علم برائے عمل
(Bint-e- Mynir, Sargodha)
اپنے اردگرد کے ماحول اور اس میں رونما ہونے والے واقعات
نے آج قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا کہ کچھ حروف قلم میں پرو کر معاشرے کے
کارکنوں تک پہنچائے جائیں۔ سب سے پہلے میں معاشرتی برائیوں میں سے سب سے
پہلے ایک ادنیٰ سی برائی کا ذکر کرنا چاہوں گی جو کہ ہے "ماحولیاتی آلودگی"
میر ے خیال کی مطابق سب سے زیادہ گند یا کوڑا کرکٹ ہماری تعلیمی اداروں میں
پایا جاتا ہے جو کہ ایک تعلیم و تجربہ اور شعور و فہم کی جگہ سمجھ جاتی ہے
۔جہاں ہمیں سکول میں پہلا قدم رکھنے سے لے کر آخری وقت تک کتابوں کی ذریعے
بہت سے حقوق و فرائض ،ادب احترام ۔کے بارے میں بتایا جاتا ہے ۔اُن حقوق و
فرائض میں سے ایک فریضہ ۔لیکن افسوس صد افسوس یہی طلباء و طالبات اپنی عملی
زندگی میں ان پر عمل پیرا نہی کرتے تو چلیں اپنی موضوع کی طرف چلتے تو میرا
تمام دنشواؤں اور اساتذہ اور والدین سے سوال ہے کہ کیا وجہ ہے جو ہمیں آگے
بڑھنے سے روک رہی ہے جو ہمیں علم حاصل کرنے کے باوجود جاہل رکھئے ہوئے ہے ۔
۔جیسے کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کے "جاننے والے اور نہ جاننے والے
کبھی برابر نہی ہو سکتے ۔" لیکن آج دیکھیں کہ جو کام ان پڑھ کر رہے ہیں وہی
ڈگری ہولڈرز بھی کر رہے ہیں تو کیا ہم تعلیم یافتہ قوم کہلانے کی لائق ہیں
؟ ۔۔۔۔۔۔کیا آپ کو نہی لگتا کہ ہمارے تعلیمی نظام میں عمل کی کمی نہی ہے؟
تعلیمی نظام سے مراد صرف ادارے نہیں آتے بلکہ ہمارا ماحول اور ماں کی گود
بھی آتی ہے ۔ ہمارے والدین ،ہمار ے اساتذہ ہمارے لیے مثالی شخصیت کی حثیت
رکھتے ہیں ۔معزرت کے ساتھ لیکن بدقسمتی سے یہ شخصیات میرے مشاہدے کے مطابق
تعلیم تو پُہنچا رھے ہیں لیکن عمل کے میدان میں کارکردگی نہ ہونے کی برابر
ہے ۔
○"عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی"
○عمل کے بغیر جتنا بھی علم آ جائے فضول ہے ۔اس لیے میں تمام لوگوں سے
التماس کرتی ہوں کہ عمل کو زندگی کا حصہ بنتی ہوئے اپنی زندگیوں کہ ساتھ
ساتھ اپنی ملکوں قوم کو باعزت مقام عطا کریں ۔ اب وقت ہے خود احتسابی کا ،اپنی
ذات کو جانچنے کا تو چلیے اپنے ارد گرد جانچ پڑتال کرنے کی بجائے خود کو
کٹہرے میں کھڑا کرتے ہیں ۔
|
|