#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالاَحقاف ، اٰیت 33 تا 35
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
اولم
یروا ان اللہ
الذی خلق السمٰوٰت
والارض ولم یعی بخلقھن
بقٰدر علٰی ان یحیی الموتٰی بلٰی
انهٗ علٰی کل شئی قدیر 33 ویوم یعرض
الذین کفروا علی النار الیس ھٰذا بالحق قالوا
بلٰی وربنا قال فذوقوا العذاب بما تکفرون 34 فاصبر
کما صبر اولوا العزم من الرسل ولا تستعجل لہم کانھم
یوم یرون ما یوعدون لم یلبثوا الا ساعة من نھار فھل یھلک
الا القوم الفٰسقین 35
اے ہمارے رسُول ! اِس بیکراں عالَم کی جس تخلیق کو زمین کی اِس چھوٹی سی
مخلوق نے اللہ کی تخلیق تسلیم کیا ہے تو کیا اُس نے اِس حقیقت پر کبھی بھی
غور نہیں کیا ہے کہ جس خالق نے یہ عظیم عالَم تخلیق کیا ہے اور جو خالق
اپنے اِس عالَم کو مُسلسل بڑھا رہا ہے تو آخر اُس خالق کے لیۓ یہ کام کون
سا مُشکل کام ہے کہ اُس نے جس مخلوق کو ایک بار پیدا کیا ہے وہ اُس مخلوق
کو فنا کرنے کے بعد دوبارہ بھی پیدا کر دے اور یا پھر اِن لوگوں نے یہ خیال
کر لیا ہے کہ جو خالق تخلیق پر یہ تخلیق کرتا چلا آرہا ہے اَب وہ اپنی
تخلیق کے اِس عمل سے تَھک ہار کر بیٹھ گیا ہے حالانکہ وہ تخلیق کی پہلی
ساعت سے اَب تک بلا تکان ایک تخلیق کے بعد ایک دُوسری تخلیق پر بھی مُکمل
قُدرت رکھتا ہے یہاں تک کہ جب اِس مُنکر مخلوق کے اَفراد مرنے کے بعد اُس
کے سامنے پیش کیۓ جاتے ہیں تو اُس وقت جب اِن سے اِس دُوسری تخلیق کے حق
ہونے کے بارے میں پُوچھا جاتا ہے تو وہ اِس کی تصدیق کرتے ہیں لیکن اُس وقت
اُن کے سابقہ انکار کے باعث اُن کے لیۓ سزاۓ جہنم کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے
اِس لیۓ آپ اِن کے اِس انکار سے دل گرفتہ ہو کر کارِ نبوت کو نمٹانے میں
جلدی اور اِن کی سزا کا وقت قریب لانے میں کوئی عُجلت نہ کریں بلکہ ہمارے
پہلے صابر و شاکر اور حوصلہ مند نبیوں کی طرح صبر و استقامت اور حوصلے کے
ساتھ اپنا کام جاری رکھیں ، جس روز یہ لوگ مشاہدہِ جزا و سزا کے مقام پر
پُہنچ جائیں گے تو اُس روز یہ خود ہی ہر چیز دیکھ لیں گے تاہم آپ یہ بات
اِن کو بتاتے رہیں کہ جو لوگ نتائجِ عمل سے انکار کرتے ہیں وہ نتائجِ عمل
سے ہر گز نہیں بچ سکتے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
سُورَةُالزُمر سے لے کر سُورَةُالاَحقاف تک کی 8 سُورتوں کا آغازِ کلام
اللہ تعالٰی کی وہ عالی مرتبت تنزیل ہے جس عالی مرتبت تنزیل میں اللہ
تعالٰی کی طرف سے انسان کو 115 بار الآخرة اور 70 بار القیامة کے جلّی
عنوانات کے ساتھ بار بار یہ خبر دی گئی ہے کہ انسان اللہ تعالٰی کے جس
عالَم میں زندہ ہے اِس عالَم کا اُس نے جو آغاز کیا ہے اُس آغاز کا ایک
یومِ اَنجام ہے اور اسی یومِ اَنجام کا نام وہ یوم الآخرة اور یوم القیامة
ہے جس یوم الآخرة اور یوم القیامة میں اِس عالَم کی ہر ذی شعور مخلوق سے
اُس کے اعمالِ نیک و بَد کا حساب لیا جاۓ گا اور ہر ذی شعور مخلوق کو اُس
کے ہر نیک و بَد عمل کا ایک مناسبِ حال بدلہ دیا جاۓ گا ، اِس سُورت سے
پہلی سات سُورتوں میں اِس اہم موضوع کے جو اہم مضامین وارد ہوۓ ہیں اِس
سُورت میں بھی وہی مضامین وارد ہوۓ ہیں لیکن اِس سُورت سے پہلی سُورت ،
سُورَةُالجاثیة کی اٰیت 24 کا وہ مقام اِس موضوع کا واحد مقام ہے جس میں
عالَمِ دَھر کے اُن معروف اصطلاحی دَھریوں کا ذکر ہوا ہے جو اُس عالَمِ
دَھر کو تو مانتے ہیں جس میں وہ پیدا ہوتے رہتے اور پیدا ہو کر مرتے ہیں
لیکن اِس دَھر کے اُس خالقِ دَھر کو نہیں مانتے ہیں جس خالق نے اِس دھر اور
اِن اہلِ دھر کو ایک مقصد کے تحت پیدا کیا ہے اِس لیۓ اِس ایک اٰیت کو چھوڑ
کر اِن سُورتوں کی دیگر 491 اٰیات کے اِس موضوع اور اِن موضوعات و مضامین
