اخلاق اور رحم

معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 251
عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « لاَ يَرْحَمُ اللَّهُ مَنْ لاَ يَرْحَمُ النَّاسَ » (رواه البخارى)
دوسروں پر رحم کھانے والے اللہ کی رحمت کے مستحق ہیں
حضرت جریر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت سے محروم رہیں گے جن کے دلوں میں دوسرے آدمیوں کے لیے رحم نہیں اور جو دوسروں پر ترس نہیں کھاتے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
اس حدیث میں " الناس " کا لفظ عام ہے، جو مومن و کافر اور متقی و فاجر سبکو شامل ہے، اور بلا شبہ رحم سب کا حق ہے، البتہ کافر اور فاجر کے ساتھ سچی رحمدلی کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہونا چاہئے کہ اس کے کفر اور فجور کے انجام کا ہمارے دل میں درد ہو، اور ہم اس سے اس کو بچانے کی کوشش کریں، اس کے علاوہ اگر وہ کسی دنیوی اور جسمانی تکلیف میں ہو، تو اس سے اس کو بچانے کی فکر کرنا بھی رحمدلی کا یقیناً تقاضا ہے، اور ہم کو اس کا بھی حکم ہے۔

معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 252
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : الرَّاحِمُونَ يَرْحَمُهُمُ الرَّحْمَنُ ، ارْحَمُوا مَنْ فِي الأَرْضِ يَرْحَمْكُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ . (رواه ابو داؤد والترمذى)
دوسروں پر رحم کھانے والے اللہ کی رحمت کے مستحق ہیں
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: رحم کرنے والوں اور ترس کھانے والوں پر بڑی رحمت والا خدا رحم کرے گا، زمین پر رہنے بسنے والی اللہ کی مخلوق پر تم رحم کرو تو آسمان والا تم پر رحمت کرے گا۔ (سنن ابی داؤد و جامع ترمذی)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ خدا کی خاص رحمت کے مستحق بس وہی نیک دل بندے ہیں جن کے دلوں میں اللہ کی دوسری مخلوق کے لئے رحم ہے۔ اس حدیث میں زمین میں رہنے بسنے والی اللہ کی ساری مخلوق پر رحم کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے، جس میں انسانوں کے تمام طبقوں کے علاوہ جانور بھی شامل ہیں، آگے آنے والی حدیثوں میں اس عموم کی صراحت بھی کی گئی ہے۔

معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 253
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " بَيْنَمَا رَجُلٌ يَمْشِي بِطَرِيقٍ ، اشْتَدَّ عَلَيْهِ العَطَشُ ، فَوَجَدَ بِئْرًا فَنَزَلَ فِيهَا ، فَشَرِبَ ثُمَّ خَرَجَ ، فَإِذَا كَلْبٌ يَلْهَثُ ، يَأْكُلُ الثَّرَى مِنَ العَطَشِ ، فَقَالَ الرَّجُلُ : لَقَدْ بَلَغَ هَذَا الكَلْبَ مِنَ العَطَشِ مِثْلُ الَّذِي كَانَ بَلَغَ بِي ، فَنَزَلَ البِئْرَ فَمَلَأَ خُفَّهُ ثُمَّ أَمْسَكَهُ بِفِيهِ ، فَسَقَى الكَلْبَ فَشَكَرَ اللَّهُ لَهُ فَغَفَرَ لَهُ " قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَإِنَّ لَنَا فِي البَهَائِمِ أَجْرًا؟ فَقَالَ : « نَعَمْ ، فِي كُلِّ ذَاتِ كَبِدٍ رَطْبَةٍ أَجْرٌ » (رواه البخارى ومسلم)
ایک شخص پیاسے کتے کو پانی پلانے پر بخش دیا گیا
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس اثناء میں کہ ایک آدمی راستہ چلا جا رہا تھا، اُسے سخت پیاسلگی، چلتے چلتے اُسے ایک کنواں ملا، وہ اس کے اندر اُترا اور پانی پی کر باہر نکل آیا، کنوئیں کے اندر سے نکل کر اُس نے دیکھا کہ ایک کتا ہے جس کی زبان باہر نکلی ہوئی ہے اور پیاس کی شدت سے وہ کیچڑ کھا رہا ہے، اس آدمی نے دل میں کہا کہ اس کتے کو بھی پیاس کی ایسی ہی تکلیف ہے جیسی کہ مجھے تھی، اور وہ اس کتے پر رحم کھا کر پھر اس کنوئیں میں اُترا اور اپنے چمڑے کے موزے میں پانی بھر کر اُس نے اُس کو اپنے منہ سے تھاما اور کنوئیں سے باہر نکل آیا، اور اُس کتے کو وہ پانی اُس نے پلا دیا، اللہ تعالیٰ نے اس کی اس رحمدلی اور اس محنت کی قدر فرمائی اور اسی عمل پر اس کی بخشش کا فیصلہ فرما دیا۔ بعض صحابہ نے حضور ﷺ سے یہ واقعہ سُن کر دریافت کیا، کہ: یا رسول اللہ! کیا جانوروں کی تکلیف دور کرنے میں بھی ہمارے لئے اجر و ثواب ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں! ہر زندہ اور تر جگر رکھنے والے جانور (کی تکلیف دور کرنے) میں ثواب ہے۔ (بخاری و مسلم)

تشریح
بعض اوقاتایک معمولی عمل دل کی خاص کیفیت یا خاص حالات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے یہاں بڑی قبولیت حاصل کر لیتا ہے، اور اس کا کرنے والا اُسی پر بخش دیا جاتا ہے، اس حدیث میں جس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے اُس کی نوعیت بھی یہی ہے۔ آپ ذرا سوچئے! ایک شخص گرمی کے موسم میں اپنی منزل کی طرف چلا جا رہا ہے، اُس کو پیاس لگی ہے، اسی حالت میں اُس کو ایک کنواں نظر پڑ گیا، لیکن پانی نکالنے کا کوئی سامان رسی ڈول وغیرہ نہیں ہے اس لئے مجبوراً یہ شخص پانی پینے کے لئے خود ہی کنوئیں میں اتر گیا، وہیں پانی پیا اور نکل آیا، اب اُس کی نظر ایک کتے پر پڑی، جو پیاس کی شدت سے کیچڑ چاٹ رہا تھا، اُس کو اُس کی حالت پر ترس آیا، اور دل میں داعیہ پیدا ہوا کہ اس کو بھی پانی پلاؤں، اُس وقت ایک طرف اس کی اپنی حالت کا تقاضا یہ ہو گا کہ اپنا راستہ لوں اور منزل پر جلدی پہنچ کے آرام کروں، اور دوسری طرف اُس کے جذبہ رحم کا داعیہ یہ ہو گا کہ خواہ میرا راستہ کھوٹا ہو، اور خواہ کنوئیں سے پانی نکالنے میں مجھے کیسی ہی محنت مشقت کرنی پڑے لیکن میں اللہ کی اس مخلوق کو پیاس کی تکلیف سے نجات دوں، اس کشمکش کے بعد جب اُس نے اپنی طبیعت کے آرام کے تقاضے کے خلاف جذبہ رحم کے تقاضے کے مطابق فیصلہ کیا اور کنوئیں میں اُتر کر موزے میں پانی بھر کر اور منہ میں موزا تھام کر محنت و مشقت سے پانی نکال کے لایا، اور اُس پیاسے کتے کو پلایا تو اُس بندہ کی اس خاص حالت اور ادا پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جوش آ گیا، اور اسی پر اس کی مغفرت کا فیصلہ فرما دیا گیا۔ الغرض مغفرت و مخشش کے اس فیصلہ کا تعلق صرف کتے کو پانی پلانے کے عمل ہی سے نہ سمجھنا چاہئے، بلکہ جس خاص حالت میں اور جس جذبہ کے ساتھ اُس نے یہ عمل کیا تھا، وہ اللہ تعالیٰ کو بے حد پسند آیا، اور اسی پر اس بندہ کی مغفرت اور بخشش کا فیصلہ کر دیا۔

معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 255
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ ، فَانْطَلَقَ لِحَاجَتِهِ فَرَأَيْنَا حُمَّرَةً مَعَهَا فَرْخَانِ فَأَخَذْنَا فَرْخَيْهَا ، فَجَاءَتِ الْحُمَّرَةُ فَجَعَلَتْ تَفْرِشُ ، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : « مَنْ فَجَعَ هَذِهِ بِوَلَدِهَا؟ رُدُّوا وَلَدَهَا إِلَيْهَا » . وَرَأَى قَرْيَةَ نَمْلٍ قَدْ حَرَّقْنَاهَا فَقَالَ : « مَنْ حَرَّقَ هَذِهِ؟ » قُلْنَا : نَحْنُ . قَالَ : « إِنَّهُ لَا يَنْبَغِي أَنْ يُعَذِّبَ بِالنَّارِ إِلَّا رَبُّ النَّارِ » (رواه ابو داؤد)
چڑیوں اور چیونٹیوں تک کو ستانے کی ممانعت
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے صاحبزادے عبدالرحمٰن اپنے والد ماجد سے روایت ہے کہ ایک سفر میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، آپ قضاء حاجت کے لئے تشریف لے گئے، اس اثناء میں ہماری نظر ایک سرخ چڑیا (غالباً نیک کنٹھ) پر پڑی، جس کے ساتھ چھوٹے چھوٹے اُس کے دو بچے بھی تھے ہم نے اُن بچوں کو پکڑ لیا، وہ چڑیا آئی اور ہمارے سروں پر منڈلانے لگی، اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے، آپ نے فرمایا، کس نے اس کے بچے پکڑ کر اسے ستایا ہے؟ اس کے بچے اس کو واپس کر دو۔ اور آپ نے چیونٹیوں کی ایک بستی دیکھی (یعنی زمین کا ایک ایسا ٹکڑا جہاں چیونٹیوں کے بہت سوراخ تھے اور چیونٹیوں کی بہت کثرت تھی) ہم نے وہاں آگ لگا دی تھی۔ آپ نے فرمایا: کس نے ان کو آپ سے جلایا ہے؟ ہم نے عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ ہم نے ہی آگ لگائی ہے۔ آپ نے فرمایا آگ کے پیدا کرنے والے خدا کے سوا کسی کے لئے یہ سزاوار نہیں ہے کہ وہ کسی جاندار کو آگ کاعذاب دے۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
اس حدیثوں سے معلوم ہوا کہ جانوروں حتی کہ زمین کی چیونٹیوں کا بھی حق ہے کہ اُن کو بلا وجہ نہ ستایا جائے۔
معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 256
عَنِ عَبْدِ اللهِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، : « دَخَلَتِ امْرَأَةٌ النَّارَ فِي هِرَّةٍ رَبَطَتْهَا ، فَلَمْ تُطْعِمْهَا ، وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الأَرْضِ » (رواه البخارى ومسلم)
بلی کو باندھ کے بھوکا مار ڈالنے والی سنگدل عورت دوزخ میں گئی
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: ایک بے درد اور بے رحم عورت اس لئے جہنم میں گرائی گئی کہ اُس نے ایک بلی کو باندھ کے (بھوکا مار ڈالا) نہ تو اسے خود کچھ کھانے کو دیا اور نہ اُسے چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑوں سے اپنی غذا حاصل کر لیتی۔ (بخاری مسلم)

تشریح
حضرت جابرؓ کی ایک روایت سے جو صحیح مسلم میں مروی ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بے درد اور بے رحم عورت بنی اسرائیل میں سے تھی اور آنحضرت ﷺ نے شبِ معراج میں یا خواب یا بیداری کے کسی اور مکاشفہ میں اس کو دوزخ میں بچشم خود مبتلائے عذاب دیکھا۔ بہر حال اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جانوروں کے ساتھ بھی بے دردی اور بے رحمی کامعاملہ اللہ تعالیٰ کو سخت ناراض کرنے والا اور جہنم میں لے جانے والا عمل ہے۔
اَللَّهُمَّ احْفَظْنَا
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 462014 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More