*ایران کا بادشاہ ھُرمزان بیڑیوں اور زنجیروں میں جکڑا
ہوا ، انتہائی ذلت وخواری کے ساتھ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے کھڑا
تھا ۔*
*حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا کہ بات چیت کرو ۔*
*ھُرمزان نے کہا کہ زندوں والا کلام کروں یا مُردوں والا ؟*
*حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ( مُردوں والا ) نہیں ، بلکہ زندوں
والا کلام کرو ۔*
*ھُرمزان کہنے لگا : ہم شان والے تھے اور تم جاہلیت میں پڑے تھے ، نہ ہمارے
لیے کوئی دین تھا اور نہ تمہارے لیے ، ہم عرب کے لوگوں کو کتوں کی طرح
دھتکارتے تھے ، پھر جب اللہ نے تم کو دین کی وجہ سے عزت دی اور اپنا رسول (
صلی اللہ علیہ وسلم ) تم میں سے مبعوث کیا تو ہم نے تمہاری اطاعت نہ کی ۔*
*حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم ایسی باتیں کرتے ہو ، جب کہ تم
ہمارے قبضہ میں ایک قیدی کی حیثیت سے ہو ؟*
*اور فرمایا : اس کو قتل کر دو ۔*
*ھُرمزان نے کہا کہ کیا تمہارے ( پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تمہیں یہ
تعلیم دی ہے کہ قیدی کو امان دے کر پھر قتل کر دو ؟*
*حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے تجھے کب امان دیا ہے ؟*
*ھُرمزان نے کہا کہ ابھی تو آپ نے مجھ سے کہا کہ زندوں والا کلام کرو ، جس
کو اپنی جان کا خطرہ ہوتا ہے ، وہ زندہ نہیں ہوتا ۔*
*حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے افسوس کرتے ہوئے فرمایا : اللہ اس کو مارے ، اس
نے امان لے لیا اور مجھے اس کی خبر بھی نہ ہوئی ۔*
*حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے 100 قصے ، ص : 61*
مؤلف : شیخ محمد صدیق منشاوی
مترجم : مولانا خالد محمود صاحب
|