''مادرِ ملت'' کا لقب صرف اُنہیں ہی زیبا تھا۔

تاریخ کے جھرونکوں سے
''مادرِ ملت'' کا لقب صرف اُنہیں ہی زیبا تھا۔
تاریخ کے جھرونکوں سے
''مادرِ ملت'' کا لقب صرف اُنہیں ہی زیبا تھا۔
پچیس روپے کا عطیہ جسے قائد اعظم نے پچیس ہزار کے برابر قرار دیا۔
قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے اسٹینو گرافر مجاہد حسین لکھتے ہیں کہ ''حسب ِ عادت گھریلو نوکروں نے مجھ سے راہ و رسم پیدا کرنے کی کوشش شروع کردی ۔ ایسے نوکروں میں پرسنل اسسٹینٹ یا پرائیویٹ سیکرٹری کی حیثیت ایسی ہی ہوتی جیسے گاؤں میں بوجھ بجھکڑ کی۔لیکن مقصد اُن نوکروں کا کچھ اور ثابت ہوا۔گھر کے تمام انتظامات مس جناح(مادر ِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ) کے ہاتھ میں تھے۔
مس جناح نوکروں پر اعتماد ذرا کم کرتی تھیں۔آج سے تیس سال قبل غالباً مارچ 1938ء میں اُنہوں نے مجھے تین خط ڈاک میں ڈالنے کے لیے دئیے۔اور تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ''یہ خط تم خود ڈاک میں ڈالنا،کسی نوکر کو مت دینا،ورنہ ٹکٹ اُتار کر خطوں کو پھاڑ پھینکے گا۔''
میں عرض کیا کہ وہ ''ایسا نہیں کرسکتا۔''
مگر اُنہوں نے جواباً فرمایا ''ایسا ہی تو کرتے ہیں یہ لوگ،تم کیا جانو،اگر تم خود نہیں ڈال سکتے تو لاؤ واپس کردو۔''
مجاہد حسین کے لکھتے ہیں کہ اُس زمانہ میں دو پیسہ میں تین خط کا پوسٹنگ سرٹیفکیٹ لیا جاتا تھا،جو اب پندرہ پیسے میں آتا ہے۔میں نے یہ سرٹیفکیٹ خرید کر اپنے پاس رکھا،زیادہ تر اِس خیال سے کہ اگر مکتوب الیہ نے کبھی مس جناح سے کہہ دیا کہ مجھے خط نہیں ملا تو میرا شمار بھی اُنہی نوکروں میں ہونے لگے گا، جو ٹکٹ اُتار کر خطوں کو پھاڑ پھینکتے تھے۔عجیب اتفاق ہے کہ ایک مکتوب الیہ نے واقعی یہ لکھ بھیجا کہ خط نہیں پہنچا۔(اُن دنوں )بڑے آدمیوں میں یہ فیشن بھی عام تھا۔
''تم نے وہ خط خود ڈاک میں ڈالے تھے۔؟ اُن میں ایک نہیں پہنچا!''مس جناح نے ناراضگی کے لہجے میں اُن سے کہا۔
میں نے گزارش کی کہ یہ ''کیسے ہوسکتا ہے۔''
''ہوا جو ہے،یہ دیکھو خط، اُس مکتوب الیہ کا!''اُنہوں نے فرمایا۔
''یہ دیکھئے پوسٹنگ سرٹیفکیٹ ،اُن کے نام کا خط اِس میں شامل ہے۔'' اُنہوں نے دراز سے سرٹیفکیٹ نکال کر مس جناح کو دیتے ہوئے اپنی صفائی پیش کی۔
جس پر مادر ِملت کو سخت حیرت ہوئی اور اُنہیں دو پیسے کے بجائے ایک آنہ دے کر سرٹیفکیٹ لے گئیں۔
مجاہد حسین لکھتے ہیں کہ جب میں نے اِس واقعہ کا ذکراپنی بیوی سے کیاتو کہنے لگیں کہ مس جناح غیر معمولی طور پر صاف گو اور انتہائی دیانت دار معلوم ہوتی ہیں۔ایسی خواتین سے آج کل کے ملازم عام طور پر نالاں ہی رہا کرتے ہیں۔اگر ہوسکے تو میرے لیے اُن سے کوئی وقت لینا چاہیے۔بیگم نےمادرِ ملت سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ۔
یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ جو دن مس جناح نے مقرر فرمایا،اُسی دن آل انڈیا ریڈیو سے میری بیگم کے نام پچیس روپے کا ایک چیک آیا تھا۔کسی تقریر یا ڈرامہ کے صلے میں۔وہ چیک اُس نے مس جناح کی خدمت میں پیش کردیا۔یہ کہہ کر کہ یہ میری اپنی محنت کا معاوضہ ہے اور میں اِس کو مسلم لیگ کو دینا چاہتی ہوں۔آپ مسٹر جناح کو دے دیجیئے۔
مسٹر جناح اور میں بھی ڈرائینگ روم میں بیٹھے تھے۔۔۔۔میرااُن کے ساتھ ڈرائنگ روم میں بیٹھنے کا یہ پہلا موقع تھا۔
''تم خود دے دو یہ مسٹر جناح کو۔''مس جناح نے فرمایا۔
''بے حد شکریہ آپ کا،میں آپ کے مسلم لیگ کی پالیسی اور پروگرام سے اتفاق کرنے کی بڑی قدر کرتا ہوں۔یہ پچیس روپے،پچیس ہزار روپے کی حیثیت رکھتے ہیں۔کاش آپ کے شوہر بھی اِس چیز کو سمجھتے سکتے۔''قائد اعظم نے چیک لیتے ہوئے فرمایا۔
''سرکاری ملازمت کے قواعد وضوابط سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دیتے۔''میں عرض کی ۔
''ٹھہرو ،ایک وقت آئے گا جب سرکاری ملازمت میں داخلہ کی شرط مسلم لیگ کی ممبر شپ ہوگی۔''قائد اعظم نے فرمایا۔
''غیر مسلم لیگی کو کوئی پوچھے گا بھی نہیں۔'' مس جناح نے(قائد کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے) کہا۔
آگے لکھتے ہیں کہ مس جناح کا برتاؤ ہمارے ساتھ مشفقانہ سے مشفقانہ تر ہوتا گیا ،اور جب کبھی ملنا ہوتا وہ بزرگانہ انداز میں پندونصائح فرماتیں۔1945ء میں میرا تبادلہ دہلی سے کراچی ہوگیا۔پیرڈائز سینما کے سامنے پٹیل چیمبرز کے ایک فلیٹ میں ہمارا قیام تھا۔۔۔۔میں محکمہ سول سپلائز میں اسسٹینٹ کنٹرولز جنرل تھا اور میرے فرائض میں کمیاب اشیاء کی خرید کے لیے پرمٹ جاری کرنا بھی تھا۔ایک روز یوسف ہارون دفتر میں تشریف لائے اور کہنے کہ ''مسٹر جناح کو ایک پارکر قلم کی ضرورت ہے ،آپ پرمٹ دے دیجئے۔''
''مسٹر جناح کا قیام کہاں ہے اور کون سا قلم چاہیے اُن کو۔''میں نے پوچھا۔
''کراچی میں جسٹس طیب جی کے ہاں مقیم ہیں،پارکر کے بہترین قلم کا پرمٹ دے دیجئے۔''
میں نے ایک کھلا پرمٹ دے دیا کہ جو قلم بھی مسٹر جناح پسند فرمائیں اُن کو فروخت کردیا جائے۔
یوسف ہارون صاحب چلے گئے تو میں نے جسٹس طیب جی کے ہاں ٹیلی فون کیا،مس جناح نے اگلے روز صبح کا وقت دیا،اور ہم تینوں یعنی چشتی،اُس می ماں اور میں حاضر خدمت ہوئے۔چشتی اُس وقت ایک سال کا تھا۔مس جناح نے اُس کو پہلی بار دیکھا،بہت خوش ہوئیں۔گود میں لیا،مسٹر جناح کو دکھایا، دونوں نے مبارکباد دی اور دعائیں دے کر واپس کردیا۔چند روز بعد مس جناح ایک شام کو پٹیل چیمبرز میں ہمارے ہاں آئیں اور چشتی کے لیے ایک تحفہ لائیں،فرمانے لگیں کہ ''مسٹر جناح ڈاکٹر پٹیل سے دانت بنوانے آرہے تھے،میں نے کہا کہ تم لوگوں سے ملتی چلوں۔کل ہم لوگ بمبئی واپس چلے جائیں گے۔
بیس (20) سال بعد اگست 1962ءمیں بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔جب چشتی کیمبرج جانے لگاتو اُنہوں نے سب کو خاص طور پر مدعو کیا،اعلیٰ کافی پلائی اور فلیگ اسٹاف ہاؤس کے باغیچہ میں گروپ فوٹو بھی کھنچوایا۔یہ تھا سلوک مس جناح کا اپنے ایک خادم اور اُس کے بال بچوں کے ساتھ۔۔۔مادرِ ملت اکثر مجھ سے اُردو میں بات کرتی تھیں اور نہ معلوم کیوں ''تو'' کہتی تھیں۔اگر اُس وقت میری زندہ ہوتی تو وہ بھی یہی کہہ کر پکارتی!
(مگر)آج نہ مادر ملت ہیں،اور نہ میری بیوی۔یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ دونوں کا یکے بعد دیگرے انتقال ہوا اور چشم زدن میں بیوی سے پہلی اور ماں سے دوسری مرتبہ محروم کردیا گیا۔
(اقتباس کتاب :۔''روحوں کے رشتے''کے باب ''مادرِ ملت ''صفحہ نمبر62-57۔از :۔صبح مجاہد۔مجاہد حسین۔طبع دوم 1978ء،مشہور آفسٹ پریس کراچی)
(محمداحمد ترازی
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 312507 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More