معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 264
عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ
صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ
خَبٌّ ، وَلا بَخِيلٌ ، وَلا مَنَّانٌ . (رواه الترمذى)
سخاوت اور بخل
حضرت ابو بکر صدیق ؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا:
دھوکہ باز، بخیل اور احسان جتانے والا آدمی جنت میں نہ جا سکے گا۔ (جامع
ترمذی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ یہ تینوں بُری خصلتیں (دھوکہ بازی، کنجوسی اور احسان کر کے
جتانا) اُن خطرناک اور تباہ کن عادات میں سے ہیں جو جنت کے راستے میں رکاوٹ
بننے والی ہیں، اس لئے جو بندے جنت کے شائق اور دوزخ سے خائف ہوں، اُن کو
چاہئے کہ ان عادتوں سے اپنی حفاظت کریں۔
معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 258
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَجُلًا شَكَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى
اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَسْوَةَ قَلْبِهِ ، فَقَالَ : " امْسَحْ رَأْسَ
الْيَتِيمِ ، وَأَطْعِمِ الْمِسْكِينَ " (رواه احمد)
دل کی قساوت اور سختی کا علاج
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے اپنی قساوت
قلبی (سخت دلی) کی شکایت کی۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ یتیم کے سر پر ہاتھ
پھیرا کرو، اور مسکین کو کھانا کھلایا کرو۔ (مسند احمد)
تشریح
سخت دلی اور سنگ دلی ایک روحانی مرض اور انسان کی بدبختی کی نشانی ہے، سائل
نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے دل اور اپنی روح کی اس بیماری کا حال عرض کر کے آپ
سے علاج دریافت کیا تھا، آپ نے ان کو دو باتوں کی ہدایت فرمائی، ایک یہ کہ
یتیم کے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرا کرو، اور دوسرے یہ کہ بھوکے فقیر مسکین
کو کھانا کھلایا کرو۔ رسول اللہ ﷺ کا بتلایا ہوا یہ علاج علم النفس کے ایک
خاص اصول پر مبنی ہے، بلکہ کہنا چاہئے کہ حضور ﷺ کے اس ارشاد سے اُس اصول
کی تائید و توثیق ہوتی ہے، وہ اصول یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے نفس یا قلب میں
کوئی خاص کیفیت نہ ہو، اور وہ اس کو پیداق کرنا چاہے، تو ایک تدبیر اُس کی
یہ بھی ہے کہ اُس کیفیت کے آثار اور لوازم کو وہ اختیار کر لے، انشاء اللہ
کچھ عرصہ کے بعد وہ کیفیت بھی نصیب ہو جائے گی۔ دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت
پیدا کرنے کے لئے کثرت ذکر کا طریقہ جو حضرات صوفیہ کرام میں رائج ہے، اُس
کی بنیاد بھی اسی اصول پر ہے۔ بہر حال یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنا، اور
مسکین کو کھانا کھلانا دراصل جذبہ رحم کے آ ثار میں سے ہے، لیکن جب کسی کا
دل اس جذبہ سے خالی ہو، وہ اگر یہ عمل بہ تکل ہی کرنے لگے، تو انشاء اللہ
اس کے قلب میں بھی رحم کی کیفیت پیدا ہو جائے گی۔
معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 259
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « السَّخِيُّ قَرِيبٌ مِنَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ
الجَنَّةِ قَرِيبٌ مِنَ النَّاسِ بَعِيدٌ مِنَ النَّارِ ، وَالبَخِيلُ
بَعِيدٌ مِنَ اللَّهِ بَعِيدٌ مِنَ الجَنَّةِ بَعِيدٌ مِنَ النَّاسِ
قَرِيبٌ مِنَ النَّارِ ، وَالْجَاهِلُ السَّخِيُّ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ
عَزَّ وَجَلَّ مِنْ عَابِدٍ بَخِيلٍ » (رواه الترمذى)
سخاوت اور بخل
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سخی بندہ اللہ سے
قریب ہے (یعنی اس کو قرب خدا وندی حاصل ہے) نیز اللہ کے بندوں کے قریب ہے
(یعنی اللہ کے بندے اس کی سخاوت کی صفت کی وجہ سے اس سے تعلق اور محبت
رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ لگے رہتے ہیں) اور جنت سے قریب اور دوزخ سے دور
ہے۔ اور بخیل اور کنجوس آدمی اللہ سے دور، یعنی قرب خداوندی کی نعمت سے
محروم ہے، اللہ کے بندوں سے بھی دور ہے (کیوں کہ اس کی کنجوسی کی وجہ سے وہ
اس سے الگ اور بے تعلق رہتے ہیں) اور جنت سے دور اور دوزخ سے قریب ہے، اور
بلا شبہ ایک بے علم سخی اللہ تعالیٰ کو عبادت گذار کنجوس سے زیادہ پیارا
ہوتا ہے۔ (جامع ترمذی)
تشریح
سخاوت، یعنی اپنی کمائی دوسروں پر خرچ کرنا، اور دوسروں کے کام نکالنا بھی
رحم ہی کی ایک شاخ ہے، جس طرح بخل اور کنجوسی، یعنی دوسروں پر خرچ نہ کرنا،
اور دوسروں کے کام نہ آنا بے رحمی اور سخت دلی ہی کی ایک خاص صورت ہے۔ ان
دونوں کے بارہ میں بھی رسول اللہ ﷺ کے ارشادات سنئے۔
معارف الحدیث - کتاب الاخلاق - حدیث نمبر 263
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا يَجْتَمِعُ الشُّحُّ وَالْإِيمَانُ فِي قَلْبِ
عَبْدٍ اَبَدًا . (رواه النسائى)
سخاوت اور بخل
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حرص و بخل اور
ایمان کبھی ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے (یعنی بخیلی و کنجوسی اور ایمان کا
کوئی جوڑ نہیں)۔ (سنن نسائی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ ایمان کی حقیقت اور بخل کی عادت میں ایسی منافات ہے کہ جس دل
کو حقیقی ایمان نصیب ہو گا اس میں بخل نہیں آ سکتا، اور جس میں بخل دیکھا
جائے تو سمجھ لیا جائے کہ اس میں ایمان کا نور نہیں ہے۔ ذرا سا غور کرنے سے
ہر ایک کی سمجھ میں یہ بات آ سکتی ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات پر
کامل ایمان و یقین کے بعد دل میں بخل اور کنجوسی جیسی کسی خصلت کے لیے کوئی
گنجائش ہی نہیں رہ سکتی۔
|