فارن فنڈنگ کا اعتراف۔۔۔ پی ٹی آئی کالعدم؟ کیا عمران خان نئی پارٹی بنانے والے ہیں؟

image
 
فارن یا ممنوعہ فنڈنگ کا معاملہ پاکستان تحریک انصاف کیلئے سوہان روح بنا ہوا ہے، چیئرمین عمران خان سمیت پوری پارٹی ایک طرف ممنوعہ فنڈنگ سے انکاری ہے تو دوسری طرف پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور نے الیکشن کمیشن کے سامنے پی ٹی آئی کی ممنوعہ فندنگ کا اعتراف کرلیا ہے۔
 
کیس ہے کیا؟
تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے نومبر 2014 میں پارٹی میں غیر ملکی فنڈنگ کا معاملہ اٹھایا اور الیکشن کمیشن کو پارٹی میں اندرونی مالی بے ضابطگیوں کا نوٹس لینے کیلئے درخواست دی-جس میں انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ تحریک انصاف نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز وصول کرکے لاکھوں ملین ڈالرز کی بذریعہ ہنڈی منتقلی کے لیے 2 آف شور کمپنیوں کا نام استعمال کیا۔
 
اکبر ایس بابر کے مطابق تحریک انصاف کے بینک اکاؤنٹس میں 2 آف شور کمپنیوں کے ذریعے غیر قانونی طور پر پیسہ بیرونِ ملک سے پاکستان منتقل ہوا۔ لہٰذا تحریکِ انصاف کے تمام عہدیداران جلسے جلوسوں اور دیگر سیاسی سرگرمیوں میں جو رقم استعمال کرتے رہے وہ ممنوعہ ذرائع سے حاصل کی گئی تھی۔
 
image
 
فارن فنڈنگ کا اعتراف
الیکشن کمیشن میں دلائل کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور نے اعتراف کیا کہ 2010ء میں پی ٹی آئی امریکا میں رجسٹرڈ ہوئی، ڈونیشن پالیسی اور چیئرمین پی ٹی آئی کا خط اسکروٹنی کمیٹی دستاویزات میں لگا ہے جس میں لکھا ہے کہ سینٹرل فنانس کمیٹی کی اجازت کے بغیر کوئی فنڈنگ ہوئی تو پی ٹی آئی ذمے دار نہیں- تاہم چیئرمین پی ٹی آئی نے لیٹر میں لکھا ہے کہ لوگ پی ٹی آئی کے نام پر پیسہ اکھٹا کر رہے ہیں جس کا انہوں نے سختی سے نوٹس لیا۔
 
پی ٹی آئی فنڈز کا آڈٹ
جنوری 2022میں غیر قانونی فنڈنگ کیس میں اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ 2009 سے 2013 کے دوران پارٹی کی آمدن اور اخراجات آپس میں مطابقت نہیں۔
 
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پی ٹی آئی نے 5 سال کے عرصے میں 320 ملین روپے کے فنڈز چھپائے۔پی ٹی آئی نے 2008-2009 کے دوران دو بینکوں کے بینک اکاؤنٹس ظاہر نہیں کیے کیونکہ 77 میں سے صرف 12 اکاؤنٹس سامنے آئے تھے۔آڈٹ فرم کی طرف سے فراہم کردہ نقدی رسیدیں بھی بینک کھاتوں سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
 
فارن فنڈنگ سے متعلق قانون
آئین میں سیاسی پارٹیز آرڈر 2002ء کی دفعہ 13 کے تحت سیاسی پارٹیوں کو کوئی رقم کہاں سے حاصل ہوئی، اثاثہ جات کیا ہیں اور ان پر قرض اور واجبات کی تمام تر تفصیلات اور بینک اکاؤنٹ کی آڈٹ رپورٹ الیکشن کمیشن میں جمع کروانا ضروری ہے۔
 
image
 
ہر سیاسی پارٹی کے سربراہ پر یہ لازم ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ایک سرٹیفکیٹ جمع کروائے جس میں یہ تحریر ہوتا ہے کہ تمام تر مالی تفصیلات درست فراہم کی گئی ہیں اور ان میں کسی قسم کا تضاد، بے ضابطگی یا بدعنوانی نہیں پائی جاتی۔
 
پی ٹی آئی کالعدم؟
پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء کی شق 15 کے تحت وفاقی حکومت کو اختیار دیا گیا ہے کہ ایسی کسی بھی سیاسی جماعت کو تحلیل کرنے کا ڈیکلریشن جاری کرے جسے غیر ملکی فنڈز دئیے جاتے ہوں یا وہ پاکستان کے خلاف اقدامات بشمول دہشت گردی یا انتشار پھیلانے میں مصروف ہو۔اس حوالے سے سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی غیر ملکی ممنوعہ فنڈنگ کے حقائق سامنے آنے پر پی ٹی آئی کو کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔
 
نئی پارٹی
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس کی وجہ سے پی ٹی آئی کو کالعدم بھی قرار دیا جاسکتا ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ چیئرمین عمران خان اور انکے ساتھی مسلسل الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔
 
اقتدار سے بے دخلی کے بعد یہ بھی اطلاعات ہیں کہ پارٹی کا نیا نام بھی تجویز کیا جارہا ہے کیونکہ ماضی میں متحدہ رہنماؤں پر الزامات کے بعد ایم کیوایم لندن اور ایم کیوایم پاکستان میں تبدیل ہوچکی ہے اور عین ممکن ہے کہ پی ٹی آئی کے کالعدم ہونے کی صورت میں عمران خان نئے نام سے اپنی جماعت کو رجسٹرڈ کروالیں گے۔
YOU MAY ALSO LIKE: