثل اور کہاں کی بے مثال رہ جاتی ہے کہ انسان نے زمانے کے 60 سیکنڈ کا ایک منٹ ، 60 منٹ کا ایک گھنٹہ ، 24 گھنٹے کا ایک دن ، 30 دن کا ایک ماہ اور 12 ماہ کا ایک سال بنا کر اِس کو بے مثل و بے مثال ہونے سے محروم کر دیا ہے اِس لیۓ جس طرح اہلِ روایت کا وجُود باطل کا ایک نمائندہ وجُود ہے اسی طرح اُن کی یہ روایت بھی باطل کی ایک نمائدہ روایت ہے !!
 
Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 461032 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More