کے مُخاطب دین کے وہ دعوے دار انسان ہیں جن کو اُن کے شیطان نے اِس فکری
تضاد میں مُبتلا کیا ہوا ہے کہ اِس عالَم کو تو ایک خالق نے ہی پیدا کیا ہے
لیکن اِس خیال میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ جو انسان اِس عالَم کی اِس زمین
پر پیدا ہو کر مرتے ہیں وہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوتے ہیں اور زندہ ہونے
کے بعد اللہ تعالٰی کے دربار میں پیش ہوتے ہیں اور اللہ تعالٰی کے دربار
میں پیش ہونے کے بعد اللہ تعالٰی سے اپنے عملِ نیک و بد کی کوئی جزا و سزا
بھی پاتے ہیں اِس لیۓ اِن مضامین میں انسان کی اپنی اِس مَنطق سے یہ مَنطقی
استدلال کیا گیا ہے کہ اگر تُم اِس بات کا اقرار کرتے ہو کہ اِس عالَم کا
خالق اللہ تعالٰی ہے تو پھر تُم اِس بات پر کیوں اصرار کرتے ہو کہ اللہ
تعالٰی نے اِس عالَم کو کسی مقصد کے بغیر ہی پیدا کر دیا ہے اور اِس عالَم
میں جو انسان پیدا ہوتا ہے وہ کسی مقصد کے بغیر ہی پیدا ہوتا ہے اور کسی
مقصد کے بغیر ہی مر جاتا ہے ، کیا تُم یہ سمجھتے ہو کہ جس خالق نے یہ عظیم
الشان عالَم تخلیق کیا ہے وہ تُمہارے اِس مَنخنی سے وجُود کو صرف پہلی بار
پیدا کر سکتا ہے ، دُوسری بار پیدا نہیں کر سکتا یا پھر تُم اہلِ بائبل کی
طرح یہ خیال کرنے لگے ہو کہ وہ خالقِ عالَم اپنی تخلیقِ عالَم کے پہلے 6
زمانوں میں کام کرتے کرتے تھک گیا ہے اور اَب اُس کی ذات پر وہ ساتواں
زمانہ حاوی ہو چکا ہے جس زمانے میں وہ آرام کر رہا ہے اور اُس کے اِس آرام
کے زمانے یہ عالَم خود سے خود ہی چل رہا ہے ، اِس عالَم میں ہر روز جو
انسان پیدا ہوتے رہتے ہیں وہ ہر روز خود ہی مرتے رہتے ہیں ، نہ اِن کے پیدا
ہونے کا کوئی حساب ہے ، نہ ہی اِن کے مرنے کا کوئی حساب ہے ، نہ موت و حیات
کے درمیان کیۓ گۓ اُن کے کسی اَچھے یا بُرے عمل کا کوئی حساب ہے اور نہ ہی
موت کے بعد اُن کے کسی اَچھے یا بُرے عمل پر اُن کی کوئی و جزا ہوگی ، اِن
خیا لات میں سے تُمہارا کوئی بھی خیال ہو وہ اُن دَھریوں کے اُس غیر مَنطقی
خیال سے زیادہ غیر مَنطقی خیال ہے جو خالقِ عالَم کی ہستی کا انکار کرتے
ہیں اور اُس خیال کی بنا پر وہ نتائجِ عمل اور جزاۓ عمل کا بھی انکار کرتے
لیکن تُم تو خالقِ عالَم کو مانتے کے بعد اُس کی تنزیل اور اُس تنزیل کے
اَحکامِ امر و نہی کا اور اُس انکار کے نتائج کا بھی انکار کرتے ہو جن
نتائج کے اقرار پر تُمہاری نجات کا اور جن نتائج کے انکار پر تُمہاری عدمِ
نجات کا دار و مدار ہے ، اگر یہ بات درست ہے اور یقینا درست ہی ہے تو پھر
تُم تنزیل کی اتباع کا دعوٰی کرنے والے وہ منافق لوگ ہو جو اپنے دعوے کے
مطابق نہ مومن ہو نہ کافر ہو بلکہ وہ خالص منافق ہو جن کو جہنم میں بھی وہ
بدترین جگہ ملے گی جو اُس بدترین جہنم کی سب سے بدترین جگہ ہوگی ، اِس
مضمون کے آخر میں انسانیت و عالَمِ انسانیت کے اِن بدترین نمائندوں کے بارے
میں اللہ تعالٰی نے اپنے نبی علیہ السلام کو اِس اَمر کی ہدایت کی ہے کہ آپ
اِن لوگوں کے اِس حالِ بَد سے آزردہ دل نہ ہوں کیونکہ یہ اپنے مَنطقی
اَنجام کی طرف بڑھ رہے ہیں لہٰذا آپ اِن کے اعمال و اقوال کو نظر انداز
کرکے اپنے کارِ نبوت میں مصروف رہیں لیکن اِن کو بہر حال یہ بتاتے رہیں کہ
تُم اپنے جن اعمال کے جن نتائج کا انکار کر رہے ہو تُمہارے اُن اعمال کے وہ
نتائج دُنیا میں بھی تُم پر ایک وبال لاتے رہیں گے اور آخرت میں بھی تُم پر
ایک وبال کی صورت میں ظاہر ہوں گے اِس لیۓ یہ دینِ حق اِن لادین فرقوں اور
لادین ملتوں کی لفظی بحثوں اور جنگوں کا دین نہیں ہے بلکہ اِس اصول پر
اُستوار کیا گیا دین ہے کہ جو انسان اِس دین کو مانے گا وہ اپنے نتیجہِ عمل
کا ذمہ دار ہوگا اور جو انسان اِس دین کو نہیں مانے گا وہ بھی اپنے ہی
نتیجہِ عمل کے زیرِ بار ہو گا !!
|