کتابِ حق پر اہلِ کتاب کی شہادتِ حق

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُرَةُالاَحقاف ، اٰیت 1 تا 3 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
حٰمٓ 1
تنزیل الکتٰب
من اللہ العزیز
الحکیم 2 ماخلقنا
السمٰوٰت والارض و
ما بینھما الّا بالحق و
اجل مسمی والذین کفروا
عما انذروا معرضون 3
اللہ کا تعارف کرانے والے محمد کی ذات پر اللہ غالب کار و حکمت کار نے یہ کتابِ برحق اپنے اِس پیغامِ بر حق کے ساتھ نازل کی ہے کہ اللہ نے یہ جو آسمان و زمین پیدا کیۓ ہیں اور اِن زمین و زمین کے درمیان انسان و حیوان کی زیست کے جو ساز و سامان پیدا کیۓ ہیں وہ اپنی بہترین تدبیر کے ساتھ پیدا کیۓ ہیں اور اُس مقررہ مُدت تک برقرار رکھنے کے لیۓ پیدا کیۓ ہیں جس مقررہ مُدت میں انسانی عمل کے وہ نتائج ظاہر ہوں گے جن نتائج کی بُنیاد پر انسان کو جزاۓ عمل اور سزاۓ عمل دی جاۓ گی لیکن عمل اور نتائجِ عمل کے مُنکر اِس حقیقت کا انکار کر رہے ہیں جو حقیقت ہم نے اپنی اِس کتاب میں بیان کی ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُوت کا نام { اَحقاف } ہے جس کا معنٰی گھاٹی ہے اور { اَحقاف } کی اِس گھاٹی پر آنے والے تعریف کے { الف لام } نے { اَحقاف } کی اِس گھاٹی کو نکرہ سے معرفہ بناکر وہ خاص گھاٹی بنا دیا ہے جس خاص گھاٹی سے مُراد وہ گھاٹی ہے جو انسان کی جانے والی اِس دُنیا اور انسان پر آنے والی اُس عُقبٰی کے درمیان حائل ہے جس عُقبٰی کا قُرآنی نام یومِ قیامت ہے اور یہ وہی مُعتبر یومِ قیامت ہے جس کا سُورَةُالزُمر سے لے کر سُورةُالاَحقاف کی اِن 8 سُورتوں میں تنزیلِ کتاب کے 8 مُعتبر حوالوں کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے لیکن اہلِ روایت نے دُنیا اور عُقبٰی کے درمیان حائل ہونے والی قیامت کی اِس گھاٹی کو شعبِ ابی طالب کی اُس گھاٹی کے ساتھ منسوب کیا ہوا ہے جو گھاٹی مکے ایک علاقے کوہِ ابو قُبیس کی چند گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی تھی اور اُس گھاٹی پر صاحبِ تفہیم القُرآن نے تفہیم القرآن کی جلد چار میں جو تعارفی تعلیقات تحریر کی ہیں اُن تعلیقات میں اِس سُورت کا تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوۓ یہ فکر انگیز نوٹ بھی تحریر کیا ہے کہ سن 10 نبوی کا سال { حضور کی حیاتِ طیبہ میں انتہائی سختی کا سال تھا ، تین برس سے قریش کے تمام قبیلوں نے مل کر بنی ہاشم اور مسلمانوں کا مکمل مقاطعہ کر رکھا تھا اور حضور اپنے خاندان اور اپنے اصحاب کے ساتھ شعبِ ابی طالب میں محصور تھے ، قریش کے لوگوں نے ہر طرف سے اِس محلے کی ناکہ بندی کر رکھی تھی جس سے گزر کر کسی قسم کی رسد اندر نہ پُہنچ سکتی تھی ، صرف حج کے زمانے میں یہ محصورین نکل کر کُچھ خریداری کر سکتے تھے مگر ابو لہب جب بھی ان میں سے کسی کو بازار کی طرف ، یا کسی تجارتی قافلے کی طرف جاتے دیکھتا ، پکار کر تاجروں سے کہہ دیتا کہ جو چیز یہ خرینا چاہیں اِس کی قیمت اتنی زیادہ بتاؤ کہ یہ خرید نہ سکیں ، پھر وہ چیزیں میں تم سے خرید لوں گا اور تُمہارا نقصان نہ ہونے دوں گا ، متواتر تین سال کے اِس مقاطعہ نے مسلمانوں اور بنی ہاشم کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی اور اِن پر ایسے ایسے سخت وقت گزر گۓ تھے کہ جن میں بسا اوقات گھاس اور پتے کھانے کی نوبت آجاتی تھی ، خدا خدا کر کے یہ محاصرہ اِس سال ٹوٹا ہی تھا کہ حضور کے چچا ابوطالب جو دس سال سے آپ کے لیۓ ڈھال بنے ہوۓ تھے وفات پاگۓ اور اِس سانحے پر بمشکل ایک مہینہ گزرا تھا کہ آپ کی رفیقہِ حیات حضرت خدیجہ بھی انتقال فرما گئیں جن کی ذات آغازِ نبوت سے لے کر اس وقت تک آپ کے لیۓ وجہِ سکون و تسلی بنی رہی تھی ، ان پے در پے صدموں اور تکلیفوں کی وجہ سے حضور اِس سال کو رنج و غم کا سال فرمایا کرتے تھے ، حضرت خدیجہ اور ابو طالب کی وفات کے بعد کفار مکہ نبی صلی اللہ رلیہ وسلم کے مقابلے میں اور زیادہ جری ہو گۓ ، پہلے سے زیادہ آپ کو تنگ کرنے لگے حتٰی کہ آپ کا گھر سے باہر نکلنا بھی مشکل ہو گیا } چونکہ اِس واقعے کا اِس سُورت کی کسی اٰیت میں اشارتًہ بھی کوئی ذکر نہیں ہوا ہے اِس لیۓ صاحبِ تفہیم نے اسی سلسلہِ کلام میں کُچھ آگے چل کر اِس واقعے کی جو توجیہ پیش کی ہے وہ توجیہ یہ ہے کہ { یہ حالات تھے جن میں یہ سورت نازل ہوئی ، جو شخص بھی ایک طرف ان حالاتِ نزول کو دیکھے گا اور دوسری طرف اِس سورت کو بغور پڑھے گا اسے اس امر میں کوئی شبہ نہ رہیگا کہ فی الواقع یہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا کلام نہیں ہے بلکہ " اس کا نزول اللہ زبر دست اور دانا کی طرف سے ہے" اس لیۓ کہ اول سے آخر تک پوری سورہ میں کہیں اُن انسانی جذبات و تاثرات کا ایک ادنٰی شائبہ تک نہیں پایا جاتا جو ان حالات سے گزرنے والے انسان کے اندر فطری طور پر پیدا ہوتے ہیں ، اگر یہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا کلام ہوتا جنہیں پے در پے صدمات اور مصائب کے بے پناہ ہجوم اور طائف کے تازہ ترین چرکے نے خستہ حالی کی انتہا کو پُہنچا دیا تھا تو اس سورے میں کہیں تو اُن کیفیات کا عکس نظر آتا جو اس وقت آپ کے دل سے گزر رہی تھیں } مطلب یہ ہوا کہ اگر یہ کلام نبی کا اپنا کلام ہوتا تو آپ اپنے اِس کلام میں اپنے اُس درد کا ضرور اظہار فرماتے جو آپ پر اِس عرصے میں گزرا تھا لیکن یہ کلام چونکہ اللہ تعالٰی کا کلام ہے اِس لیۓ اللہ تعالٰی نے اپنے اِس کلام میں اپنے نبی پر گزرنے والے اُس تمام رنج و غم کو نظر انداز کر دیا ہے جو رَنج و غَم تین سال کے اِس طویل عرصے میں آپ پر گزرا ہے ، وہ تو خیر گزری کہ 200 برس بعد اِس اُمت میں ہمارے وہ نیک دل راوی پیدا ہو گۓ جن نیک دل راویوں نے اپنی اِن روایات میں آپ کی ذاتِ گرامی پر گزرنے والے رنج و درد کے وہ حالات بیان کر دیۓ جو اِن اہلِ روایت نے اپنی روایات میں بیان کیۓ ہیں ، اگر یہ راوی یہ حالات بیان نہ کرتے تو اِس سورت کا یہ پہلو کبھی بھی سامنے نہ آتا جس کا اِس سُورت کے اِس مضمون کو سمجھنے کے لیۓ سامنے آنا لازم تھا ، ہمیں اہلِ روایت کی اِن روایات کی اِن تفصیلات پر کسی تبصرے کی ضروت نہیں ہے سواۓ اس کے کہ اِن تفصیلات سے یہ بات تو بہر حال ثابت ہو جاتی ہے کہ قُرآن کی اٰیات کا اور اہلِ روایت کی اِن روایات کا آپس میں کوئی بھی تعلق نہیں ہے تاہم ہم نے اِس سُورت کا جو موضوعاتی عنوان قائم کیا ہے اُس موضوعاتی عنوان کی تفصیل اِن اٰیات کے بعد معا بعد آنے والی اٰیات میں آرہی ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 462062 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More